ColumnImtiaz Aasi

اعلیٰ افسران کے تبادلوں سے کارکردگی بہتر ہو گی؟

امتیاز عاصی
وفاق اور صوبوں کے امور چلانے میں وفاقی اور صوبائی سروس کے افسران کا اہم کردار ہوتا ہے۔ اگرچہ اعلیٰ افسران کے تبادلے روزمرہ کا معمول ہوتے ہیں سیکرٹریٹ جیسی جگہ ایک کمرہ سے دوسرے کمرے میں جانے سے افسران کی کارکردگی بہتر ہو سکتی ہے؟ البتہ نئی حکومتوں کا اقتدار سنبھالتے ہی بیوروکریسی میں ردوبدل ہمیشہ سے معمول رہا ہے۔ ہونا تو چاہیے اعلیٰ افسران کے تبادلوں کے موقع پر ان کی خفیہ رپورٹس کا جائزہ لیا جائے ہے جس کے بعد انہیں نئی پوسٹنگ دی جاتی ہی۔ لیکن یہ مسلمہ حقیقت ہے سیاسی حکومتوں میں اس کے برعکس پسند و ناپسند کے فارمولے پر عمل کرتے ہوئے افسران کی پوسٹنگ کی جاتی ہے۔ اعلیٰ افسران کو میرٹ سے ہٹ پر پوسٹ کیا جائے تو اچھے ریکارڈ کے حامل افسران کی دل شکنی ہونا یقینی بات ہے۔ تاہم مشاہدہ کیا گیا ہے سیاسی ادوار میں ان اعلیٰ افسران کو اہم عہدوں سے نواز جاتا ہے جن کا کوئی نہ کوئی سیاسی بیک گرائونڈ ہو۔ پی ٹی آئی دور میں جس سبک رفتاری سے اعلیٰ افسران کے تبادلے ہوتے رہے ہیں پنجاب کی سیاسی تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی جیسا کہ چند ماہ بعد آئی جی پولیس اور چیف سیکرٹریوں کے تبادلوں کے علاوہ انتظامی سیکرٹریوں میں ردوبدل اور کمشنر اور ڈپٹی کمشنروں کے تبادلوں کے نئے نئے ریکارڈ قائم کئے گئے۔ بعض حلقوں کے مطابق اس دور میں اعلیٰ افسران کے تبادلوں کے عوض بھاری رشوت کا عمل دخل رہا ہے لیکن ہم اس بات سے اتفاق نہیں کرتے کوئی ڈپٹی کمشنر لگنے کے لئے کروڑوں رشوت دے گا جب کہ اسے یہ علم ہو وہ زیادہ سے زیادہ چند ماہ اپنے عہدے پر رہ سکے گا۔ کوئی مانے نہ مانے سیاسی حکومتوں میں بالعموم اعلیٰ افسران کے تبادلے ارکان اسمبلی کی سفارش پر ہوتے ہیں۔ جس ملک میں پٹواری کے تبادلے کے لئے صدر پاکستان وزیراعلی کو سفارش کریں اس ملک میں سب کچھ ممکن ہے۔ ہمارے ایک کلاس فیلو پٹواری نے ایک وفاقی وزیر کی وساطت سے جنرل پرویز مشرف سے وزیراعلیٰ پرویز الٰہی کو سفارش کرا کر من پسند پوسٹنگ حاصل کی۔ قارئین آپ کے خیال میں موجودہ دور میں جن اعلیٰ سرکاری افسران کو اہم عہدوں پر لگایا گیا ہے ان کا کوئی سیاسی بیک گرائونڈ نہیں ہوگا؟ پنجاب میں سیکرٹری داخلہ کے اہم عہدے پر مسلم لیگ کے ایک سنیئر عہدے دار کے داماد کیپٹن نورالامین مینگل کو لگایا گیا ہے۔ اس سے قبل وہ کمشنر راولپنڈی اور میاں شہباز شریف کے سترہ ماہ کے دور میں چیئرمین سی ڈی اے اور چیف کمشنر اسلام آباد جیسے اہم عہدوں پر تعنیات رہ چکے ہیں۔ نورالامین مینگل کا تعلق بلوچستان کے ضلع نوشکی سے ہے۔ ساجد ظفر ڈال شہباز شریف کے دور میں وزیراعلیٰ سیکرٹریٹ میں سیکرٹری کوارڈینیشن تھے۔ اس قبل وہ راولپنڈی میں ڈی سی او اور سپیشل سیکرٹری تعلیم رہ چکے تھے۔ حکومت بدلتے ہی انہیں نئی وزیراعلیٰ مریم نواز کے پرنسپل سیکرٹری کے اہم عہدے پر فائز کیا گیا ہے۔ ڈاکٹر شعیب اکبر جن کا تعلق وفاقی سیکرٹریٹ سروس ہے کم از کم پندرہ سے بیس سال سے پنجاب میں تعینات ہیں۔ اگرچہ درمیان میں انہیں کچھ عرصے کے لئے وفاق میں جانا پڑا لیکن گوجرانوالہ کے سیاسی گھرانے سے تعلق کی وجہ پنجاب میں طویل عرصہ تک تعیناتی کی وجہ رہی ہے۔ زمان وٹو جن کا تعلق صوبائی سروس سے ہے دیپالپور کے وٹو خاندان سے ان کا تعلق ہے مسلم لیگ نون کے ایم این اے معین وٹو کے قریبی رشتہ دار ہیں انہیں بورڈ آف ریونیو میں ممبر ٹیکسز لگایا گیا ہے۔ شوکت علی جن کا تعلق وفاقی سروس سے ہے کے پی کے ضلع ہزارہ سے ان کا تعلق ہے قریبا دو عشروں سے پنجاب میں تعینات ہیں۔ نبیل احمد اعوان میاں شہباز شریف کے دور میں وزیراعلیٰ سیکرٹریٹ میں اہم عہدے پر رہ چکے ہیں کمشنر گوجرانوالہ بھی رہے ہیں ۔ پنجاب کی اہم ترین پوسٹنگ چیئرمین پی اینڈ ڈی لگایا گیا ہے۔ کیپٹن ثاقب ظفر جن کا تعلق راولپنڈی ضلع کی تحصیل کہوٹہ سے ہے مسلم لیگ نون کے دور میں کمشنر راولپنڈی، سیکرٹری صحت اور کمشنر بہاول پور رہ چکے ہیں ۔ دو عشروں سے پنجاب میں تعینات ہیں۔ اسد اللہ خان کا تعلق ضلع جہلم کی تحصیل پنڈداندن خان سے ہے وفاق میں عرصہ دراز تک سی ڈی اے میں تعینات رہنے کے بعد قریبا اٹھارہ سال سے پنجاب میں تعینات ہیں ایڈیشنل سیکرٹری ہوم بھی رہ چکے ہیں انہیں سیکرٹری ہائوسنگ لگایا گیا ہے۔ پنجاب کی نئی وزیراعلیٰ نے منصب سنبھالتے ہی یہ اعلان کیا تھا وہ چار ماہ تک افسران کی کارکردگی کا جائزہ لینے کے بعد ردوبدل کریں گی تاہم انہوں نے سابقہ روایات کو دہراتے ہوئے اعلیٰ افسران کے عہدوں میں ردوبدل کیا ہے۔ اہم بات یہ ہے بعض وفاقی اور صوبائی سروس کے افسران سالوں سے او ایس ڈی بیٹھے ہیں سیاسی پس منظر نہ ہونے کی وجہ سے نئی پوسٹنگ کے منتظر ہیں۔ اعلیٰ افسران کے تبادلوں کے باوجود چیف سیکرٹری اور آئی جی پنجاب کو نہیں بدلا گیا ہے درحقیقت سیاست دانوں کی اپنی پسند و ناپسند ہوتی ہے انہیں اعلی افسران کے ڈوئیزر کو دیکھنے کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ ان کا سیاسی بیک گرائونڈ ان کو اہم عہدوں پر فائز کرنے کا ذریعہ ہوتا ہے۔ پنجاب میں شریف خاندان کی طویل عرصے سے حکمرانی سے ان اعلیٰ افسران سے ذاتی روابط قائم ہیں نواز شریف سے شہباز شریف کے دور تک طویل عرصے کی صوبے میں حکمرانی کا انہیں سب سے زیادہ فائدہ یہ ہوا ہے ان کی اعلیٰ بیوروکریسی سے ذاتی تعلقات استوار ہو چکے ہیں۔ درحقیقت بیورو کریٹس ہی ہوتے ہیں جو سیاست دانوں کو مبینہ کرپشن کے راستے بتاتے ہیں ان کی بڑے سے بڑے مالی معاملات میں مبینہ کرپشن میں ڈھارس کا کام دیتے ہیں ورنہ عام طور پر جب نئی حکومت اقتدار میں آتی ہے وہ وفاقی سروس کے صوبوں میں تعینات افسران کو وفاق بھیج دیتی ہے۔ پنجاب میں تعینات بیورو کریٹس کی زیادہ تر تعداد نواز شریف اور شہباز شریف کے ساتھ کام کر چکی ہے۔ وہ اعلیٰ افسران جو اچھی شہرت اور اچھے سروس کیرئیر کے حامل ہوتے ہیں انہیں صوبوں میں کھڈے لائن عہدوں پر لگایا جاتا ہے۔ ابھی چند روز پہلے وفاق میں سیکرٹریٹ سروس کے گریڈ اکیس اور بیس کے بے شمار افسران کو نئی پوسٹنگ دی گئی ہے وہ عرصہ دراز سے او ایس ڈی تھے۔ جس پر میرٹ پر پاکستان میں اعلیٰ سرکاری افسران کو اہم عہدوں پر لگایا جائے گا، اس روز اداروں میں پائی جانے والی پچاس فیصد کرپشن کا خاتمہ ہوجائے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button