Ali HassanColumn

ڈالر کے فرار کو روکیں … علی حسن

علی حسن

وزیر اعظم میاں محمد شہباز شریف آپ کا شکریہ کہ آپ کی حکومت نے پر تعیش سامان کی ایسی فہرست جاری کی ہے جس میں درج سامان در آمد نہیں کیا جائے گا۔ آپ نے یہ حکم صرف تین ماہ کے لیے جاری کیا ہے۔ محترم وزیر اعظم صاحب، یہ فہرست عوام کو قابل قبول نہیں ہے کیوں کہ اس ملک میں جو بھی اشیاء در آمد ہوتی ہیں انہیں سنجیدگی کے ساتھ دیکھا ہی نہیں گیا۔ یہ نامکمل فہرست ہے، یہ تو بہت مختصر فہرست ہے۔اس فہرست کو بہت طویل ہونا چاہیے اور در آمد پر کم سے کم ایک سال کی پابندی عائد کی جائے۔ جان بچانے والی ادویات کے علاوہ تمام اشیاء کی در آمد پر پابندی نافذ ہونی چاہیے۔ انسان کے زندہ رہنے کی جو بھی اشیاء ضروری ہیں وہ اس ملک میں میسر ہیں۔ یہ دوسری بات ہے کہ ہمارے حکمران اپنا میڈیکل چیک اپ کرانے امریکہ اور برطانیہ جاتے ہیں۔ ایسے دوروں پر بھی پابندی ہونا چاہیے۔ ڈالر تو پاکستان سے ہی باہر جا رہا ہے۔ ڈالر کے پاکستان سے ’’فرار‘‘ پر سختی کے ساتھ پابندی عائد ہونا چاہیے۔

ہمارے نو آموز وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری اپنے تجربہ کے لیے اِدھراُدھر دورے کر رہے ہیں، خارجہ امور کی وزیر مملکت حنا ربانی بھی دورے فرما رہی ہیں۔ کیا ان دوروں کا مقصد ڈالر کا حصول ہے یاکچھ اور؟پاکستان اس وقت ڈالر کی ضرورت محسوس کرتا ہے، باقی کچھ اور نہیں چاہیے۔   سب سے زیادہ اہم یہ ہے کہ پیٹرول کی در آمد کی مقدار میں کمی کی جائے۔ ملک میں پیٹرول کے سرکاری اور غیر سرکاری استعمال پر راشن بندی کی جائے۔ آپ کے وزراء سمیت سرکاری ملازمین کے غیر ملکی دوروں پر سختی سے پابندی عائد کی جائے۔ سرکاری دفاتر میں بجلی کے استعمال کو کم سے کم کیا جائے۔ ملک بھر کے بازاروں کو مغرب سے قبل بند کرا دیا جائے۔ کوئی بھی دکان جنریٹر استعمال نہیں کرے گا کیوں کہ اس پر زر مبادلہ خرچ ہوتا ہے۔ بیرون ملک پیسے والوں کے بچوں کے لیے پاکستان سے ہر ماہ جو ڈالر باہر جاتا ہے اس پر بھی پابندی عائد کی جائے۔ وزیر اعظم صاحب! حکومت جن جن اشیاء پر پابندی عائد کرے تو یہ بھی دیکھے کہ کسٹم کا عمل کیا گُل کھلاتا ہے۔ سارے اقدامات جنگی بنیادوں پر کئے جائیں اور آپ کے ذہن میں سری لنکا میں پیش آنے والی صورت حال ہونا چاہیے۔ وہاں عوام نے سب کچھ راکھ کر دیا ہے۔

وجہ صرف یہ کہ عوام کو پیٹرول نہیں مل رہا ،روٹی میسر نہیں ، وجہ صاف ظاہر ہے کہ ملک میں ڈالر نہیں ہے۔ ڈالر کی تو حکمرانوں نے لوٹ مار کر دی۔ پاکستان میں بھی با اختیار اور با اثر افراد نے ڈالر کو بہت بڑے پیمانے پر چھپر کر دیا ہے۔ ڈالر کی خرید تیز رفتاری سے جاری ہے اور جو لوگ ڈالر خریدنے کی حیثیت رکھتے ہیں وہ یقین رکھتے ہیں کہ پاکستان میں اگر سری لنکا ہوا تو وہ اپنے ڈالر کے ساتھ ملک سے چلے جائیں گے۔ بعض لوگ تو ڈالر کو بیرون ملک بھی پہنچا چکے ہیں۔

موجودہ وزیر اعظم سے سخت اقدامات کی توقع بے سودہے۔ انہیں یہ ہی خوف کھائے جاتا ہے کہ اگر انہوں نے سخت اقدامات اٹھائے تو انتخابات میں ان کی نون لیگ ننھی لیگ نہ بن جائے۔ ممتاز صحافی مجیب الرحمان شامی کا کہنا ہے کہ قیادت یقین دہانیوں پر نہیں اپنی طاقت پر چلتی ہے، نسخوں سے قوت نہیں پیدا ہوتی۔ قیادت اپنے اوپر اور اپنے خدا پر اعتماد کرتی ہے۔ یہ نہیں ہوتا کہ مجھے گارنٹی لکھ دیں ، نسخہ دے دیں، نسخوں سے قوت نہیں پیدا ہوتی۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ اس وقت ہر جگہ کنفیوژن دیکھ رہے ہیں، انہوں نے  1970 سے 1972 کے دوران جو مناظردیکھے ہیں وہی اب بھی نظر آرہے ہیں، ہر طرف طوائف الملوکی ہے، یقین دہانیاں اور ضمانتیں زندگی کی نوید نہیں دیتیں یہ آپ کی کمزوری کو آشکار کرتی ہیں۔ وزیر اعظم شہباز شریف اور آصف علی زرداری وغیرہ نے تو `1970کے اخبارات بھی نہیں پڑھے ہوں گے کہ پاکستان پر کیا قیامت گزر گئی تھی۔ اس قیامت کے بعد بھی ہمارے سیاست دانوں نے کوئی سبق حاصل نہیں کیا۔ وزیر اعظم شہباز شریف کے ساتھ تو یہ ہی ہو رہا ہے کہ وہ اتحادیوں سے یقین دہانی چاہتے ہیں۔ ارے بابا یہ اتحادی کسی نتیجہ کی ذمہ داری قبول نہیں کریں گے۔ یہ سب اپنے اپنے مفادات کے حصول کے لیے مصروف اور مشغول ہو جائیں گے۔

مریم نواز نے ایک جلسہ میں شرکاء سے سوال کیا کہ کیا حکومت میں رہنا چاہیے یا پھر حکومت چھوڑ دینی  چاہیے؟ ایسی حکومت کو، عمران خان جیسی حکومت کو جہاں روز لوگوں پر مہنگائی کا طوفان ٹوٹے، مہنگائی کی قیامت ٹوٹے، اس حکومت کو خیرباد کہنا بہتر ہے۔ اس حکومت کو خیرباد کہہ دو اور عوام کے میدان میں آجاؤ اور مقابلہ کرلو۔ انہوں نے پھر سوال کیا کہ اگر نواز شریف آپ کے لیے یہ حکومت چھوڑتا ہے تو کیا آپ آئندہ 5 سال کے لیے اس کو دو تہائی اکثریت دو گے؟ ضمانت پر رہائی حاصل کرنے والی مریم نواز کی جلسوں میں تقاریر اور تقاریر میں نواز شریف کا بار بار ذکر عدالتوں اور قانون کا کھلے عام مذاق کے مترادف ہے۔ سپریم کورٹ سمیت سارے ذمہ داران تماش بینی کر رہے ہیں۔ سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے بھی اپنے مشورے سے نوازا ہے کہ فوج سمیت تمام ادارے مل بیٹھ کر ملکی معیشت کے فیصلوں کی ذمہ داری لیں، حکومت آئینی حدود میں رہ کر جو کام کرے، ادارے اس کی کھلی تائید کریں۔ حکومت کے ذمے بہت مشکل فیصلے آئے ہیں، مشکل فیصلے ہوں گے جن کی سیاسی قیمت ادا کرنا ہوگی۔

انہوں نے کہا کہ جو کچھ ہوا ہے وہ ایک دن یا ہفتے یا مہینے میں نہیں ہوا، یہ اونر شپ شہبازشریف، مفتاح اسماعیل یا مسلم لیگ نون کی نہیں، سب کی ہے، نیشنل سکیورٹی میں تمام سٹیک ہولڈرز صدر و چیئرمین سینیٹ سب کو بلائیں،اگر اونر شپ نہیں ہے تو ہمیں حکومت میں نہیں رہنا چاہیے، ملک کا صدر بھی کہے کہ بطور صدر میں بھی اس فیصلے میں شامل ہوں۔ بات یہ ہے کہ ڈرائیور کی سیٹ پر جو بیٹھا ہوا ہے اسے ہی کو ذمہ داری لینا پڑے گی۔ یہ ڈھول کوئی اور نہیںباندھے گا ۔ کامیابی ہو گئی تو سب مبارکباد وصول کرنے آجائیں گے اور ناکامی ہوئی تو نون لیگ کے گلے میں پڑے گی لیکن وزیر اعظم کو خوف زدہ نہیں ہونا چاہیے۔ سیاسی قیمت چکانے کا خوف نہیں ہونا چاہیے ۔

اگر ایسا ہے تو سیاست سے دست بردار ہو جائیں۔ پھر دیکھی جائے گی۔ 1970 میں بھی سیاسی قیمت چکانے کے خوف نے فوج سمیت سب کو خوفزدہ کر دیا تھا۔ مشرقی پاکستان کی سر زمین انسانی خون سے سرخ ہو گئی تھی۔ وہاں کے دریائوں کا پانی بھی سرخ ہو گیا تھا۔ ملک ضروری ہے یا سیاست اور سیاسی جماعتیں۔ ملک میں حالات ٹھیک ہوں گے تو انتخابات اور جماعتیں بھی زندہ رہ سکیں گی۔ لیکن کیا پاکستان میں موجودہ حالات میں موجود حکومت کے زیر انتظام انتخابات کی امید کون رکھتا ہے۔ یہاں انتخابات کی ضرورت اس وقت تک نہیں ہونی چاہیے جب تک پاکستان معاشی طور پر مستحکم نہ ہو جائے۔1988 سے اب تک پے در پے 9 الیکشن کرا کے دیکھ چکے ہیں، ہر الیکشن کے بعد ملک مزید قرض دار ہوا ہے۔ نگراں حکومت بنانا چاہیے اور قرضہ نہ لینے کی کڑوی گولی کھانی چاہیے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button