Column

کوئی غدار نہیں ؟ ….. ناصر نقوی

ناصر نقوی
ہماری سیاست میں ہمیشہ سے ایک دوسرے کے اختلاف اور مختلف پالیسی پر غدار اور سکیورٹی رسک کا کھیل کھیلا جارہا ہے۔ میں سمجھتا ہوں اس آخری حد تک کسی کو نہیں جانا چاہیے لیکن کھلاڑی وزیر اعظم سابقہ حکمرانوں سے بھی دو ہاتھ آگے نکل گئے ہیں۔ انہوں نے جوشِ جذبات میں پوری اپوزیشن کو غدار کہہ دیا ۔اس سے پہلے بے نظیر بھٹو اور نواز شریف ایک دوسرے کو سکیورٹی رسک قراردے چکے تھے اور اسی روایت کو آگے بڑھاتے ہوئے اپوزیشن اتحاد نے سابق وزیر اعظم عمران خاں کے لیے بھی کچھ ایسے ہی الفاظ استعمال کیے لیکن کھلاڑی عمران خان کچھ نیا کرنے کے خواہشمند تھے ،لہٰذا انہوں نے متحدہ اپوزیشن کی پوری قیادت کو غدار کہہ کردل ٹھنڈا کر لیا ۔ ان کے حواریوں اور پرستاروں نے اس اعلان کی پذیرائی بھی کی پھر بھی شہید محترمہ بے نظیر بھٹوکے نعرے نے کام کر دکھایا کہ جمہوریت بہترین انتقام ہے ۔
پہلی بار پاکستان میں آئین و قانون کے مطابق پارلیمنٹ کے ذریعے وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوئی اور اپوزیشن کے لیے غداروں کے تمغات تقسیم کرنے والے خان اعظم نہ صرف رخصت ہو ئے بلکہ غدار پائے جانے والے بر سر اقتدار آگئے۔ انہوں نے 73ء کے آئین کے مطابق حلف اٹھاتے ہو ئے ملک و ملت کی ترقی و خوشحالی کا عہد کیا بلکہ اس سے پہلے یہ اعلان کر دیا کہ کوئی غدار نہیں ، مملکت پاکستان میں غداروں کی کوئی گنجائش نہیں کیونکہ اس قسم کے نعروں سے تقسیم در تقسیم کا عمل شروع ہو جاتا ہے ، اس لیے مستقبل کی پالیسی تفہیم کی ہو گی ، لہٰذا پالیسی کے مطابق رواداری ، برداشت اور جمہوریت کے استحکام کے لیے سب کو ساتھ لے کر چلا جائے گا ، کوئی غدار تھا نہ ہے، یہ نعرے بھی نظریہ ضرورت کے ہیں اور نظریہ ضرورت اب سپرد خاک کیا جا چکا ہے۔ اچھی پارلیمانی روایات یہی ہوا کرتی ہیں کہ اکثریت کھونے والے اقتدار چھوڑیں اور اکثریت حاصل کرنے والے اقتدار سنبھالیں ۔ ہمارے ہاں ماضی میں ایسی کوئی مثال نہیں صرف احتجاج، دھرنے ، جلاؤ گھیراؤ اور آئینی بحران جنم دینے کی مثالیں موجود ہیں،
اس لیے جو کچھ اب ہوا وہ بھی شاید ہمیں آسانی سے ہضم نہ ہو لیکن اسلامی جمہوریہ پاکستان، پاکستانی قوم اور جمہوری اقدار کے لیے ہی نہیں بلکہ سیاستدانوں اور پارٹیوں کی تربیت کے لیے بھی ایسا عمل انتہائی ضروری ہے۔ تبدیلی سرکار نے اپنے پونے چار سالہ اقتدار میں بہت کچھ مختلف کرنے کی کوشش کی لیکن نہ معاشی حالات میں بہتری آئی نہ ہی عام آدمی کی زندگی تبدیل ہو سکی۔ قرضے بڑھے ، مہنگائی اور بے روز گاری میں اضافہ ہوا اور تحریک انصاف اپنے منشور اور وعدے کے مطابق پچاس ہزار بے گھر وں میں گھر تقسیم نہیں کر سکی، پھر بھی عام پاکستانی سنہرے مستقبل کی تمنا میں خاموش رہا، مشکلات
برداشت کرتا رہا کہ چوروں اور کرپٹ مافیا کے ٹھیکیداروں کی حکومت سے جان چھوٹ گئی ۔
نیا پاکستان بنے گا جو ریاست مدینہ کے اصولوں پر چلے گا لیکن حالات نے منفی انداز میں کروٹ لے لی ، اندرونی محاذ پر اپوزیشن نے اودھم مچایا اور بیرونی محاذ پر پالیسیاں مثبت نہ ہو سکیں اور تو اور دوست ممالک بھی دوری اختیار کر گئے۔ امریکی صدر جو بائیڈن نے بھی صدر ٹرمپ کی دوستی پر عمران خاں کو لفٹ نہ کرائی لہٰذا حکومت وقت نے محاز آرائی شروع
کر لی دھمکی آمیز خط تک نوبت آگئی۔
خط اصلی ہے کہ نقلی ، اس سے قومی سلامتی کو کس قدر خطرہ لاحق ہے، اصل حقیقت جاننے کے لیے نو منتخب وزیر اعظم نے سب سے پہلے ان کیمرہ تحقیقات کا حکم دے کر کہہ دیا ہے کہ اگر سابق وزیر اعظم کا دعویٰ درست نکلا تو وہ اقتدار چھوڑ دیں گے تاہم موجودہ صورت حال نئی حکومت کے لیے کسی امتحان سے کم نہیں، بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ کڑا امتحان ہے تو بے جا نہ ہوگا ۔
جمہوریت اور جمہوری اقدرا کا بنیادی اصول رواداری اور برداشت ہی ہے۔ جماعتوں کے اشتراک سے بننے والی اتحادی حکومت کو ان گنت چیلنجز کا سامنا کرنا پڑے گا جس میں سب کو ایک ساتھ لے کر چلنا مشکل ترین کام ہو گا ۔ دیکھنا یہ ہے کہ اپوزیشن نے چار سالہ جدوجہد میں کیا کچھ سیکھا، اگر اپوزیشن نے مفاہمتی آصف زرداری اور حضرت مولانا فضل الرحمان کی رہنمائی میں اتحاد قائم رکھا تو حکومت بھی کامیابی سے اپنا آئینی وقت پورا کرے گی ورنہ کوئی بڑا آئینی اور سیاسی بحران پیدا ہو جائے گا۔ عمران خان کی ناکامی کے دو اسباب تھے۔ اول ان کا ہو م ورک مکمل نہیں تھا لہٰذا اقتدار کے گورکھ دھندے میں الجھنے کے بعد وہ الجھتے ہی چلے گئے ، پھر جن درآمد شدہ مشیروں اور وزیروں کا سہارا لیا گیا وہ بھی امیدوں پر پورا نہیں اترے ۔ دوئم خان اعظم نے اتحادیوں کو ان کا جائز مقام بھی نہیں دیا بلکہ اپنے منتخب ساتھیوں پر غیر منتخب لوگوں کو ترجیح دی جبکہ متحدہ اپوزیشن کی برسر اقتدار حکومت کی سیاسی بصیرت پر شک نہیں کیا جاسکتا ، وہ مہنگائی اور بے روزگاری کا توڑ نکال سکیں یا نہیں ، شہباز شریف کا پہلا خطاب انتہائی جامع تھا جس کا مطلب ہے کہ ان کا اور اتحادی جماعتوں کا ہوم ورک مکمل ہے ۔
ایسا ہے تب ہی کم از کم اجرت پنشن اور ایک لاکھ تک تنخوا ہ لینے والے ملازمین کی تنخواہوں میں دس فیصد اضافے کی خوشخبری سنائی گئی ہے۔ رمضان پیکیج ،لیپ ٹاپ سکیم اور بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کی بحالی بھی بغیر منصوبہ بندی ممکن نہیں، یقینا نئی حکومت کا ابتدائیہ اچھا ہے لیکن عمل درآمد کی نگرانی نہ کی گئی تو یہی طعنہ بھی بن سکتا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ سابق وزیر اعظم میاں نوازشریف کے لندن جانے پر اعتراض کرنے والے شہزاد اکبر اور شہباز گل اب اپنے لندن جانے کی پابندی سے جان چھڑانے کے لیے اسلام آباد ہائی کورٹ پہنچ گئے ہیں خیر۔اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں ۔
2018ء کے انتخابات کے نتائج پر غور کیا جائے تو یہ طلسماتی بھی تھے اور کرشماتی بھی ۔
تحریک انساف کی کامیابی پر عمران خاں پہلی مرتبہ وزیر اعظم بنے، ان کے پاس سادہ اکثریت بھی نہیں تھی لہٰذا جادوکی چھڑی اور خاتون اول کے موکل کام آئے یوں اتحادی حکومت بن گئی حالانکہ پاکستانی سیاست میں طویل ترین دھرنا دینے اور پارلیمنٹ کا گھیراؤ کرنے والے عمران خان کے بارے میں ملک بھر کے ، دست شناسوں کا دعویٰ تھا کہ ان کے ہاتھ میں وزیر اعظم بننے کی لکیر نہیں ۔ بالکل یہی رائے نومنتخب وزیر اعظم شہباز شریف کے بارے میں تھی لیکن زرداری صاحب نے اس کی وضاحت کر دی تھی کہ تقدیر لکیر بنا دیتی ہے یہی نہیں مسلم لیگ نون کے پاس بھی اکثریت تو کیا تحریک انصاف سے بھی کم84 نشستیں ہیں لیکن جب اللہ کی کرم نوازی ہو جائے تو اس قسم کے معجزے رونما ہو جاتے ہیں وہ 174 ووٹ لے کر پاکستان کے 23 ویں وزیر اعظم بن گئے اس تبدیلی سے سب سے پہلے ڈالر بہادر اپنی اکڑ چھوڑ کر نیچے آگئے،
پاکستانی روپے نے بھی اپنی گردن اوپر اٹھانے کی کوشش کی، معاشی معاملات میں ڈیڈ لاک نہیں ڈائیلاگ سے مثبت نتائج حاصل کریں گے ، اگر یہی جذبہ قائم رہا تو یقینا کامیابی ضرور ملے گی اس لیے تبدیلی صرف نعروں اور باتوں سے کبھی ممکن نہیں ہوتی اس کے لیے پوری قوم کو مل کر جدو جہد کرنی پڑتی ہے۔ کڑا احتساب کا نعرہ کچھ بھی نہیں دے سکا ۔ اپوزیشن نے قید وبند کی مشکلات کو انتقام قرار دے دیا ، اب صورت حال یکسر بدل گئی لہٰذا مریم نواز کی اس بات کو پذیرائی ملنی چاہیے کہ انتقام نہیںحساب ۔ بدلتے حالات میں پیپلز پارٹی نے بھی اپنا نعرہ ایک زرداری سب پر بھاری بدل کر ایک زرداری سب سے یاری کر دیا ہے۔ اس لیے جمہوریت کی بنیاد رواداری اور برداشت کے فقدان کا خاتمہ کر کے اچھی روایات قائم کی جائے تاکہ ملک و ملت کی ترقی و خوشحالی میں سب اپنا اپنا کردار ادا کر سکیں کیونکہ کوئی غدار نہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button