Column

ہندو انتہاپسندوں کی تاریخی مساجد کیخلاف سازشیں ….. حبیب اللہ قمر  

حبیب اللہ قمر
بھارت کے مختلف شہروں و علاقوں میں مسلمانوں کے خلاف ہجومی تشدد، انہیں ہراساں کرنے اور قتل کے واقعات میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ کبھی حجاب پر پابندیاں لگائی جاتی ہیں، مسلم نوجوانوں کو ٹوپی پہننے پر بربریت کا نشانہ بنایا جاتا ہے، حلال گوشت کی خریدوفروخت کو ’’اقتصادی جہاد‘‘ قرار دے کرمہم شروع کی جاتی ہے اور’’لو جہاد‘‘کے الزامات کے تحت نوجوانوں کا قتل کیا جاتا ہے تو کبھی تاریخی مساجدومدارس شہید کرنے اور وہاں مندر تعمیر کرنے کی دھمکیاں دی جاتی ہیں۔ بہت سے اضلاع ایسے ہیں جہاں مسلمان بھارتی تاجروں کو مندروں کے قریب کاروبار سے روکا جارہا ہے۔ اسی طرح مساجد میں اذان کہنے اور کھلے مقامات پر نمازوں کی ادائیگی پر پابندیاں لگائی جارہی ہیں۔ اس وقت ہندوانتہاپسندوںنے مسلمانوں کی مساجد اور مدارس کو خاص طور پر اپنا ہدف بنا رکھا ہے۔ جب سے ہندوستانی سپریم کورٹ نے بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر کی اجازت دینے کا فیصلہ سنایا ہے اس وقت سے بھارت میں موجود دوسری تاریخی مساجد کے خلاف بھی وسیع پیمانے پر سازشیں شروع کر دی گئی ہیںاور سرکاری سرپرستی میں یہ پراپیگنڈہ کیا جارہا ہے کہ اب جلد کاشی اور متھرا کی قدیم مساجدبھی مسلمانوں سے واپس لی جائیں گی۔ بابری مسجد کی شہادت سے قبل اترپردیش حکومت نے کارسیوکوں کی سہولت کے لیے  بابری مسجد کے گردونواح میں مکانات مسمار کیے اور کہا کہ یہ سب کچھ علاقہ کو خوبصورت بنانے کے لیے کیا جارہا ہے مگر درحقیقت اس کا مقصد ہندوانتہاپسندوں کو لاکھوں کی تعداد میں یہاں جمع ہونے کے لیے سہولت فراہم کرنا تھا، دیکھا جائے تو بالکل اسی طرح بنارس میں دریائے گنگا کے کنارے صدیوں پرانی تاریخی گیان واپی مسجد کے ارد گرد بھی بڑی تعداد میں مکانات کو سرکاری سرپرستی میں گرا دیا گیا تاکہ گنگا کنارے تک کا سارا منظر صاف ہو جائے۔ گیان واپی مسجد 1669میں مغل بادشاہ اورنگ زیب نے تعمیر کروائی تھی ۔ اسی طرح تاریخ دانوں کی طرف سے ایک رائے یہ بھی بیان کی گئی ہے کہ یہ مسجد اکبر بادشاہ کے دور میں تعمیر کی گئی تاہم اورنگ زیب عالمگیر کے دورمیں اس تاریخی مسجد کی تزئین و آرائش کا کام کیا گیا۔بہرحال یہاں بسنے والے مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ علاقہ میں تنگ گلیاں ضرور ہیں اور یہاں مندر میں پوجا پاٹ کے لیے  دوسرے شہروں سے ہندو بھی آتے ہیں مگر کبھی بھگدڑ وغیرہ کا کوئی حادثہ پیش نہیں آیااس لیے جس طرح ایودھیا میں بابری مسجد کے گردونواح کی طرح یہاں بھی مکانات کی صفائی کی گئی اس سے ہندوانتہاپسندوں کے مذموم عزائم بخوبی واضح ہو رہے ہیں۔
کاشی کی گیان واپی مسجد کی طرح متھرا کی شاہی عید گاہ مسجدکو دیکھا جائے تو یہ بھی اورنگ زیب بادشاہ نے 1669ء میں خود تعمیر کروائی تھی۔ اس مسجد سے متعلق بھی ہندوانتہاپسندوںنے یہ معروف کر رکھا ہے کہ اس جگہ پر مبینہ طور پر ہندوئوں کا گووند دیو مندر تھا۔ مسلمان اور ہندو چونکہ اکٹھے رہتے آئے ہیں اس لیے ہر علاقہ میں جہاں مسجدیں ہیں وہاں ہندوئوں کے مندر بھی ہیں۔ اسی طرح شاہی عید گاہ مسجد کے قریب بھی ہندوئوں کا کرشنا جنم بھومی مندر ہے لیکن ہندو انتہا پسندوںنے یہاں بھی فائدہ اٹھاتے ہوئے یہ بات معروف کی کہ شری کرشنا ادھر پیدا ہوئے تھے اور پھر اسی نام سے ٹرسٹ بنا کر شاہی عید گاہ کی زمین کے کچھ حصہ پر قبضہ بھی کر رکھا ہے۔ متھرا میں اسلامی انٹر کالج کے پرنسپل عبدالحق نے مقامی عدالت میں درخواست بھی دائر کی کہ عیدگاہ کی ساری زمین شاہی عیدگاہ مسجد کی ملکیت ہے لہٰذا اس پر قبضہ سراسر غیر قانونی ہے جسے ختم کیا جائے۔یہ دونوں تاریخی مساجد صدیوں سے مسلمانوں کے پاس ہیں لیکن ایسے موقع پر جب مرکز میں اور صوبائی سطح پر بی جے پی کی حکومت ہے، ہندوانتہاپسند تنظیمیں اسے اپنے لیے سنہری موقع سمجھ رہی ہیں او ربابری مسجد کی طرح ان مساجد کو بھی شہید کر کے مندر قائم کرنا چاہتی ہیں۔ ہندو انتہا پسندوں کی جانب سے پچھلے کئی برسوں سے یہ مطالبہ کیا جارہا ہے کہ کاشی یعنی وارانسی کی گیان واپی مسجد سے متعلق محکمہ آثار قدیمہ سے جانچ کروائی جائے کیونکہ اس جگہ پر ان کے دعویٰ کے مطابق مندر ہونے کے ثبوت ہیں۔ مقصد اس کا یہی ہے کہ محکمہ آثار قدیمہ چونکہ سرکار کے زیر انتظام ہے، اس لیے اپنی مرضی کی رپورٹ جاری کر کے اس مسجد کے حوالہ سے بھی ہندوئوں کے حق میں فیصلہ کروایا جاسکے۔
بھارت کی وہ تمام ہندو انتہا پسند تنظیمیں جو آئے دن مسلم کش فسادات برپا کر کے نہتے مسلمانوں کا خون بہاتی اور ان کی املاک برباد کرتی آئی ہیں ان کا اب تک یہی نعرہ رہا ہے کہ ’’ہندوستان کے ہندو خطرے میں ہیں’’ اس لیے ہندو دھرم اور اس کے ماننے والوں پر حملوں کے مقابلہ کے لیے اس خطہ میں بسنے والے سب ہندو ایک ہوجائیں لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ جب سے نریندر مودی کی حکومت آئی ہے یہ سب ہندو انتہا پسندہندوئوں کے تحفظ کا نعرہ ختم کرکے اب بھارت کو ایک’’ہندو اسٹیٹ’’میں تبدیل کرنے کے لیے دن رات ایک کئے ہوئے ہیں۔کبھی بہاری مسلمانوں کوبنگلہ دیشی درانداز کہہ کر ان کی عزتوں اور جان ومال پر حملے کئے جاتے ہیں اور انہیں بنگلہ دیش نہ جانے کی صورت میں قتل عام کی دھمکیاں دی جاتی ہیںتو کبھی ہندوستان میں بسنے والے دیگر مسلمانوں کو ان کا مذہب اختیار نہ کرنے اوراپنے آپ کو مکمل ہندو مذہب کے مطابق نہ ڈھالنے کی صورت میں زبردستی پاکستان دھکیلنے کی دھمکیاں دی جاتی ہیں۔آر ایس ایس، شیو سینا، بی جے پی اور وشواہندوپریشد جیسی تنظیموںکے اہلکاروںنے آجکل پورے بھارت میں ہر چوک و چوراہے، اہم شاہراہوں، سرکاری و غیر سرکاری دفاتر اور دیگر مقامات پر منظم منصوبہ بندی کے تحت مندر بنانے کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔ہندو انتہاپسند جہاں چاہتے ہیں بھگوا جھنڈا لگاتے ہیں اور ایک چھوٹی سی مورتی رکھ کر پوجا پاٹ کا آغاز کردیتے ہیں۔کسی کی جرأت نہیں ہے کہ کوئی انہیں یہاں سے ہٹا سکے بلکہ پولیس بھی مکمل طور پر ان کی سرپرستی کرتی ہے اوران کی مخالفت کرنے والوں کے خلاف انتقامی کارروائی کرتے ہوئے جیلوں میں ٹھونس دیاجاتا ہے۔ انہی انتہا پسندتنظیموں کے لیڈر مسلمانوں کو کاشی اور متھرا کی مساجد پر سے اپنے دعویٰ ختم کرنے کاکہتے ہوئے الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے کے مصداق یہ رعایت دینے کے اعلانات کر رہے ہیںکہ اگر وہ ایسا کرتے ہیں تو ایسی ہزاروں مساجد جو مندر توڑ کر وہاں بنائی گئی ہیں وہ محفوظ رہ سکتی ہیں۔ ہندو انتہا پسند تنظیمیں جگہ جگہ فسادات پھیلانے اور چھوٹی چھوٹی باتوں پر مظفر نگر فسادات کی تاریخ دہرانے کی کوششیں کر رہی ہیں۔ ابھی گزشتہ کچھ عرصہ میں کرونا پھیلائو کا الزام لگا کر مسلمانوں کے خلاف جس طرح وحشیانہ ظلم و دہشت گردی اور املاک کی بربادی کا کھیل کھیلا گیا ہے وہ بھی ساری دنیا کے سامنے ہے۔
بھارت کی حکمران جماعت بی جے پی لیڈروں کی جانب سے مسلمانوں کے مدارس ختم کرنے کا بھی مطالبہ کیا جارہا ہے اور اعلانیہ طور پر ہرزہ سرائی کی جارہی ہے کہ مسلمانوں کے بچوں کو مدارس میں قرآن کی تعلیم حاصل کرنے کی اجازت نہیں دی جانی چاہیے بلکہ انہیں بھی ہندوئوں کے ساتھ عام سکولوں میں پڑھنے پر مجبور کیا جائے۔ انڈیا میں اس وقت صرف مسلمانوں کے ساتھ ہی نہیں عیسائیوں اور دوسری اقلیتوں کے ساتھ بھی انتہائی ناروا سلوک کیا جارہا ہے۔ حقیقت ہے کہ بھارت میں اقلیتوں کے حقوق اس قدر بری طرح پامال کئے جارہے ہیں کہ پوری دنیا میں انڈیا کی بدنامی ہو رہی ہے لیکن مودی سرکار کو کسی چیز کی پرواہ نہیں ہے۔ وہ اپنے دور اقتدارسے فائدہ اٹھاتے ہوئے مسلمانوں اور مساجدومدارس کے خلاف ہر ممکن اقدامات اٹھانے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن نریندر مودی اور ان کے ہمنوا شاید یہ بھول رہے ہیں کہ اقلیتیں اکثریت کی یلغار سے کبھی ختم نہیں ہوا کرتیں کیونکہ عموما اقلیتیں حق پر ہوتی ہیں اس لیے وہی وہ زندہ رہتی ہیں اور پھر جہاں تک بھارتی مسلمانوں کی بات ہے تو وہ اتنی تعداد میں ہیں کہ انہیں تو اقلیت بھی نہیں کہا جاسکتا ۔ بھارتی مسلمانوں کا مستقبل ان شاء اللہ تابناک ہے۔ ہندو انتہا پسندوں کو یہ نوشتہ دیوار پڑھ لینا چاہیے کہ ان کی پالیسیاں جلد انہیں لے ڈوبیں گی اور بھارت اپنے ہی ملک میں چلنے والی تحریکوں کی بدولت چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں تبدیل ہو کر رہے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button