Column

فیصلہ لمحوں کا ….. ناصر نقوی

ناصر نقوی
دنیا بھر میں جس قدر ترقی اور تجربات سے نت نئی ایجادات ہو رہی ہیں اسی قدر مایوسیوں میں بھی اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں تو ایک ایسا طبقہ بھی پیدا ہو چکا ہے جو 35 سے 40 سال کی عمر میں اپنی زندگی کا خاتمہ کرنا اپنا فرض سمجھتا ہے، ان کا خیال ہے کہ حضرت انسان نے جو کچھ کرنا اور بننا ہوتا ہے وہ 35 اور 40 سال میں ہو جاتا ہے اس کے بعد پھر زندگی کی اندھیری رات شروع ہو جاتی ہے اور اجالوں کے امکانات ختم ہو جاتے ہیں۔ مسائل اور مشکلات زندگی میں در آتے ہیں لہٰذا کچھ نہ کرنے اور زندگی سے لطف اندوزہونے کے لیے اتنی ہی عمر کافی ہے، مزید جینا جی کا جنجال ہوتا ہے۔ اس لیے زیادہ زندہ رہنے کی ضرورت نہیں ، ایسا اگر ترقی پذیر ممالک میں ہوتا تو ہم شاید تسلیم کر لیتے کیونکہ وہاں ترقی یافتہ ممالک کے مقابلے میں زندگی کا رنگ مختلف ہے۔ تمام ترقی ، سہولیات اور فلاحی ریاستوں میں ایسی سوچ لمحہ فکرہے ، اسی ترقی یافتہ ریاستوں میں یہ سوچ بھی موجود ہے کہ نسل آدم کی کامیابی اور ناکامی کے حقیقی راستے 40سال کے بعد منظر عام پر آتے ہیں یعنی اس عمر کے بعد آدمی صحیح معنوں میں کچھ کر گزرنے کے قابل ہوتا ہے جسے آپ میچور کہہ سکتے ہیں ، اسکا مطلب یہ نکلتا ہے کہ 35 سے 40 سال کی عمر میں زندگی کا خاتمہ کرنے والے سب کے سب خواتین و حضرات ،،ایمیچور،، تھے لیکن دین حق اسلام میں خود کشی کی گنجائش نہیں کیونکہ زندگی اس رب کائنات کی عطا ہے جس کے قبضہ قدرت میں ہماری جان ہے جس نے حضرت انسان کو زندگی دی اور موت کافیصلہ بھی اسی نے کرنا ہے اس لیے کہ زمین وآسمان کا مالک وہی ہے لہٰذا مالک کے سامنے بندہ ناچیز کچھ بھی نہیں حقیقت بھی یہی ہے کہ نسل آدم نہ اپنی مرضی سے دنیا میں آئی ہے اور نہ ہی جاسکتی ہے، کلمہ حق پڑھنے والوں کو سختی سے تاکید کی گئی ہے کہ جس شخص نے ایک انسان کی جان لی گویا اس نے پوری انسانیت کا قتل کر دیا ، جان اپنی ہو کہ
پرائی، اس کے خاتمے کی اجازت نہیں ، پھر بھی ہمارے معاشرے میں خود کشی کا رجحان بڑھ رہا ہے، اگر غیر جانبدارانہ جائزہ لیا جائے تو ماضی کے مقابلے میں دور جدید میں اسلامی جمہوریہ پاکستان میں بھی خودکشیوںکی تعداد پہلے سے بہت زیادہ بڑھ گئی ہے، لوگ خودکشی کیوں کرتے ہیں ؟ یہ سوال اپنی جگہ انتہائی اہمیت کاحامل ہے ۔لیکن خود کشی جیسے حرام فعل میں مرد وزن برابر کے شریک ہیں جبکہ وجوہات کچھ بھی ہوں مایوسی اور ڈپیریشن اصل وجہ ہے جسے موجود ہ ترقی یافتہ دور میں بھی باقاعدہ بیماری ہی نہیں قابل علاج بیماری قرار دیا جا چکا ہے۔ ایسے میں اہل خانہ ، دوست احباب کی ذمہ داری بڑھ جاتی ہے کیونکہ ڈیپریشن کے مریض کے ماحول اور گروونواح کی صحبت کی تبدیلی اسے نجات دلا سکتی ہے اور اس کی دوا ہمدردی ، اخلاقی روایات اور پیارو محبت ہی ہے۔ اسے نیند کی گولیاں وقتی سکون ضرور فراہم کرتی ہیں لیکن مستقل علاج نہیں ، کوئی بھی مرد ہو کہ عورت اگر اسے پذ یرائی سے صلاحیتوں کا احساس نہ کرایا جائے تو وہ کسی بھی وقت اس جرم کا ارتکاب کر سکتا ہے کیونکہ خودکشی کے لیے برسوں ، مہینوں اور ہفتوں کی منصوبہ بندی کی ضرورت پیش نہیں آتی یہ تو محض لمحوں کا فیصلہ ہوتا ہے مایوسی اور ڈیپریشن کا شکار لوگ اچانک اپنے ہر مسئلے کا حل خودکشی کو جانتے ہوئے یہ اقدام کر گزرتے ہیں اس لیے ایسے فرد کی حفاظت معاشرے کے افراد کی ذمہ داری ہے ، انہیں اکیلا نہ چھوڑا جائے بلکہ زیادہ سے زیادہ دوست احباب کی صحبت مہیا کی جائے اور چھوٹی سے چھوٹی بات کی پذیرائی کی جائے تو اس کے جینے کی تمنا خود بخود وپروان چڑھتی ہے اور وہ ایک مکمل انسان کی طرح زندگی کے دھارے میں ایک مفید رکن کی حیثیت اختیار کر لیتا ہے، میں نے ایسے بہت سے لوگوں کو صحت مند ہو کر کامیابی کی زندگی گزارتے دیکھا ہے لیکن یہ بھی دیکھنے میں آتا ہے کہ خاندانی جھگڑوں ، جائیداد کے تنازعے اور پیار کہانی میں قتل ہونے والوں کو بھی خودکشی کا رنگ دے دیا جاتا ہے ۔
اس قسم کے واقعات میں غریبوں ہی کی نہیں بلکہ بڑے لوگوں کی بھی بعض اوقات کوئی نہیں سنتا، خودکشی پر مقدمات بنتے ہیں، تحقیقات بھی ہوتی ہے لیکن سب بے نتیجہ، کیونکہ قتل کو خودکشی بنانے والے قریبی عزیز رشتہ دار اور دوست احباب ازخود مقدمے کی پیروی میں دلچسپی نہیں لیتے لہٰذا ان مقدمات کی اکثریت عدم پیروی پر داخل دفتر کر دیئے جاتے ہیں جبکہ جن مقدمات کی مدعی پیروی کرتے ہیں وہ بھی عدم شواہد میں ختم ہو جاتے ہیں اس سلسلے میں ایک بڑی مثال صدر مشرف کے دور کے وزیر اور نظام بدلو کے سرگرم استاد ، ائیرمارشل اصغر خان کے صاحبزادے عمر اصغر خان وفاقی وزیر کی خودکشی ہے، جن کی لاش شہر کراچی میں پنکھے سے لٹکی ہوئی ملی تھی اس واقعہ پر سخت ردعمل بھی دیکھنے کو ملا، پھر بھی زبر دستی کے صدر پرویز مشرف اپنی کابینہ کے اہم وزیر کی موت کا سراغ نہیں لگا سکے اور نہ یہ کسی کو بتا پائے کہ وہ کون سی وجوہات تھیں جن کے دباؤ میں یہ سانحہ رونماہوا۔ ائر مارشل اصغر خاں بھی بقید حیات تھے لیکن کوئی کچھ نہ کر سکا ، آج تک کسی کو پتا نہیں کہ عمر اصغر نے خودکشی کیوں کی ؟ اور نہ ہی یہ بات کھل سکی کہ اگر خود کشی کا ڈرامہ رچایا گیا تو پھر ان کے خون ناحق میں کس نے ہاتھ رنگے، حالانکہ ایک سے زیادہ لوگ حقائق جانتے تھے لیکن قاتلوں کے خوف نے سب کو مصلحت پسندی پر مجبور کر دیا، کوئی نہیں چاہتا تھا کہ اس کی بوری بند لاش کسی چوک یاشاہراہ پر ملے ۔
آ ج کے جدید دور میں خواتین کے حقوق اور برابری کا شور ہے، بات بھی درست ہے کہ کسی معاشرے کی ترقی اور خوشحالی میں اگر خواتین ہم قدم ہوں تو فلاحی معاشرے کی تشکیل آسان ہو جاتی ہے، اب پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں بھی ہر شعبہ ہائے زندگی میں اعلیٰ تعلیم یافتہ خواتین خدمات انجام دے رہی ہیںاور اس کا مطلب ہے کہ خواتین پہلے سے زیادہ پر اعتماد ہیں پھر بھی گزشتہ دنوں رحیم یار خان کی لیڈی سب انسپکٹر نے زہریلی گولیاں کھا کر اپنی زندگی کا خاتمہ کر لیا، مرحومہ ایک محنتی فرض شناس اور خدا ترس نہ صرف سرکاری افسر تھی بلکہ جذبہ محبت بھی رکھتی تھیں اسی لیے اپنی پسند کی شادی اپنے والدین کی مرضی سے کی تھی، اس کی دو بیٹیاں بھی تھیں اور گھر سکون اور خوشیوں کی نعمت سے بھر پور تھا، پھر اچانک خودکشی کا کوئی مضبوط حوالہ ہر گز نہیں ، اس نے ایک تحریر چھوڑی جس میں لکھا ہے میری بیٹیوں کی شادی کسی انسان سے کرنا اگر اس فقرے کی گہرائی میں جائیں تو یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اس کے خانگی حالات اچھے نہ تھے، جذبہ محبت میں اس نے جس شریک حیات کا انتخاب کیا وہ تجربات اور مشاہدات کی روح سے انسان نہیں تھا ، اس بات کو تسلیم کیا جاسکتا ہے کیونکہ آدمی کو بھی میسر نہیں انساں ہونا، تحقیقات جاری ہیں تاکہ اس سانحے کے منطقی انجام تک پہنچا جاسکے اور یہ راز کھل سکے کہ یہ خود کشی ہے کہ محرکات کچھ اور ہیںاور  الزامات محض حقائق سے دوری اور تحقیقات میں پیچیدگی کے لیے لگائے گئے ہیں تاکہ شواہد کی عدم دستیابی پر معاملہ گول ہو جائے یقینا حالات اس بات کی نشاندہی کر رہے ہیں کہ راز افشاں نہیں ہو سکے گا ایک اور واقعہ میں ضلع مانسہرہ کی اعلیٰ تعلیم
یافتہ اقراء اسلام آباد میں اپنے عزیز ایس پی ٹریفک عارف شاہ کے ہاتھوں میں دم توڑ گئی، ابتدائی رپورٹ میں اقراء کی موت زہر دینے سے ہوئی وہاں بھی تحقیقات جاری ہیں ۔ ایس پی کو بھی فوری کار روائی سے شک کے باعث کھڈے لائن لگا دیا گیا ہے، اقراء کا تعلق بھی پولیس سے تھا 302 کا مقدمہ بھی درج کیا جاچکا ہے لیکن اقراء کے والدین نے مقدمے کی پیروی سے انکار کر دیا لہٰذا چند دنوں کی تحقیقات کے بعد اسے بھی خودکشی قرار دے کر ختم کر دیا جائے گا تاہم ان دونوں واقعات میں ایسے خلا موجود ہیں کہ پولیس اپنے روایتی انداز میں مک مکا کر کے کمائی کر سکتی ہے پھر مصلحت کی چادر میں دونوں مقدمات دھرے کے دھرے رہ جائیں گے اور حقائق تاقیامت منظر عام پر نہیں آسکیں گے۔ وطن عزیز کا قانون مختلف تحفظ دیتا ہے دین حق اسلام نے بھی تمام مذاہب کے مقابلے میں عورت کو بہت زیادہ عزت و تکریم اورتحفظ دیا ہے پھر بھی روز بروز خواتین کے معاملات اس لیے بگڑتے جارہے ہیںکہ قانون کی حکمرانی نہیں، قانون بنانے والے بھی صرف لفظی جنگ لڑتے ملتے ہیں اور عمل در آمد کے لیے کچھ نہیں کر تے، اسی لیے ملازمت پیشہ خواتین میں عدم تحفظ پایا جاتا ہے۔ یقینا اسے ہر سطح پر دور ہونا چاہیے عورت ہو یامرد اسے ایسی آزاد فضاء ملنی چاہیے کہ مایوسی اور ڈیپریشن کا شکار نہ ہو اور خود کشی کی بنیادی وجوہات کا خاتمہ ہو سکے اسی طرح صنف نازک کے تقدس اور احترام کے لیے ایسے مواقع پیدا کیے جائیں کہ اسے عورت ہونے پر فخر ہو اور ہراسگی کے واقعات کا بھی سختی سے نوٹس لے کر ذمہ داری سے سزا دی جاسکے کیونکہ مایوسی اور ڈیپریشن کبھی بھی گھنٹوں کی مہلت نہیں دیتا اور لمحوں کے فیصلے میں خودکشی کا سانحہ ہو جاتا ہے یہی نہیں قتل کی واردات کو خود کشی کا رنگ دینے والے رنگ بازوں کو بھی سزا ملے تو معاملات میں بہتری آسکتی ہے ورنہ ایسے سانحات مقدر بنتے رہیں گے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button