Column

پینے کے صاف پانی کا مسئلہ …. مظہر چودھری 

مظہر چودھری
پاکستان کی 70فیصد آبادی آلودہ اور مضر صحت پانی پینے پر مجبور ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق پانی کی آلودگی زیادہ تر فضلے میں پیدا ہونے والے جراثیموں ، زہریلی دھاتوں، گدلا پن، پانی میںحل شدہ مضر صحت اجزا، نائٹریٹ اور فلورائیڈ کی موجودگی کی وجہ سے ہوتی ہے۔ پانی میں موجود مضر صحت جراثیموں کی موجودگی سے ہیضہ، ڈائریا، پیچش، ہیپاٹائٹس اور ٹائیفائیڈ جیسی بیماریاں عام ہو رہی ہیں جبکہ پانی میں موجود آرسینک جیسی مضر صحت دھاتوں کی موجودگی ذیابیطس، جلدی امراض، گردوں کی خرابی، امراض قلب، بلند فشار خون، بچوں میں پیدائشی نقائص اور کینسر جیسی بیماریوں کی وجہ بن سکتی ہے۔ دوردراز اور پسماندہ علاقوں میں بسنے والے لوگوں کی ایک بڑی تعداد اپنی بقاء کے لیے کنوئوں ، جوہڑوں اور تالابوں کا مضر صحت پانی پینے پر مجبور ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق بیماریوں کی وجہ سے ہونے والی اموات میں40فیصد اموات پیٹ کی بیماریوں کے باعث ہوتی ہیں جن کی بنیادی وجہ آلودہ پانی کا استعمال ہے۔ مالیاتی لحاظ سے جائزہ لیا جائے تو ملک کو آلودہ پانی کی وجہ سے ہونے والے امراض اور دیگر مسائل کے باعث سالانہ 110ارب روپے سے زائد کا نقصان ہوتا ہے۔
پینے کے صاف پانی کے حوالے سے شہری علاقوں کی صورتحال دیہی علاقوں سے بھی ابتر ہے۔کچھ عرصہ قبل کئے گئے سروے کے مطابق ملک کے23بڑے شہروں میںپینے کے پانی میں مضر صحت بکٹیریا،مٹی اورفضلے کی آمیزش سمیت آرسینک جیسی دھاتوں کی خطرناک حد تک مقدار پائی گئی ۔ سروے رپورٹ کے مطابق شہری علاقوں کی صرف 20سے 25فیصد آبادی کو صاف پانی کی سہولت میسر ہے۔ پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں پینے کے پانی کا شدیدبحران وقتاً فوقتاًپیدا ہوتا رہتا ہے۔سمندر کے کنارے آباد شہر کے باسیوں کی ایک بڑی تعداد پینے کے صاف پانی سے محروم ہونا ایک المیے سے کم نہیں۔ سمندر کے پانی کو ڈی سیلینیشن اور ریورس اوسموس کے طریقوں سے میٹھا بنا کرکراچی کی دو کروڑکے قریب آبادی کو پینے کے صاف پانی کی فراہمی یقینی بنائی جا سکتی ہے لیکن ارباب ِاختیار ان طریقوں پر غور کرنے پر بھی تیار نہیں۔ پاکستان میں پینے کے صاف پانی کا مسئلہ گمبھیر ہونے کی ایک وجہ زیر زمین پانی کی سطح کم
ہونا بھی ہے۔ دیہی علاقوں میں بڑی تعداد میں لگائے جانے والے زرعی ٹیوب ویل کی وجہ سے زیر زمین پانی کے ذخائر کم ہو رہے ہیں۔اس کے علاوہ عالمی درجہ حرارت میں بتدریج اضافہ اور بارشوں میں کمی سے بھی زیر زمین پانی کی سطح کم ہو رہی ہے۔
گزشتہ ایک سال سے لاہور سمیت متعدد شہروں میں واٹرفلٹر پلانٹس لگائے جا رہے ہیں جس کی وجہ سے عام شہریوں کوپینے کے صاف پانی تک رسائی قدرے بہتر تو ضرورہوتی جارہی ہے لیکن کئی مقامات پر لگائے جانے والے فلٹر پلانٹس سے حاصل کیے گئے پانی کے نمونے کیمیائی اور حیاتیاتی طور پر مضر صحت پائے گئے ہیں۔انفرادی سطح پر گھروں میںمعیاری فلٹر پلانٹ لگانا عام آدمی کی پہنچ سے باہر ہے۔صاف پانی کے حصول کے لیے لوگ بازار میں فروخت ہونے والے مختلف برانڈز کے منرلز واٹرپر انحصار کرتے ہیں لیکن پی سی آر ڈبلیو کی سہ ماہی ایک رپورٹ کے مطابق مارکیٹ میں فروخت ہونے والے منرلز واٹرکے دو درجن کے قریب برانڈز کیمیائی اور حیاتیاتی طور پر آلودہ ہیں۔ وفاقی حکومت نے وزارت سائنس و ٹیکنالوجی کے ذریعے پی سی آر ڈبلیو کو بوتلوں میں فروخت ہونے والے پانی کی نگرانی اور معیار کو بہتر بنانے کے لیے سہ ماہی بنیادوں پر رپورٹ مرتب کرنے اور عوام کی آگاہی کے لیے اسے شائع کرنے
کی ذمہ داری تفویض کی ہے۔ سابقہ حکومت کی جانب سے ملک بھر میں1.2ارب روپے کی لاگت سے 24واٹر ٹیسٹنگ لیبارٹریز قائم کی گئی تھیںجن کا مقصد پینے کے پانی میں آلودہ مادوں کی جانچ پڑتال کرکے شہریوں تک پینے کے صاف پانی کی فراہمی یقینی بنانا ہے لیکن فنڈز کی کمی کی وجہ سے ادارے کی کچھ لیبارٹریز عملی طور پر بند ہو چکی ہیں۔
تلخ حقائق یہ ہیںکہ پینے کے صاف پانی کی فراہمی جیسی بنیادی انسانی اور سماجی ضرور ت کو یقینی بنانا حکومت کی ترجیحات میں سب سے نچلے نمبروں پر ہے۔پاکستان میں صحت کے معاملات گمبھیر صورت اختیار کرنے کی سب سے بڑی وجہ آلودہ پانی ہے۔ صحت عامہ کی صورتحال کو بہتر بنائے بغیر معاشی ترقی کا حصول ممکن نہیں اور صحت عامہ کی صورتحال میں واضح بہتری کے لیے دیہی اور شہری علاقوں کی 70فیصد سے زائد آبادی کو پینے کے صاف پانی کی فراہمی ناگزیر ہے۔ صوبائی حکومتوں کو شہری اور دیہی علاقوں میں آبادی کے حجم کو مدنظر رکھتے ہوئے مناسب فاصلوں پر معیاری فلٹر پلانٹس لگانے کے کام کو اپنی ترجیحات میں سرفہرست رکھنا چاہیے۔خوش آئند بات یہ ہے کہ ملک کے سب سے بڑے صوبے کے گورنر چودھری محمد سرو ر آنے والے ڈیڑھ سال میں پنجاب کے ایک سے ڈیڑھ کروڑ لوگوں کے لیے پینے کا صاف پانی میسر کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔ کچھ عرصہ قبل ان سے ہونے والی ایک میٹنگ میںا نہوں نے کہا تھا کہ یہ ہے تو مشکل کام لیکن وہ اس کے لیے پرعزم ہیں۔پینے کے صاف پانی کا تذکرہ ہوا تو یہ بھی بتاتے چلیں کہ گورنر پنجاب گزشتہ دو اڑھائی سال سے اس ضمن میں نمایاں کام کر رہے ہیں۔ دو سال قبل وزیر اعظم عمران خان نے پنجاب میں عام آدمی تک صاف پانی کی فراہمی کو یقینی بنانے کی تمام تر ذمہ داری چودھری محمد سرور کو سونپی تھی اور اس کے لیے گورنر پنجاب کی سربراہی میں آب پاک اتھارٹی کا قیام عمل میں لایا گیا تھا۔ اس اتھارٹی کے تحت جیلوں، ہسپتالوں اور یونیورسٹیوں سمیت پنجاب کے دیہی و شہری علاقوں میں 20ہزار سے زائد واٹر فلٹریشن پلانٹس لگانے کا منصوبہ بنایا گیا ۔ گورنر صاحب کے مطابق آب پاک اتھارٹی نے2021کے آخر تک1500 سے زائد منصوبوں پر کام مکمل کیا ہے جس سے پنجاب کے 7ملین سے زائد شہریوں کو روزانہ پینے کا صاف پانی میسر آ یا ہے۔اس کے علاوہ مختلف فلاحی تنظیموں کے ساتھ مل کر بھی پینے کے صاف پانی کے قریباً اتنے ہی منصوبوں پر کام ہوا ہے ۔گذشتہ سال کے آخر میں لاہور ضلعی انتظامیہ کے 99غیر فعال فلٹریشن پلانٹس میں سے54 پلانٹس کوفعال بنانے کے لیے آب پاک اتھارٹی کے حوالے کیا گیا تھا۔لاہور کے بعدسرگودھا اور اس کے بعد مرحلہ وار پنجاب کے تمام اضلاع میں پاک آب اتھارٹی غیر فعال فلٹریشن پلانٹس بحال کرنے کے لیے پرعزم ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button