Column

استقبالِ رمضان جنت کا حصول …. عبدالرشید مرزا 

عبدالرشید مرزا
رمضان المبارک کی آمد آمد ہے، ہر طرف مومنین کا اظہار مسرت ہے۔ حضور نبی اکرم ﷺ رمضان المبارک سے اتنی زیادہ محبت فرماتے کہ اکثر اس کے پانے کی دْعا فرماتے تھے اور رمضان المبارک کا اہتمام ماہِ شعبان میں ہی روزوں کی کثرت کے ساتھ ہوجاتا تھا۔ آپ ﷺ بڑے شوق و محبت سے ماہِ رمضان کا استقبال فرماتے۔ یہ وہ بابرکت مہینہ ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم نازل فرمایا، جس کا انتظار ہر مسلمان سال بھر کرتاہے کیونکہ یہ نیکی، برکت، بخشش، عنایت، توفیق، عبادت، تقویٰ، خاکساری، مساوات، صدقہ وخیرات، جنت کی بشارت اور جہنم سے خلاصی کا مہینہ ہے۔ اس ماہ مقدس میں مومن کے اندر فکر آخرت کے ذریعے رب سے ملاقات کی خواہش بیدار ہوتی ہے۔ رمضان المبارک اس قدر پاکیزہ ومحترم مہینہ ہے اور یہ رب کی طرف سے اس پر ایمان لانے والوں کے لیے عظیم تحفہ ہے۔ اب ہمارا یہ فرض بنتا ہے کہ اس ماہ عظیم الشان کا کیسے استقبال کریں اور کس عمدگی سے اس مہینے کے برکات سے اپنے دامن کو نیکیوں کے موتیوں سے بھرلیں۔ اپنے ذہن میں ذرا تصور پیدا کریں کہ جب آپ کے گھر کسی اعلیٰ مہمان کی آمد ہوتی ہے، تو آپ کیا کرتے ہیں؟ ہم بہت ساری تیاریاں کرتے ہیں۔ گھر کے آنگن کو خوب سجاتے ہیں، خود بھی ان کے لیے زینت اختیار کرتے ہیں، پورے گھر میں خوشی کا ماحول ہوتاہے، بچوں کے لب پہ نغمے، چہرے پہ خوشی کے آثار ہوتے ہیں۔ مہمان کی خاطرتواضع کے لیے ان گنت پرتکلف سامان تیار کئے جاتے ہیں۔ جب ایک مہمان کے لیے اس قدر تیاری ہو تو مہمانوں میں سب سے اعلیٰ اور رب کی طرف سے بھیجا ہوا مہمان ہو تو اس کی تیاری کس قدر پُرزور ہونی چاہئے؟ آئیے اس تیاری سے متعلق آپ کے لیے ایک مختصر خاکہ پیش کرتا ہوں۔
رمضان المبارک بیحد عظیم ہے، اس کی عظمت کا احساس اور قدرو منزلت کا لحاظ آمد رمضان سے قبل ہی ذہن ودماغ میں پیوست کرلیاجائے تاکہ جب رمضان المبارک میں داخل ہوں تو غفلت، سستی، بے اعتنائی، ناقدری، ناشکری، احسان فراموشی اور صیام وقیام سے بے رغبتی کے اوصاف نہ پیدا ہوں۔ یہ اتنی عظمت وقدر والا مہینہ ہے کہ اس کی ایک رات کا نام ہی قدرومنزلت ہے۔ آپ یہ نہ سمجھیں کہ رمضان کی ایک رات ہی قدر کی رات ہے بلکہ اس کا ہردن اور ہررات قدرو منزلت کی حامل ہے۔ رمضان المبارک جہاں رب کا مہمان ہے وہیں اس کی طرف سے ایک عظیم نعمت بھی ہے۔ عام طور سے انسان کو اس نعمت کا احساس کم ہی ہوتا ہے جو حاصل ہوجاتی ہے لیکن جو نہیں مل پاتی اس کے لیے تڑپتا رہتا ہے۔ ایک بینا کو آنکھ کی نعمت کا احساس کم ہوتا ہے اس لیے اس کا استعمال فلم بینی اور برائی کے مشاہدے میں کرتاہے۔ اگر اسے یہ احساس ہو کہ یہ رب کی بہت بڑی نعمت ہے اس کی قدرکرنی چاہیے تو کبھی اپنی آنکھ سے برائی کا ادراک نہ کرے۔ دوسری طرف اندھے کو آنکھ کی نعمت کا احساس زیادہ ہوتا ہے۔ یہ فرق ایمان میں کمی کا سبب ہے، جس کا ایمان مضبوط ہوگا وہ ہرنعمت کی قدر کرے گا۔ایمان کا تقاضہ ہے کہ ہم رمضان جیسے مقدس مہینے کی نعمت کا احساس کریں۔ اور اس احساس کا تقاضہ ہے کہ اس نعمت پہ رب کی شکرگذاری ہو۔
رمضان جیسا مہینہ نصیب ہونے کی بھی نعمت ہے ان نعمتوں کا احساس کیوں نہ کریں، کہ ان نعمتوں کے بدلے ہمیں ہرقسم کی نیکی کی توفیق ملتی ہے۔ روزہ، نماز، صدقہ، خیرات ،دعا ، ذکر، توبہ، تلاوت، مغفرت،رحمت وغیرہ ان نعمتوں کی دین ہے۔ جب ہم نے اپنے دل میں مہمان کی عظمت بحال کرلی، اس عظیم نعمت کی قدرومنزلت کا بھی احساس کرلیا تو اب ہمارا یہ فریضہ بنتا ہے کہ اللہ کی طرف لوٹ جائیں۔ ’’انابت الی اللہ‘‘ عظمت اور نعمت کے احساس میں مزید قوت پیدا کرے گی۔ اللہ کی طرف لوٹنا صرف رمضان کے لیے نہیں بلکہ مومن کی زندگی ہمیشہ اللہ کے حوالے اور اس کی مرضی کے حساب سے گذرنی چاہیے۔ یہاں صرف بطور تذکیر ذکر کیا جارہاہے کہ کہیں ایسا نہ ہو بندہ رب سے دور ہوکر روزہ کے نام پہ صرف بھوک اور پیاس برداشت کرے۔ اگر ایسا ہے تو روزے کا کوئی فائدہ نہیں۔ پہلے رب کی طرف لوٹیں، اس سے تعلق جوڑیں اور اس کو راضی کریں پھر ہماری ساری نیکی قبول ہوں گی۔ انابت الی اللہ سے میری مراد، ہم رب پر صحیح طور ایمان لائیں، ایمان باللہ کو مضبوط کریں، عبادت کو اللہ کے لیے خالص کریں، رب پہ مکمل اعتماد کریں، اللہ کو سارے جہاں کا حاکم مانیں، خود کو اس کا فقیر اور محتاج جانیں ، کسی غریب ومسکین کو حقارت کی نظر سے نہ دیکھیں، ناداروں کی اعانت کریں، بیماری و مصیبت میں اسی کی طرف رجوع کریں۔
رمضان المبارک میں ہر مسلمان کو برائی سے اجتناب اور نیکی کی ترغیب دینی چاہیے ۔ رمضان کے استقبال میں ایک اہم پہلو یہ ہے کہ ہم پہلے اپنے گذشتہ گناہوں سے سچی توبہ کریں اور آئندہ گناہ نہ کرنے کا عزم مصمم کرلیں کیوں کہ لوگ ایک طرف نیکی کرتے ہیں تو دوسری طرف بدی بھی کرتے ہیں۔ اس طرح اعمال کا ذخیرہ نہیں بن پاتا بلکہ بدی کے سمندر میں ہماری نیکیاں ڈوب جاتی ہیں۔ اس لیے رمضان المبارک کی برکتوں، رحمتوں، نعمتوں، بخششوں اور نیکیوں کو بچانا چاہتے ہیں تو بدی سے مکمل اجتناب کرنا پڑے گا۔ اللہ تعالیٰ فسق وفجور اور ناپسندیدگی سے خرچ کرنیکی وجہ سے صدقہ کو قبول نہیں کرتا۔ جو آدمی عبادت بھی کرے اور گناہ کا کام بھی کرے تو اس میں کوئی شک نہیں کہ اس کا نیک عمل مردود ہے۔
رمضان بھلائی کمانے کے واسطے ہے، اللہ تعالیٰ مومنوں کو متعدد طریقے سے اس مہینے میں بھلائی سے نوازتاہے، ہمیں ان بھلائیوں کے حصول کی خاطر رمضان سے پہلے ہی کمربستہ ہوجانا چاہیے اور مواقع حسنات سے مستفید ہونے کے لیے برضا ورغبت ایک خاکہ تیار کرنا چاہیے تاکہ ہرقسم کی بھلائیاں سمیٹ سکیں۔ سمجھ کر قرآن پڑھنے کا اہتمام، نمازوں کے علاوہ نفلی عبادات، صدقہ وخیرات، ذکرو اذکار، دعا و مناجات، طلب عفو و درگذر، قیام اللیل کا خاص خیال، روزے کے مسائل کی معرفت بشمول رمضان کے مستحب اعمال، دروس وبیانات میں شرکت، اعمال صالحہ پہ محنت ومشقت اور زہدوتقوی سے مسلح ہونے کا مکمل خاکہ ترتیب دیں اور اس خاکے کے مطابق رمضان المبارک کا روحانی ومقدس مہینہ گذاریں۔
رمضان میں ہرچیز کا ثواب دوچندہوجاتا ہے اور روزے کی حالت میں کارثواب کرنا مزید اضافہ حسنات کا باعث ہے، اس لیے اس موسم میں معمولی نیکی بھی گرانقدر ہے خواہ مسواک کی سنت ہی کیوں نہ ہو۔ ہر نماز کے لیے مسواک کرنا، اذان کا انتظار کرنا بلکہ پہلے سے مسجد میں حاضر رہنا، تراویح میں پیش پیش رہنا، نیکی کی طرف دوسروں کو دعوت دینا، دروس قرآن کا اہتمام کرنا، منکرات کے خلاف مہم جوئی کرنا اور صالح معاشرہ کی تشکیل کے لیے جدوجہد کرنا سبھی ہمارے خاکے کا حصہ ہوں۔ استقبال رمضان کے لیے خود کو مکمل تیار کریں، پہلے سے زیادہ سچائی اور نیکی کی راہ اختیار کریں۔ رمضان چونکہ رمضان ہے اس لیے اس سے قبل ہی بہتری کااظہارشروع ہونے لگ جائے۔ تقویٰ کے اسباب اپنائیں اور خود کو متقی انسان بنانے پہ عبادت کے ذریعے جہد کرنے کا مخلصانہ جذبہ بیدار کرے۔ یہاں یہ بات بھی نہیں بھولنی چاہیے کہ اپنے اندر بہتری پیداکرنے کی خوبی اور خاصہ صرف رمضان کے لیے نہیں بلکہ سال بھر کے لیے پیدا کریں۔ ایسے بہت سے لوگ ہیں جو رمضان کے نمازی ہواکرتے ہیں اور رمضان رخصت ہوتے ہی نماز سے بلکہ یہ کہیں اللہ سے ہی غافل ہو جاتے ہیں۔اس لیے ابھی سے ہی یہ راہ مہیارہے کہ اچھائی کے لیے بدلاؤ مہینہ بھر کے لیے نہیں سال بھر بلکہ زندگی بھر کے لیے ہو۔ اسی طرح کا بدلاؤ رمضان کے سارے اعمال کو اللہ کے حضور شرف قبولیت سے نوازے گا اورآپ کی اخروی زندگی کو بہتر سے بہترکرے گا۔ ہم اپنے دوست احباب میں 20 افراد کو چن کر ان کو نیکی کی رغبت دیں، فریضہ اقامت دین کی جدوجہد میں شامل کریں ان کے لیے چھوٹی چھوٹی افطاریوں کا اہتمام کریں۔
جہاں ہم نے استقبال رمضان کے سلسلے میں برکات کا تذکرہ کیا ہے وہاں ایک بات بڑی توجہ طلب ہے، مصنوعی قلت پیدا کر کے معاشرے کے نادار طبقات پر رمضانِ مبارک میں غیرمعمولی مہنگائی کا عذاب مسلط کرنا اور دوسری طرف غریب پروری کے اظہار کے لیے چوراہوں اور فٹ پاتھوں پر دستر خوان سجانااور اب تو حال یہ ہے کہ قتلِ ناحق اورفساد بھی مذہبی عنوان سے کیا جارہا ہے ۔
کسے خبر تھی کہ ہاتھ میں لے کر چراغِ مصطفوی
جہاں بھر میں آگ لگاتی پھرے گی بولہبی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button