Column

انتخابی ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی … امتیاز عاصی

امتیاز عاصی …

انتخابی مہم کے سلسلے میں نافذ شدہ قوانین پرسیاست دانوں کا عمل پیرا ہونا ضروری ہے۔ اگر انتخابی ضابطہ اخلاق پر عمل درآمد نہ ہو تو انتخابات کی شفافیت پر حرف آتا ہے۔سیاست دان انتخابی قوانین کی پاسداری کریں تواِن کو ایک دوسرے کے خلاف شکایات کی نوبت نہ آنے پائے۔ آزاد کشمیر کے انتخابات کے دوران وفاقی وزیر علی امین گنڈا پور (جو جمعیت علماءاسلام کے امیر مولانا فضل الرحمن کو شکست دے کر قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے) کا تحریک انصاف کے امیدوار کے انتخابی جلسوں سے خطاب کا خاصا چرچا ہوا۔ ان کے خلاف الیکشن کمیشن میں شکایت درج کرائی گئی اور اب خیبر پختونخوا میں بلدیاتی انتخابات کا دوسرا مرحلہ شروع ہونے کو ہے۔جے یو آئی کے امیر اور پی ڈی ایم کے سربراہ دوسرے شہروں میں جلسوں سے خطاب کرنے میں مصروف ہیں۔ڈیرہ اسماعیل خان میں جے یو آئی کے بلدیاتی امیدوار کفیل نظامی کی انتخابی مہم سے آخر کسی نے تو خطاب کرنا تھا۔مولانا کی عدم موجودگی میں اُن کے چھوٹے بھائی (جو سرکاری ملازم ہیں) نے جے یو آئی کے امیدوار کی انتخابی مہم چلانا شروع کر دی ہے۔بظاہر تو بڑے بھائی کی جگہ چھوٹا بھائی کوئی ذمہ داری نبھا دے تو کوئی مضائقہ نہیں لیکن ضیاءالرحمن سرکاری ملازم ہونے کی وجہ سے کسی سیاسی جلسہ سے خطاب نہیں کر سکتے ،کجا وہ اپنے بڑے بھائی کی جماعت کے امیدوار کی انتخابی مہم میں حصہ لیں۔

ضیاءالرحمن کو کوئی کیسے پوچھ سکتا ہے، وہ انجینئر ہوتے ہوئے ڈپٹی کمشنر کے عہدے پر فائز ہو سکتے ہیں تو انتخابی مہم میں شرکت پر اِنہیں کون پوچھ سکتا ہے؟پی ٹی سی ایل میں ملازمت کے دوران جے یو آئی کے دور میں اِنہیں خیبر پختونخوا کی صوبائی سروس میں شامل کر لیا گیا۔ضیاءالرحمن کتنے خوش قسمت ہیں، بغیر صوبائی پبلک سروس کا امتحان پاس کیے اِنہیں پی سی ایس میں شامل کر لیا گیا۔عام طور پر کہا جاتا ہے کہ اگر کوئی سیاست دان انتخاب ہار جائے تو کوئی اِس کی بات نہیں سنتالیکن ہم اِس بات سے متفق نہیں۔انتخاب ہارنے کے باوجود کسی سیاست دان کو اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد کی سربراہی مل جائے تو یہ سودا گھٹائے کا نہیں ۔مولانا فضل الرحمن ہر دور میں اقتدار میںرہے وہ اقتدار میں رہتے ہوئے جو کام نہیں کراسکے وہ انتخاب ہارنے کے باوجود کر اسکتے ہیں۔ملکی تاریخ میں کبھی ایسا نہیں ہوا ہوگا کہ ایک صوبائی سروس کے افسر کودوسرے صوبے میں ڈپٹی کمشنر لگا دیا گیا ہو لیکن مولانا یہ کام بھی کر گزرے۔ وزیراعظم عمران خان (جن کے مولانا بہت بڑے ناقد ہیں)جی عمران خان کے دور میں وہ اپنے چھوٹے بھائی کو کراچی میں ڈپٹی کمشنر لگوانے میں کامیا ب ہوگئے۔اسٹیبلشمنٹ ڈویژن نے وزیراعظم کو کانوں کان خبر نہیں ہونے دی، یہ تو بھلا ہو میڈیا کا، جس نے اِس غیر قانونی کام کی بروقت نشاندہی کرکے ضیاءالرحمن کو ڈپٹی کمشنری محروم کرادیا۔ ہم تو سنتے تھے کہ سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتالیکن میڈیا والے بہت بے رحم ہوتے ہیں۔ضیاءالرحمن ڈی سی رہ جاتے تو کسی کا کیا نقصان تھا؟ سیاست دانوں کو اپنے عزیزوں اور رشتہ داروں کو نوازنے کے لیے چور دروازوں کا پتہ ہوتا ہے۔تھوڑی مولانا سے بھول ہوگئی، اگر وہ وزیراعظم عمران خان سے مراسم رکھتے تو ضیاءالرحمن ڈی ایم جی میں انڈکٹ ہو جاتے۔یہی تو مولانا سے بڑی بھول ہوئی ۔ اگر اِن کے بھائی کراچی میں ڈپٹی کمشنر رہتے تو اگلی حکومت میں انہیں ڈی ایم جی گروپ میں آنے میں اور آسانی ہو جاتی۔ درپردہ مولانا کے پیپلز پارٹی کے بڑوں سے بڑے قریبی روابط ہیں۔ بے نظیر بھٹو جب وزیراعظم تھیں تو بھی مولانا اپنے پی اے جلال کو نائجرمیں پاکستان کا سفیرتعینات کرانے میں کامیاب ہو گئے تھے۔مولانا کا تعلق ایک بڑے مذہبی گھرانے سے ہے۔ اِن کے والد محترم کو اِس صدی کا ولی کہا جاتا تھا۔جب وہ وزیراعلیٰ بنے تو کے پی کے (سابق صوبہ سرحد) میں شراب کی فروخت پر پابندی کا پہلا حکم جاری کیا لیکن ملک کی یہ بدقسمتی رہی ہے کہ سیاست دان دوسروں پر تنقید کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ جب اپنی ذات کا کوئی معاملہ ہو تو تمام قاعدے اور ضابطوں کو بھلا دیتے ہیں۔

مولانا کے بھائی کے خلاف کچھ لوگوں کو ملازمتیں دینے کی نالش نیب میں چل رہی تھی ۔ ہمیں اِس کا علم نہیں یہ معاملہ کس مرحلے پر ہے لیکن افسوس اِس بات کا ہے کہ سیاست دان دوسروں کو تو پارسائی کا درس دیتے ہیں لیکن جب اپنی ذات کا معاملہ ہو تو قاعدے اور قوانین کی پروا نہیں کرتے۔ڈپٹی کمشنر کے عہدے تک پہنچنے کے لیے پڑھے لکھے نوجوانوں کوسی ایس ایس کا امتحان پاس کرنے کے بعد انٹرویو کے سخت ترین مرحلے سے گزرنا پڑتا ہے، تب جا کر اِن کا میرٹ بنایا جاتا ہے لیکن دوسری طرف ہماری سول سروس میں بغیر میرٹ کے بھرتیوں نے سول سروس کا بیڑہ غرق کر دیا ہے۔ہم بات کر رہے تھے انتخابی ضابطہ اخلاق کی۔خبر کے مطابق خیبر پختونخوا کے الیکشن کمشنر نے ضیاءالرحمن کو نوٹس تو جاری کر دیا ہے لیکن اب دیکھتے ہیں کہ کیا کارروائی عمل میں لاتا ہے؟ سرکاری ملازمین کے سیاست میں حصہ لینے پر ویسے بھی پابندی ہے۔ اچھا امیدوار انتخابی جلسوں سے خطاب نہ بھی کرے تو عوام ووٹ دینے میں دیر نہیں کرتے۔ 2018کے انتخابات میں ملکی سیاست نے پلٹا کھایا اور عوام نے ایک نئی جماعت تحریک انصاف کو مینڈیٹ دے کر اقتدار سونپا ۔یہ علیحدہ بات ہے کہ موجودہ حکومت عوام کو ڈلیور نہیں کر سکی بلکہ الٹا عوام کی مشکلات میں اضافہ ہوا ہے۔سیاست دانوں کا انتخابی جلسوں سے خطاب تو بجا ہے لیکن سرکاری ملازمین کو سیاسی عمل میں شرکت سے گریز کرنا چاہیے۔قانون کی پاسداری ہر سرکاری ملازمین پر فرض ہے، خواہ اِس کا تعلق کسی سے بھی ہو۔ضیاءالرحمن نے جے یو آئی کے امیدوار کی انتخابی مہم کے دوران خطاب تو کر دیا ہے اب الیکشن کمیشن کا امتحان ہے کہ وہ اِن کے خلاف کیا کارروائی کرتا ہے ؟

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button