Column

معمولی سی غلطی ….. ناصر نقوی

ناصر نقوی …..

زندہ دل لاہوری میلے ٹھیلے اور کھابوں کے عادی تو تھے ہی، موجودہ دور میں پینے پلانے کے شوق میں بھی مبتلا ہو گئے ہیں، شراب اور شباب زدہ محفلیں اشرافیہ کا شوق ہے اِس لیے اِن کا شور اِس قدر نہیں، جتنا ہونا چاہیے تھا کیونکہ شراب پرمٹ سے بڑے ہوٹلوں میں ملتی ہے، بے چاری مسیحی برادری پر الزام ہے کہ پرمٹ اِن غریبوں کے نام پر ہیں لیکن پیتے اِسے مسلمان ہیں، مسیحیوں نے ایک سے زیادہ مرتبہ احتجاج کر کے مطالبہ کیا کہ اِس تہمت سے اِن کی جان چھڑائی جائے پھر بھی کسی نے اِن کی نہیں سنی ، دوسری جانب چرس بھنگ اور افیون کا نشہ پرانا ہو گیا لہٰذا آئس ، ہیروئین اور ماڈرن تحفہ شیشہ آگیا اور اِس تحفے نے دیکھتے ہی دیکھتے نئی نسل کو اپنی گرفت میں لے لیا، منشیات فروشوں نے نوجوانوں کی دلچسپی دیکھی تو علاقائی پولیس اور جرائم پیشہ سے مل کر کھل کر کھیلے ،نتیجہ پورے شہر کے سامنے ہے ، اینٹی نارکوٹیکس کا محکمہ بھی فعال ہے ، بظاہر کارروائیاں بھی بڑی دلچسپی سے دکھائی جاتی ہیں پھر بھی روزانہ کی بنیاد پر نشیﺅں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے ۔ایک سروے کے مطابق صوبائی دارالحکومت لاہور کی آبادی قریباً ڈیڑھ کروڑ اور اِن میں سے سات لاکھ افراد منشیات کے عادی ہیں، اسی طرح پنجاب کی آبادی قریباً گیارہ سے بارہ کروڑ ہے جبکہ 35 لاکھ سے زیادہ نشے کے عادی ہیں ، عادی نشہ بازوں میں نئی نسل کے نوجوان لڑکے اور لڑکیاں بھی بڑی تعداد میں شامل ہیں۔ منشیات کے عادی افراد کی بحالی کے لیے لاہور میں دس بحالی سنٹرز بنانے کا فیصلہ کیا گیا ہے، اِس سلسلے میں محکمہ سوشل ویلفیئر نے نشہ آور افراد سے متعلق ایک خصوصی رپورٹ پنجاب حکومت کو ارسال کی ہے اورذرائع کے مطابق منشیات کے اِن عادی افراد کی بحالی اور انہیں قومی دھارے میں لانے کے لیے چھ ارب روپے کی لاگت سے ”سٹیٹ آف دی آرٹ“بحالی سینٹر کی تعمیر کے لیے بنیادی ورکنگ مکمل کر لی گئی ہے۔ اب یہ ادارے اپنی محکماتی کارروائیوں کے بعد کب تعمیراتی کام شروع کریں گے، فی الحال اِن کے بارے میں کچھ نہیں کہا جاسکتا کیونکہ کوئی نہیں جانتا کہ چھ ارب روپے کے فنڈز کی منظوری گذشتہ بجٹ میں ہوگئی تھی کہ آئندہ بجٹ میں لی جائےگی ۔

یقیناً یہ ایک مثبت منصوبہ ہے کیونکہ قوم کے ہونہار وں کو منشیات کی لعنت سے بچانے کے لیے فوری اقدامات ہونے چاہئیں لیکن خبر یہی ہے کہ آئندہ بجٹ میں یہ فنڈز حاصل کیے جائیں گے جب تک” ہم اور آپ“ لاہور کی اہم شاہراﺅں اور خاص طور پر خوبصورت نہر کنارے اِن کی ”پروازیں“ دیکھتے رہیں گے ۔ چندبے حس منشیات فروش اِن کو ہیروئین ، چرس اور ٹیکوں کی سپلائی دیتے بھی پائے جاتے ہیں، سر عام یہ دھندہ اہم شاہراﺅں پر جاری ہے، بسا اوقات باوردی پولیس اہلکار اِن عادی مجرموں سے مذاکرات کرتے بھی نظر آتے ہیں لیکن اِن کی بات چیت کسی کارروائی کی بجائے ”مک مکا “ کے لیے ہوتی ہے ، تصویر کا دوسرا رخ یہ ہے کہ شہر میں بحالی کے نجی مراکز منشیات کے عادی افراد کے خاندانوں کو دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہے ہیں اور صاحبِ حیثیت خاندان اپنے بچوں کی بحالی کے لیئے ہر ممکن حد تک بلیک میل کیے جاتے ہیں اِس لیے کہ ایسے مریضوں کو مرکز سے باہر نکلنے اور عزیز رشتے داروں سے ملنے نہیں دیا جاتا، ایسے ہی ایک ادارے سے بھاگے ہوئے مریض کا دعویٰ ہے کہ اِس کے والدین لاکھوں روپے کی ادائیگی کر چکے ہیں پھر بھی میری اِس عادت سے جان نہیں چھوٹ سکی کیونکہ مریض جب نشے کے لیے ہنگامہ آرائی کرتے ہیں تو انتظامیہ ہمیں نشہ بھی فراہم کردیتی ہے۔ سنا ہے کہ اِن اداروں کے مریضوں کے لیے ہیروئین وغیرہ کا سرکاری کوٹہ بھی جاری ہوتا ہے جو مریضوں کو کم اور بازاروں میں زیادہ فروخت کر دیا جاتا ہے ، اگر یہ بات درست ہے تو پھر نجی بحالی سنٹرز کو بھی کسی خاص دائرے میں لانے کی ضرورت ہے اِس مریض کا یہ دعویٰ بھی تھا کہ پرائیویٹ بحالی سینٹرز میں مریضوں سے جرائم پیشہ قیدیوں جیسا سلوک کیا جاتا ہے جس سے مریضوں میں اچھا ردعمل پیدا نہیں ہوتا۔
اطلاعات بالکل ایسی ہی ہیں ہمارے دوست ذوالفقار حسین شاہ برسوں سے انسداد منشیات مہم کے لیئے خدمات انجام دے رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ نئی نسل کا نشے کا عادی ہونا کسی قومی المیے سے کم نہیں، ہم اِس لعنت سے نجات کے لیے کونسلنگ کرتے ہیں، نوجوانوں سے بھی ملتے ہیں ،اِن کے والدین سے بھی رابطہ رکھتے ہیں

لیکن ایک بنیادی وجہ لوگوں کی نفرت ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ منشیات کے عادی ہمدردی چاہتے ہیں جبکہ ہمارے رویے منفی ہو جاتے ہیں، اگر اِن لوگوں کو پیار محبت سے” ہینڈل“ کیا جائے تو مثبت نتائج جلدی نکلتے ہیں ہمارا تجربہ اور مشاہدہ یہی ہے یقیناً منشیات قوموں کی بربادی کا باعث ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اِس سے بچنے کے لیے بنیادی وجوہات بھی تلاش کرنا پڑتی ہیں، نئی نسل روزگار میں تاخیر ، عشق میں ناکامی اور گھریلو حالات سے بیزاری کی وجہ سے مصنوعی سہارے ڈھونڈتے ہیں اورپھراِن سہاروں میں سب سے اہم نوجوان کی سوسائٹی یعنی بیٹھک ہوتی ہے، اگر دوستوں میں ایک بھی عادی مجرم ہے تو اِس کی صحبت میں دوسرے بھی خراب ہو جاتے ہیں، سگریٹ اِس کی ابتداءاور پھر چرس باعث تقویت بنتی ہے ، اِس کے بعد پھر” چل سو چل“ آج کے جدید دور میں چرس ، آئس، شیشہ یورپی سٹائل میں ترقی یافتہ تہذیب کی نشانی سمجھے جاتے ہیں، والدین اور بہن بھائیوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے پیاروں پر نظر رکھیں ، اِس وبا اور شوق میں خاندانوں کے خاندان تباہ ہو رہے ہیں اور کوئی اِس طوفان کے سامنے بندھ باندھنے کو تیار نہیں، حکومتی ایوان اور قانون نافذ کرنے والے ادارے اِس صورت حال سے آگاہ ہیں لیکن کوئی کچھ کرنے کی حکمت عملی نہیں بنا رہا۔ سوال یہ ہے کہ اولاد نرینہ کہ خواہش کرنے والے اس تحفہ خداوندی کی حفاظت میں ناکام کیوں ہیں ؟ صرف اِس لیے کہ اپنی ذمہ داری پوری نہیں کر رہے اور جب عمر بھر کی کمائی لٹتی محسوس ہوتی ہے تو پریشان ہو جاتے ہیں۔ حقیقت تو یہی ہے کہ اگر ابتداءمیں خیال نہیں رکھا گیا تو پریشانی نصیب بنے گی اور اِس پریشانی سے زندگیاں برباد ہو سکتی ہیں لہٰذا اِس بڑھتی ہو ئی وباءسے بچنے کے لیے والدین کو ایک اچھے کیئر ٹیکر کی حیثیت سے بچوں کی فکر کرنا ہو گی۔ اِس لیے کہ اگر ”سوسائٹی “کے کسی پیارے نے اِن کے بچوں کو چھپ چھپا کر یہ تحفہ دے دیا تو اِس سے نجات جان جوکھوں کا کام بن جاتا ہے ”اولاد“ قدرت کا یسا انمول تحفہ ہے جو بہت سوں کی قسمت میں نہیں ہوتا لیکن کبھی کبھی نصیب والے معمولی غلطی سے ”اولاد“ کو رحمت کی بجائے باعث زحمت بنالیتے ہیں ۔

لمحہ فکریہ ہے کہ منشیات کی خرید و فروخت میں نہ صرف اضافہ ہو چکا بلکہ کھلے عام مل رہی ہے اور نئی نسل نتائج سے بے خبر اِس جال میں پھنستی جارہی ہے۔ حکومت ، منتخب نمائندوں اور نجی فلاحی اداروں کو اِن حالات میں اپنی کارکردگی بہتر کرنا ہو گی لیکن بنیادی ذمہ داری والدین اور اساتذہ سمیت قریبی دوست احباب کی بھی ہے ۔ اگر مجموعی طور پر کوشش کی جائے تو سود مند نتائج بآسانی نکل سکتے ہیں جبکہ بے احتیاطی معمولی سی غلطی کو غیر معمولی بحران بنا سکتی ہے ، یقین مانئے ۔اگر کسی ایک خاندان میں منشیات کا عادی ہو تو پورا خاندان ڈسٹرب ہو جاتا ہے، نشے میں مبتلا یہ لوگ اپنی ضرورت کے لیے کچھ بھی، کسی کا بھی فروخت کرنے سے گریز نہیں کرتے ۔ ذرائع آمدن نہ ہونے کے باعث یہ لوگ قیمتی اشیاءاونے پونے دے کر اپنی ضرورت پوری کر لیتے ہیں، لہٰذا والدین خصوصی خیال رکھیں ۔ دوسروں کے مقابلے میں آپ کی ذمہ داری زیادہ ہے معمولی سی غلطی کو زندگی بھر کا دکھ نہ بنائیں آنکھیں اور کان کھلے رکھیں ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button