Columnمحمد مبشر انوار

فتح یا اشک شوئی!!!

تحریر : محمد مبشر انوار (ریاض )
یکم اپریل 2024کو دمشق میں ایرانی قونصل خانہ پر کئے جانے والے اسرائیلی حملے سے شروع ہونے والی چپقلش کا ڈراپ سین ،ایران کے اسرائیل پر ڈرون، میزائل حملہ سے ہو گیا، تاہم اس جوابی کارروائی سے اسرائیل یا ایران کو کیا حاصل ہوا،اس سے متعلق آراء مختلف ہیں۔ اسلامی دنیا میں جوش وولولہ ہے تو اسرائیل کی تلملاہٹ بھی واضح ہے،یہ امر عیاں ہے کہ اسرائیل،غزہ میں اپنی ہزیمت کو ختم کرنے کے لئے کسی بھی حد سے گزرنے کو تیار ہے کہ چھ ماہ سے مغربی دنیا کی بے جا حمایت ، کھلی جارحیت اور تمام تر جنگی جرائم کے باوجود،مٹھی بھر مسلمانوں کو گھٹنے نہیں ٹکوا سکا اور آج بھی حماس نہ صرف خک ٹھونک کر میدان میں کھڑی ہے بلکہ اسرائیل کے مغویان بھی ابھی تک بازیاب نہیں ہو پائے۔ یہ شرمندگی اسرائیل کو کسی پل چین نہیں لینے دے رہی اور اس کی ہر ممکن کوشش یہی ہے کہ اپنے مقاصد کے حصول کی خاطر، وہ اسلامی ممالک کو انگیخت کر پائے کہ جس کے نتیجہ میں عالمی امن کو شدید ترین خطرات لاحق ہو جائیں،تمام دنیا کسی نہ کسی حوالے سے اس میدان کارزار میں کود پڑے اور جو جنگی جرائم تاحال ( گو کہ باقی کوئی بھی نہیں بچا) اسرائیل غزہ میں نہیں کرپایا،وہ بھی کر گزرے اور غزہ کو فلسطینی مسلمانوں سے واگزار کروا لے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ کسی بھی خودمختار ریاست کے لئے ایسی صورتحال انتہائی پریشان کن ہو جاتی ہے کہ کوئی مخالف ریاست،اس کی خودمختاری پر براہ راست حملہ کر دے اور ریاست اس کا جواب نہ دے،تو یقینی طور پر عالمی سطح پر اس ریاست کی ساکھ کو شدید ترین دھچکا پہنچتا ہے۔ایسی صورت میں وسائل کی اہمیت ثانوی ہو جاتی ہے، غیرت و حمیت کا تقاضہ یہی ہوتا ہے کہ جیسے بھی بن پڑے،حملہ آور ریاست کو بھر پور جواب دیا جائے تا کہ باقی دنیا کو یہ سبق ازبر ہوجائے ،ایک واضح پیغام پہنچ جائے کہ ریاست میں ابھی دم خم باقی ہے اور ریاست کسی بھی میلی نظر کا جواب دینے کی اہلیت رکھتی ہے۔ اس صورتحال سے پاکستان ،حالیہ تاریخ میں ،دو مرتبہ دوچار ہوا ہے،جس کا بھرپور جواب پاکستان نے اپنے دشمنوں کے دانت کھٹے کر کے دیا ہے،وہ خواہ بھارت کی صورت ازلی دشمن ہو یا ایران کی صورت برادر پڑوسی ملک ہو یا مخاصمت کا شکار افغانستان ہو،بہر طور پاکستان کے بھرپور اور بروقت جواب نے تینوں ممالک کو حد میں رہنے پر مجبور کیا ہے۔یہ الگ بات ہے کہ پاکستان کو ایسی صورتحال کا سامنا کیوں کرنا پڑا ہے،ایسے حالات ایک ایٹمی طاقت کو کیوں درپیش ہوئی کہ اس کے پڑوسیوں نے پاکستان پر اعتبار کرنے کی بجائے ازخود کارروائی کو ترجیح دی؟پاکستان کو ان وجوہات پر نہ صرف غور کرنے کی ضرورت ہے بلکہ ان کا فی الفور تدارک بھی اہم ترین ضروت ہے، وگرنہ مورخ ان وجوہات کو بلا امتیاز و کم وکاست تاریخ کا حصہ بناتے ہوئے،ارباب اختیار کی مجرمانہ غفلت کو آشکار ضرور کرے گا۔اس کے باوجود پاکستان کو بہرحال یہ کریڈٹ ضرور جاتا ہے کہ پاکستان نے اپنی خودمختاری پر ایسے کسی بھی حملے کا جواب،عالمی تقاضوں کو مد نظر رکھتے ہوئے،فی الفور اور متاثر کن دیا ہے۔
ماضی میں ،ایسی صورتحال پر اکلوتی عالمی طاقت کا ردعمل دیکھا جائے تو معاملات مزید واضح ہوتے ہیں کہ ریاستی خودمختاری کو قائم و دائم رکھنے کے لئے ریاستیں کس حد تک جاتی ہیں اور کیسے اپنی دھاک بٹھاتی ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ ماضی میں امریکہ میں ہونے والی دہشت گردی پر امریکہ نے فوری طور پر ردعمل کی بجائے،انتہائی سکون کے ساتھ پہلے رائے عامہ اپنے حق میں ہموار کی اور اپنے حلیفوں کے ساتھ پہلے عراق اور پھر افغانستان پر،ایک بدمست ہاتھی کی مانند چڑھ دوڑا۔ اس امریکی ردعمل کو دنیا بھر میں شکوک و شبہات کی نظر سے دیکھا گیا لیکن ہاتھی کے پاؤں میں سب کا پاؤں کہیں یا مسلم دشمنی سمجھیں،تمام قابل ذکر ممالک اور نیٹو حلیف مل کر ان ممالک پر چڑھ دوڑے اور ان کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔اسی پر اکتفا نہیں کیا گیا بلکہ اس معرکہ کو حق و باطل اور کروسیڈ وار کا نام دے کر،اس پر ڈٹ گئے،تب امریکہ نے بھی جنگی قوانین کی رتی بھر پرواہ نہیں کی تھی اور بچوں،بوڑھوں،نہتوں،عورتوں کے علاوہ جنازوں،شادیوں ،ہسپتالوں اور سکولوں کو نشانہ بناتا رہا تھا گو کہ ہر طاقتور جارح کی طرح بعد ازاں غلط فہمی کہہ کر معذرت کرنا اس کا مداوا کسی صورت نہیں ہوسکتا۔ بعینہ یہی لائحہ عمل اس وقت اسرائیل نے ،غزہ میں اپنا رکھا ہے اور چونکہ اسے علم ہے کہ طاقتور جارح پر کسی بھی عالمی ادارے کو یہ جرآت نہیں کہ اس کو مورود الزام ٹھہرا کر قرار واقعی سزا دے سکے،لہذا انہی طاقتور جارح مملکتوں کی پشت پناہی پر اسرائیل کی گو شمالی بھی ممکن نہیں ،اس تاثر نے اسرائیل کو شتربے مہار بنا رکھا ہے۔
ایران کا ماضی انتہائی تابناک رہا ہے اور ایرانی تہذیب نے اسے تاریخ میں ایک مقام عطا کر رکھا ہے ،یہ کیسے ممکن تھا کہ اسرائیل جیسا ملک اس کی خودمختاری پر حملہ آور ہو اور ایران اس کا جواب نہ دے؟اس جوابی کارروائی میں تاخیر نے بہرطور اسے مشکوک بنا دیا ہے لیکن جوابی کارروائی سے ایرانی ریاستی خودمختاری کا اعلان واضح طور پر ہو گیا ہے اور دوسری طرف اسلامی دنیا میں واہ واہ الگ ہو گئی ہے کہ ایک ایسے ملک پر جوابی حملہ کیا گیا ہے کہ جس پر حملے کی جرات گزشتہ چھ ماہ سے کسی اسلامی ملک کی طرف سے نہیں کی گئی بشمول ایٹمی طاقت پاکستان بھی ،دیگر اسلامی ممالک کی طرح،اس معاملے پر تشویش کااظہارہی کرتا رہا ہے۔یا یمنی حوثی ،غزہ سے سیکڑوں میل دور سمندر میں اپنے مسلمان بہن بھائیوں پر ہونے والے مظالم کے خلاف برسرپیکار دکھائی دے رہے ہیں تودوسری طرف حزب اللہ کے مجاہدین لبنان سے ملی سرحدوں پر بروئے کار دکھائی دیتے ہیں لیکن صد افسوس کہ اس کارزار میں اترنے کے باوجود،غزہ کے مسلمانوں کو براہ راست کوئی فائدہ ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔ایران کی موجودہ جوابی کارروائی کو اگر حقیقی معنوں میں دیکھا جائے تو یہ کارروائی بھی ایرانی خودمختاری پر چوٹ کے باعث دیکھنے میں نظر آئی ہے ،غزہ میں ہونے والے مظالم کے خلاف،ایران بھی دیگر مسلم ممالک کی طرح ہی جنگ بندی کی دہائی دیتا نظر آیا ہے یا اگر تھوڑی سی وسعت نظر سے دیکھیں تو حوثیوں اور حزب اللہ کی کاوشوں کو ایران کے کھاتے میں ڈالا جا سکتا ہے لیکن اس کا براہ راست اثر/فائدہ غزہ میں دیکھنے کو نہیں ملتا۔ایرانی جوابی کارروائی میں،ایران نے تقریبا تین سو ( بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق) مختلف ہتھیاروں،جن میں ڈرون،میزائل وغیرہ شامل تھے،سے حملہ کیا اور دعویٰ کیا ہے کہ ایران نے اپنے 50%مقاصد حاصل کر لئے ہیں، حیران کن دعویٰ ہے کہ ایران نے جوابی کارروائی میں تاخیر کے باوجود،نہ صرف خطے میں بلکہ امریکہ کو بھی مطلع کر دیا تھا کہ ایران اپنی جوابی کارروائی کس وقت کرنے جا رہا ہے۔اس دورانئے میں بھی ایران نے دئے گئے وقت کے آخری لمحات میں کارروائی کی،جس کے بعد کسی اچانک کاررواءی کا امکان ہی ختم ہو گیا اور اس دوران خطے میں نہ صرف فضائوں کو خالی رکھا گیا بلکہ اسرائیل اور اس کے پشت پناہوں کو یقینی ہو گیا کہ کارروائی اسی وقت کے دوران ہو گی لہذا تمام تر دفاعی اقدامات یقینی بنا لئے گئے۔ اس صورت میں ایران نے کس طرح اپنے مقاصد حاصل کئے ہیں، پر سوالیہ نشان کھڑا کر دیا ہے تاہم اس دعوے پر کیا کہا جا سکتا ہے؟ جوابی کارروائی کے بعد امریکہ ،برطانیہ و فرانس کی طرف سے یہ دعویٰ کہ ایرانی حملے میں 90%ہتھیاروں کو کامیابی سے تلف کر دیا گیا،بعد ازاں ایرانی وزیارت خارجہ کی جانب سے ان ممالک کے سفراء کو بلا کراپنے تحفظات سے آگاہ کرنا اور معاملے کو لپیٹ دینا،چہ معنی دارد؟البتہ ایران کی طرف سے دی گئی وارننگ کے دوران،میڈیا کی جانب سے یہی رپورٹ ہوا ہے کہ اس دوران اسرائیل نے غزہ میں کسی قسم کی کارروائی نہیں کی ،جو غزہ والوں کے لئے یقینی طور پر وقتی راحت کا باعث تو ہو سکتی ہے جبکہ مستقلا راحت کسی بھی صورت نہیں ہوسکتی۔یہ صورتحال تو خیر ایران کی جانب سے ہے،دوسری طرف اگر امریکہ و حلیفوں کا رویہ دیکھا جائے تو نیتن یاہو کو سخت الفاظ میں روک دیا گیا ہے کہ ایرانی جوابی کارروائی پر کوئی بھی قدم اٹھانے سے قبل اسرائیل ،امریکہ کو لازما اعتمادمیں لے اور مزید کسی قسم کی کارروائی نہ کرے،جبکہ اس کارروائی کے بعدبھی امریکہ و حلیف اسرائیل پر ہونے والی جارحیت،اگر ہوتی ہے تو،اسرائیل کا دفاع کریں گے لیکن اسرائیلی جارحیت میں اسرائیل کے ساتھ نہیں کھڑے ہوںگے۔اس پس منظر میں چین کے کردار کو کسی بھی صورت نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ کس طرح پس پردہ چین نے ایران کو فوری جوابی کارروائی سے روکے رکھا اور کس طرح امریکہ کو اس کے دہرے کردار پر شرمندہ کیا ہے،لہذا اس پوری کارروائی میں نہ تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ ایران کی واضح فتح ہے اور نہ ہی اسے اسرائیل کی فتح کہا جا سکتا ہے کہ یہ کارروائی میدان جنگ کے برعکس کہیں اور لڑی گئی ہے ،اور نہ ہی اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ کم از کم کسی اسلامی ملک نے یہ جرات تو کی کہ اسرائیل پر حملہ آور ہوا ہے،تاہم اسے دونوں ممالک کی اشک شوئی کہا جا سکتا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button