ColumnImtiaz Aasi

اپوزیشن تحریک کامیاب ہو گی؟

تحریر : امتیاز عاصی
ایک سوال ذہین میں آتا ہے انتخابات کے دو ماہ بعد اپوزیشن جماعتوں کی تحریک کیا کامیابی سے ہمکنار ہو سکے گی؟ اپوزیشن جماعتوں میں شامل دو جماعتوں پی ٹی آئی اور جماعت اسلامی کے پاس سٹریٹ پاور ہے جب کہ دیگر علاقائی جماعتوں کے پاس سٹریٹ پاور کا فقدان ہے۔ تحریک انصاف اور جماعت اسلامی اپنے ورکرز کو جلسوں اور سڑکوں پر یقینی طور پر لا سکتے ہیں۔ سب سے بڑی بات یہ ہے پی ٹی آئی اس وقت ملک کی سب سے بڑی جماعت بن کر ابھری ہے جس کے رہنما اور ورکرز کی خاصی تعداد جیلوں میں ہونی کے باوجود عوامی قوت کے بل بوتے پر وہ لوگوں کو جلسوں اور سڑکوں پر آسانی سے لاسکتی ہے۔ جماعت اسلامی ایک منظم جماعت ہے جس کے ورکرز اپنے امیر کی آواز پر ہمہ وقت تیار رہتے ہیں۔ اپوزیشن نے حال ہی میں اپنا پہلا احتجاجی جلسہ پشین میں کیا ہے جس میں صوبائی حکومت کی طرف سے دفعہ ایک سو چوالیس کے نفاذ کے باوجود عوام کی خاصی تعداد نے شرکت کی ہے۔ بلوچستان جیسے پہاڑی علاقے میں جہاں آبادی دور دور تک دکھائی نہیں دیتی ایسے علاقوں میں عوام کی خاصی تعداد کا جلسے میں شرکت کرنا اس امر کا غماز ہے عوام باشعور ہو چکے ہیں۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ پر نظر ڈالیں تو ماضی میں جب کبھی حکومت مخالف تحریک کا آغاز ہوا اپوزیشن کو طاقت ور حلقوں کی حمایت حاصل رہی۔ جیسا کہ ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف پی این اے کی تحریک اپنے آغاز میں اتنے بڑے جلسے کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکی تھی تاہم وقت گزرنے کے ساتھ پی این اے کی بھٹو حکومت کے خلاف تحریک میں شدت آگئی۔ اب چھ جماعتی اپوزیشن کی تحریک ملک کے بڑے شہروں میں بڑے جلسے کرنے میں کامیاب ہو گئی تو اپوزیشن تحریک کی کامیابی کے امکانات روشن ہوں گے ۔ ملکی تاریخ شاہد ہے حکومت مخالف تحریک کامیابی کی طرف جاتی ہے تو ایسی صورت میں طاقت ور حلقے حکومت کے سر سے ہاتھ اٹھا لیتے ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف پی این اے کی تحریک کا معاملہ بڑا عجیب ہے۔ بھٹو اپوزیشن کے مطالبے پر دوبارہ انتخابات کرانے پر تیار ہو گئے تھے کہ ملک میں
مارشل لاء نافذ کر دیا گیا۔ بھٹو کے خلاف تحریک اور موجودہ اپوزیشن جماعتوں کی تحریک میں واضح فرق یہ ہے کہ چھ جماعتی اپوزیشن نے اپنی تحریک کو تحریک تحفظ آئین سے منسوب کیا ہے جس سے ایک بات واضح ہے اپوزیشن کی تحریک کا مقصد حکومت کو ہٹانا نہیں بلکہ ملک میں آئین کی بالادستی کو یقینی بنانا ہے۔ اس سے قبل ہم بات کر رہے تھے حکومت کے خلاف اپوزیشن کی حکومت مخالف تحریک کی کامیابی کا انحصار طاقتور حلقوں کی حمایت سے مشروط ہے۔ بے نظیر بھٹو اور نواز شریف کی حکومت کے خلاف اپوزیشن دھرنے طاقت ور حلقوں کی حمایت سے مشروط تھے۔ موجودہ حالات کے تناظر میں دیکھا جائے تو سیاسی رہنمائوں خصوصا پی ٹی آئی کے ان رہنمائوں اور ورکرز کو جنہیں اعلیٰ عدالتوں نے ضمانتوں پر رہا کرنے کے احکامات دیئے ان کی دوبارہ گرفتاریاں اس امر کی طرف واضح اشارہ ہے ملک میں نہ تو آئین اور نہ کوئی قانون ہے۔ سوال یہ ہے ایک طرف اپوزیشن کی یہ تحریک ملک میں آئین کے تحفظ کے لئے شروع کی گئی ہے دوسری طرف پی ٹی آئی کے سیکرٹری جنرل عمر ایوب خان جن کے دادا مرحوم ایوب خان نے
ملک میں مارشل لاء نافذ کرکے برسوں حکمرانی کی کا دعویٰ ہے ان کی تحریک حکومت کو پاش پاش کر دے گی سمجھ سے بالاتر ہے البتہ عمر ایوب خان نے اپنی پریس کانفرنس میں یہ بات درست کہی ہے عمران خان نے عوام کو شعور دیا لہذا عوام اپوزیشن کا ساتھ دے کر آئین اور قانون کی بالادستی کو یقین بنا سکتے ہیں۔ انتخابات کے نتیجہ میں اقتدار میں لائی جانے والی حکومت ملک میں سرمایہ کاری کے لئے کوشاں ہے جو احسن اقدام ہے لیکن ابھی تک حکومت نے عوام کو مہنگائی کے چنگل سے نجات دینے کے لئے کوئی بڑا اقدام نہیں اٹھایا ہے جس سے یہ کہا جا سکے حکومت عوام کے مسائل کو ترجیحی بنیادوں پر حل کرنے کی طرف گامزن ہے۔ گو حکومت آئی ایم ایف اور دیگر بین الاقوامی اداروں سے قرض لینے میں کامیاب ہو جائے گی تاہم ملک کو قرضوں کے بوجھ سے نکالنے کے لئے کوئی واضح اقدامات نہیں کئے جا رہے ہیں جس سے یہ کہا جا سکے یہ حکومت عمران خان کی حکومت سے بہتر انداز میں چل رہی ہے۔ پٹرولنگ مصنوعات میں قیمتوں میں دو روپے کمی ہوتی ہے تو چند روز بعد قیمتوں میں اضافہ کر دیا جاتا ہے ۔ عجیب تماشا ہے غریب عوام کا جینا اجیرن ہو چکا ہے۔ پنجاب کی وزیراعلیٰ نے آٹا سستا ہونے کے بعد روٹی کی قیمتوں میں کمی کا اعلان کیا ہے تو نانبائیوں نے ہڑتال کی دھمکی دے دی ہے۔ کے پی کے میں نانبائیوں کی جانچ پڑتال کا مستقل نظام ہے جہاں آٹے کے پیڑے کو باقاعدہ تولا جاتا ہے پنجاب میں اس طرح کا کوئی نظام نہیں ہے۔ ٹیکس کا معاملہ دیکھ لیں جس ملک میں لوگ ٹیکس دینے کو تیار نہ ہوں ایسے ملک ترقی کر سکتے ہیں۔ اپوزیشن جماعتوں کی تحریک دیکھا جائے تو اس لحاظ سے درست ہے جس ملک میں آئین اور قانون پر عمل درآمد نہ ہو رہا ہو ایسے ملک کا نظام کبھی ٹھیک نہیں ہو سکتا۔ اس ناچیز کے نزدیک جب تک ملک میں آئین اور قانون پر اس کی اصل روح کے مطابق عمل درآمد نہیں ہوگا اس وقت ملک اور عوام کے مسائل جوں کے توں رہیں گے۔ اس مقصد کے لئے حکومت اور عوام کو طاقت ور حلقوں کی حمایت درکار ہے طاقت ور حلقوں کی طرف سے کسی ادارے پر کسی قسم کا دبائو نہیں ہوگا یہ بات یقینی ہے آئین اور قانون پر عمل داری کی راہیں خود بخود کھل جائیں گی۔ اسلام آباد ہائیکورٹ کے چھ ججوں کی نالش اس امر کی واضح دلیل ہے اعلیٰ عدلیہ پر کسی قسم کا دبائو نہ ہو تو ملک کے بہت سے مسائل حل ہو سکتے ہیں، دوسری طرف موجودہ حکومت کے لئے تیس لاکھ ریٹیلرز کو ٹیکس نیٹ میں لانا کسی بڑے امتحان سے کم نہیں ہوگا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button