Column

دمشق حملے کا بدلہ، صورتحال مزید تشویشناک

تحریر : محمد ناصر شریف
یکم اپریل کو شام کے دارالحکومت دمشق میں ایرانی قونصل خانے پر اسرائیلی فضائی حملہ ہوتا ہے اور اس حملے میں دو سینئر کمانڈروں سمیت پاسداران انقلاب کے 7 اہلکار جاں بحق ہوجاتے ہیں۔ یہ اسرائیل کی جانب سے فلسطین کے بعد ایک اور مسلم ملک ایران کو براہ راست جنگ میں کودنے کی دعوت دینے کے مترادف تھا ۔ جس کے بعد ایران نے اعلان کیا تھا کہ وہ اپنے اہلکاروں کی ہلاکت کا بدلہ اسرائیل سے لے گا۔ 13 اور 14 اپریل کی درمیانی شب جب پاکستانی عوام عید الفطر کی طویل چھٹیوں کے مزے لے رہی تھی یک دم انٹرنیشنل میڈیا پر بریکنگز کا سلسلہ شروع ہوگیا کہ ایران نے دمشق میں ایرانی قونصلیٹ پر اسرائیلی حملے کے جواب میں اسرائیل پر پہلی بار براہ راست ڈرون اور کروز میزائلوں سے حملہ کر دیا، اسرائیل میں مخصوص اہداف پر درجنوں کروز میزائل اور ڈرون فائر کئے گئے، اسرائیل پر بیلسٹک میزائل بھی داغے گئے۔ ایران نے پڑوسی ممالک کو متنبہ کیا کہ جو بھی ایرانی ڈرون کو مار گرانے کیلئے اپنی فضائی حدود کھولے گا وہ بھی نشانہ بنے گا۔ اس کے بعد اسرائیل میں خوف و ہراس پھیل گیا ہے، تعلیمی ادارے پہلے ہی بند کرکے ہنگامی حالت نافذ کردی گئی۔ اسرائیلی وزیر جنگ یاوا گیلنٹ نے بتایا کہ ایران کی طرف سے 100 ڈرون داغے گئے تھے، اسرائیلی میڈیا کے مطابق کئی ڈرون اسرائیلی حدود تک پہنچ گئے جبکہ اسرائیلی فوج نے دعویٰ کیا ہے کہ انہوں نے متعدد ایرانی ڈرون کو شام اور اردن کی فضائی حدود میں مار گرایا۔ اردن نے اپنی فضائیہ کو الرٹ کر دیا ہے اور وہ اپنی فضائی حدود میں داخل ہونے والے کسی بھی ایرانی طیارے یا ڈرون کو مار گرانے کا اعلان کر دیا تھا۔ پاکستان نے صورتحال پر تشویش کا اظہار کیا ہے ، حماس، شام ، یمن نے موقف اپنایا کیا کہ ایران کو اپنے دفاع کا حق حاصل ہے، ایرانی حملوں پر بیروت، تہران اور بیت المقدس میں جشن منایا گیا، ریلیوں کا انعقاد کیا گیا ، چین نے کہا ہے کہ یہ غزہ تنازع کا نتیجہ ہے ، روس اور مصر نے فریقین سے تحمل کا مظاہرہ کرنے کا مطالبہ کیا ہے ، جی سیون ممالک کا کہنا ہے کہ عالمی اتحاد اسرائیلی سلامتی کیلئے متحد ہے۔ ایران کے صدر رئیسی اور ایرانی مسلح افواج کے چیف آف اسٹاف جنرل باغری کے مطابق اسرائیل نے اس کے حملوں پر رد عمل دکھایا تو اگلا حملہ مزید بڑا اور شدید ہوگا، اگر امریکا نے جوابی کارروائی میں اسرائیل کا ساتھ دیا تو وہ امریکی فوجی اڈوں کو نشانہ بنائیں گے۔ صورتحال کو دیکھتے ہوئے برطانیہ نے کئی اضافی لڑاکا طیارے مشرق وسطیٰ بھیج دیئے جبکہ ترکیہ اور اردن نے امریکا سے مطالبہ کیا ہے کہ صیہونی ریاست کو کشیدگی بڑھانے سے روکا جائے۔ اسرائیل ایران کشیدگی پر سلامتی کونسل کے اجلاس میں اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے کہا کہ کشیدگی ختم کی جائے۔ مشرق وسطیٰ تباہی کے دہانے پر ہے۔ جاپان اور جرمنی نے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ حملے سے خطے میں کشیدگی بڑھے گی۔ دوسرے روز جب یہ گمان کیا جا رہا تھا کہ امریکا اس حوالے سے کوئی بڑا فیصلہ کرے گا اور خطے میں صورتحال مزید کشیدہ ہوجائیگی امریکی صدر جوبائیڈن کی جانب سے اسرائیلی وزیراعظم نتن یاہو کو آگاہ کیا گیا کہ وہ ایران کیخلاف جوابی کارروائی میں حصہ نہیں لیں گے، امریکی قومی سلامتی کے مشیر جان کربی نے بھی کہا ہے کہ وہ ایران کے ساتھ جنگ نہیں چاہتے تاہم وہ دفاع کیلئے تیار
ہیں، اسرائیل کے سابق سفارتکار ایلون لائل نے کہا ہے کہ اگر اسرائیلی فوج نے موجودہ صورتحال میں رفح پر حملہ کیا تو سارا معاملہ دوبارہ شروع ہوجائے گا اور صورتحال مزید پیچیدہ ہو جائے گی۔ ’’میرے خیال میں ہمیں یرغمالیوں کو واپس لانا چاہئے اور ہمیں غزہ پر جنگ ختم کرنی چاہئے۔ اسرائیل کے لئے امریکی حمایت کے بغیر ایسا کرنا بہت مشکل ہے۔ امریکیوں کے ساتھ مکمل ہم آہنگی کے بغیر اب ہم کوئی بڑا فوجی اقدام کرنے کا تصور بھی نہیں کر سکتے ۔ لیکن وہ ایک مربوط طریقے سے، رفح کے شہریوں کو وہاں سے نکالنے کے ساتھ نیچے جانے کی منظوری دے سکتے ہیں۔ برطانوی نیوز ایجنسی کا کہنا ہے کہ ایران نے حملے سے قبل امریکا اور پڑوسی ممالک کو آگاہ کر دیا تھا ، ترکیہ، عراق اور اردن نے بھی تصدیق کی ہے کہ ایران نے ان کے ذریعے سے امریکا کو آگاہ کر دیا تھا ، ذرائع کے مطابق واشنگٹن نے ترکیہ سے کہا تھا کہ ایرانی حملے مخصوص حدود میں رک جانے چاہئیں، امریکی صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ کے ایک سینئر اہلکار نے امیر عبداللہیان کے بیان کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ واشنگٹن نے سوئس ثالثوں کے ذریعے ایران سے رابطہ کیا تھا لیکن اسے حملے سے قبل 72 گھنٹے کا نوٹس نہیں ملا۔ ایرانی وزیر خارجہ حسین عبداللہیان نے اپنے ترک ہم منصب حاقان فدان سے ٹیلی فونک گفتگو میں بتایا کہ ایران اس وقت تک کوئی نیا حملہ نہیں کرے گا جب تک کہ اس پر کوئی حملہ نہ کرے۔ فدان کا اس موقع پر کہنا تھا کہ ترکیہ بھی چاہتا ہے کہ خطے میں کشیدگی مزید نہ بڑھے۔ اسرائیل کی جنگی کابینہ کا ایران کے اس براہِ راست حملے کو جواب کے بغیر چھوڑنے کا امکان کم ہی نظر آتا ہے۔ اسرائیل طویل فاصلے تک مار کرنے والے میزائل حملوں کا ایک سلسلہ شروع کر سکتا ہے، جس میں صرف ان میزائل اڈوں کو نشانہ بنایا جا سکتا ہے جہاں سے ایران نے گزشتہ رات حملہ کیا تھا یا اسرائیل اس کشیدگی کو مزید بڑھاوا دیتے ہوئے ایران کے طاقتور فوجی دستے پاسداران انقلاب سے تعلق رکھنے والے اڈوں، تربیتی کیمپوں اور کمانڈ اینڈ کنٹرول سینٹرز کو اپنے ممکنہ ردعمل کے لئے نشانہ بنا سکتا ہے۔ دونوں آپشنز میں سے کسی ایک پر بھی ایران کی طرف سے مزید جوابی کارروائی کا خطرہ ہے۔ یہاں اہم سوال یہ ہے کہ کیا یہ سب کچھ امریکہ کو اس جنگ میں گھسیٹے گا، جس کے نتیجے میں خطے میں ایران اور امریکی افواج کے درمیان باضابطہ طور پر ایک جنگ چھڑ جائے۔ امریکہ کی تمام چھ خلیجی عرب ریاستوں کے علاوہ شام، عراق اور اردن میں فوجی تنصیبات ہیں۔ دیکھا جائے تو خطے میں جاری کشیدگی کی اصل وجہ غزہ تنازع ہے، غزہ میں فوری طور پر جنگ بندی اور انسانی امداد کی فراہمی یقینی بنائی جائے، امریکا اور دیگر ممالک اسرائیل کو کشیدگی مزید بڑھانے سے روکیں۔ کشیدگی کو مزید ہوا دی تو تنازع پورے خطے میں پھیل جائے گا۔ امریکا بلاک اور روسی بلاک بھی اس جنگ میں آمنے سامنے آسکتے ہیں جس کی وجہ سے دنیا تیسری عالمی جنگ کی جانب بڑھتی ہوئی نظر آرہی ہے۔ غزہ کی صورت حال پر اقوام متحدہ نے بتایا ہے کہ غزہ کی تقریباً تمام آبادی (23لاکھ سے زیادہ لوگ) بے گھر ہو چکی ہے اور انھیں مناسب پناہ گاہوں، خوراک، طبی امداد، صاف پانی اور تعلیم تک رسائی نہیں ہے ۔ 7 اکتوبر کو حماس کے اسرائیل پر حملے کے بعد شروع ہونے والی اس لڑائی میں 33000 سے زیادہ فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں۔ حماس کے حملے میں 1200 اسرائیلی ہلاک اور 250 کے قریب یرغمال بنائے گئے۔ ان میں سے تقریباً 130 لاپتہ ہیں۔ اقوام متحدہ کے مطابق غزہ میں اسپتالوں کا نظام تباہی کا شکار ہے اور وسائل کی شدید کمی ہے۔ اقوام متحدہ نے خبردار کیا ہے کہ شمالی غزہ میں قحط آنے والا ہے۔ امدادی تنظیموں کا کہنا ہے کہ انھیں شہریوں تک رسائی نہیں مل رہی۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق اکتوبر سے اب تک کم از کم 27 بچے غذائی قلت کی وجہ سے ہلاک ہوئے۔ غزہ کی صورتحال یقیناَ خراب سے خراب تر ہوتی جارہی ہے اور اسرائیل حماس معاملے کا کوئی حل نہیں نکالا گیا تو جلد یا کچھ عرصے کے بعد یہ خطہ میدان جنگ ہوگا اور خطے کا ہر ملک اس سے متاثر ہوگا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button