Abdul Hanan Raja.Column

ماتم نہیں رٹ قائم کیجیے

تحریر: عبد الحنان راجہ
آئین و قانون کی کمزور ہوتی رٹ، ناانصافی کا بڑھتا ماحول اور نااہل حکومتوں نے معاشرے کے طاقتور طبقات، سیاسی ہوں یا مذہبی، کو شر پسندی، دھنگا فساد اور ریاستی رٹ کو چیلنج کرنے کا جواز اور حوصلہ فراہم کر رکھا ہے۔ ہر بڑے حادثہ کے بعد حکومتی رٹ ایسے غائب ہوتی رہی اور ہوتی ہے جیسے خوامخواہ بدنام گدھے کے سر سے سینگ، بہاولنگر کے واقعہ نے قانون کی حکمرانی کی قلعی کھول دی اور تجربہ کاروں نے اس پر چپ سادھنے اور ڈھیلا ڈھالا کمیشن کہ جس کی رپورٹ ماضی کی طرح ذہن قبول نہ کریں گے، بنا کر اپنی راہ لی۔ محترمہ بے نظیر کی شہادت کے موقع پر دو روز تک ملک پر عملاً جیالوں کا راج رہا اور ریاستی رٹ کی دھجیاں اڑائی جاتی رہیں۔ اس وقت بھی ریاست غائب پائی گئی ۔ یورپی ممالک کی جانب سے شعائر اسلام کی بے حرمتی کے متعدد مواقع پر ہونے والے پرتشدد واقعات پر ریاستی رٹ!! !! مظاہرین کے مقاصد کچھ بھی رہے ہوں مگر ان طبقات نے پرتشدد مظاہرے کر کے ریاست پر اپنی اہمیت واضح کرنے کا موقع ضائع نہیں ہونے دیا کہ ریاست ایسوں کے ساتھ ہی مذاکرات و معاملات طے اور وقت آنے پر انہیں بروئے کار بھی لاتی ہے۔ پی ٹی آئی حکومت کے خلاف بھی ایک مذہبی جماعت کو پرتشدد مظاہروں پر اکسانے کی کوششیں اب صیغہ راز نہیں رہیں۔ کراچی میں منظم دنگا فساد ہر حکومت کا حصہ رہنے والی لسانی جماعت کے ذمہ رہے اور بدلے میں انہیں ان کی ’’خدمات‘‘ کے حساب سے ہر حکومت میں حصہ بھی ملتا رہا۔ پی ٹی آئی چیئرمین کی گرفتاری کے خدشہ پر اس جماعت کے کارکنان نے دارالحکومت میں جو کچھ کیا وہ بھی تاریخ کا حصہ۔ علاوہ ازیں ان جیسے متعدد واقعات میں سینکڑوں افراد زندگی کی بازی ہارے، اربوں کی سرکاری و نجی املاک تباہ ہوئیں، کئی ایک عمر بھر کے لئے معذور ہوئے، مگر ریاست نے جاگنا تھا نہ جاگی۔ کہ حکمرانوں کی ترجیح کبھی بھی قانون و آئین کی بالا دستی رہی اور نہ عوام کی جان و ریاستی املاک کا تحفظ ان کے پیش نظر، گنتی کے چند غیر مہذب، اور پس ماندہ ترین ممالک کے علاوہ اتنی لاقانونیت کسی معاشرے میں نہیں۔ اب بہاولنگر کے حالیہ واقعہ کو مخالف سیاسی عناصر کے ایما پر سانحہ کا رنگ دینے کی کوشش اور اسے اپنے حق میں استعمال، اور اداروں کی جگ ہنسائی کا موقع ضائع نہیں ہونے دیا گیا۔ اس سے قبل بھی کئی بار بالخصوص لسبیلہ کے شہدا بارے بھی انتہائی غلیظ اور لغو پراپیگنڈہ کیا گیا۔ اس وقت بھی ادارے حرکت میں آئے اور نہ شاید اب آئیں۔ اگر کچھ ہوا بھی تو محض خانہ پری اور میڈیا کے ذریعے ہلکی پھلکی دھمکی کی حد تک۔ اگر قانون نافذ کرنے والے اداروں نے اپنی ذمہ داری ادا کی ہوتی تو نہ 9 مئی ہوتا اور نہ کسی کو اس سے قبل اور بعد ایسے واقعات برپا کرنے کی جرات اور نہ سوشل میڈیا پر اتنی بد تہذیبی اور جھوٹ۔ ہمارے جیسی کمزور جمہوری روایات کے حامل ملک کہ جہاں ریاست اور قومی وقار کبھی مقدم نہیں رہے بلکہ قیادت ہی محترم و مقدس اور ریڈ لائن، وہاں ایسے پرتشدد واقعات کا ہونا اچنبھا نہیں۔ مگر سوال یہ ہے کہ ریاست اور قانون نافذ کرنے والے ادارے ہر بار ایسے مواقع پر خود کو لا تعلق کیوں کر لیتے ہیں۔؟ ریاستی رٹ کو ہر بار چیلنج کرنے کا جواز کیوں فراہم کیا جاتا ہے۔؟ اور عدلیہ ایسے واقعات پر فوری انصاف سے پہلو تہی کیوں برتتی ہے۔؟ اس ضمن میں کچھ عرصہ قبل برطانیہ میں ہونے والے پرتشدد واقعات میں ملوٹ افراد کو چند یوم میں ہی کیفر کردار تک پہنچانے کے عمل سے سبق کیوں نہیں لیا جاتا۔؟ یہ سوال اب ہر شہری پوچھنے میں حق بجانب کہ کیا قانون کی حکمرانی معاشرے کے کمزور طبقات اور اپنے حقوق مانگتے شہریوں پر ہی ہوتی ہے۔؟ اس کا جواب قانون ساز اسمبلی کے معزز ممبران ہی دے سکتے ہیں، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ
آئین، قانون (جو رائج نہیں) اور پولیس کا زور ہمیشہ کمزوروں پر ہی چلا۔ یاد رکھیے کہ قانون کے عدم اطلاق، مصلحت اور پسند و ناپسند بر مبنی فیصلے ریاست کو کمزور اور رٹ کو ختم کرتے ہیں۔ اس سے نہ صرف ان اداروں کا وقار مجروح بلکہ سیاسی و مذہبی انتہا پسندوں کو کھل کر پرتشدد احتجاج اور توڑ پھوڑ کا جواز ملتا ہے۔ اس سے انکار ممکن نہیں کہ قانون کی حکمرانی ملک اور قوم کے بہترین مستقبل کے لیے آکسیجن اور ترقی و استحکام کے لیے ضروری، وگرنہ بیرونی دورے، سرمایہ کاری کے لیے بڑی بڑی کانفرنسیں، بڑی بڑی دعوتیں، بلند و بانگ دعوے اور نعرے اچھل کود کے سوا کچھ بھی نہیں کہ سرمایہ کار عوام دوست اور سرمایہ کاری کے لیے ساز گار ماحول چاہتے ہیں۔ انتہا پسند رویوں اور قانون شکن معاشروں میں سرمایہ کار آتے ہیں اور نہ سرمایہ کاری۔ یہ بات سیاسی کارکنان بالخصوص نوجوان نسل کے پیش نظر رہنی چاہیے کہ موجودہ طرز سیاست و حکومت بشمول رائج جمہوری نظام اپنی مدت پوری کر چکا ہے اس نظام میں رہ کر جد و جہد خود سے دھوکہ اور سیاسی مجبوری تو ہو سکتی ہے تبدیلی یا انقلاب نہیں۔ سیاست دان بے چارے عوام سے ہر چند سال بعد الیکشن الیکشن کھیلتے ہیں۔ ان انتخابات کی کوکھ سے کیا نکلتا ہے، دھاندلی اور احتجاج۔ بے چارے کارکن پھر سال ہا سال نام نہاد سیاسی قائدین کی محبت میں دھاندلی، مہنگائی اور ناانصافی کا رونا روتے اور اپنی باری کا انتظار کرتے ہیں، جبکہ حقیقت تو یہ ہے کہ ہر دور میں یہ سرزمین بے آئین، منشیات فروشوں، قاتلوں، بھتہ خوروں، بدمعاشوں، بدقماشوں، بدعنوانوں کے لیے جنت رہی اور یہاں جھوٹ بولنے، پھیلانے، نفرت، تعصب، بہتان تراشی اور ملکی وقار کے استہزا کی کھلی چھٹی۔ طاقتور کل بھی آئین و قانون سے ماورا تھے اور آج بھی ہیں جسے ہم اپنے مردہ ضمیر اور کھلی آنکھوں سے دیکھتے ہیں۔ ریاست ان کو قابو میں لانا بھی نہیں چاہتی اور لا بھی نہیں پاتی۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ حکومت ماتم نہیں رٹ قائم کرتی ہے اگر اہل اور دیانت دار ہو۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button