Columnمحمد مبشر انوار

آخر کار جنگ بندی ہو گئی!!!

محمد مبشر انوار
تقریبا 32333نہتے مظلوموں کو شہید کروانے کے بعد،بایڈن انتظامیہ کو گھٹنے ٹیکنے پڑے ہیں اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں گزشتہ چھ ماہ سے جاری قتل عام کے خلاف جنگ بندی کی قرارداد،بغیر امریکی ویٹو کے منظور ہو کئی ہے لیکن کیا اس قرارداد کا منظور ہونا کافی ہے؟اصل مسئلہ تو غزہ میں جاری قتل عام کو رکوانے کا ہے کہ اسرائیلی درندگی فی الفور غزہ میں رک جائے کہ اس پر دنیا بھر کے لوگ جس طرح مظاہرے کرتے رہے ہیں اور جیسے جیسے نعرے ان مظاہروں میں سامنے آئے ہیں،وہ دل دہلا دینے والے ہیں۔ مثال کے طور پر بچوں کے حوالے سے یہ نعرہ انتہائی زیادہ جھنجھوڑ دینے والا ہے کہ بچے سو رہے ہوں تو شور نہیں مچانا چاہئے لیکن اگر مر رہے ہوں تو خاموشی جرم ہےاس حقیقت میں کوئی کلام نہیں کہ اسرائیل نے درندگی کی جو مثال اپنے معرض وجود میں آتے ہی قائم کی ہی،حالیہ درندگی تو ممکنہ طور پر نسل انسانی کی تاریخ میں نہیں مل سکتی کہ ماضی میں تو عالمی سطح پر ایسی تنظیموں کا وجود ہی نہیں تھا کہ جو ایسی درندگی کے خلاف بروئے کار آتی جبکہ حالیہ دور انسانی تو بزعم خود مہذب کہلاتی ہے جہاں جانوروں کے حقوق کی تنظیمیں بروئے کار ہیں لیکن غزہ میں ہونے والی نسل کشی پر انسانی حقوق کی تنظیمیں کماحقہ اپنا کردار اداکرنے سے قاصر رہی ہیں۔تاہم یہ انسانی حقوق کی تنظیموں اور عام عوام کی کوششیں ہی ہیں کہ جن کے باعث امریکی سرکار کو موجودہ قرارداد کو ویٹو کرنے کی جرآت نہیں ہو ئی گو کہ اس کو ملتوی کرنے کے تمام تر حربے امریکہ استعمال کر چکا تھا اور اب امریکہ کے لئے بھی اس قرارداد کو ویٹو کرنا ممکن نہیں رہا تھا ۔اسرائیلی درندگی اور جنگی جرائم میں بہرطور امریکی سہولت کاری سے کسی طور صرف نظر نہیں کیا جا سکتا اور اگر کبھی کسی بھی عالمی فورم پر،عالمی عدالت انصاف،غزہ میں ہونے والی نسل کشی و جنگی جرائم پر بلاامتیاز کارروائی ہوتی ہے تو امریکہ کو کسی بھی طور بری الذمہ قرارنہیں دیا جا سکے گا البتہ یہ حقیقت بھی اپنی جگہ مسلمہ ہے کہ موجودہ صورت حال میں ایسی جرآت کی توقع عالمی عدالت انصاف سے بھی نہیں ۔
اسرائیلی درندگی میں صرف انسانی جانیں ہی دنیا سے نہیں گئی بلکہ غزہ کا تمام تر انفراسٹرکچر بھی زمین بوس ہو چکا ہے، اس چھوٹے سے علاقے میں جہاں بیس لاکھ کے قریب انسان قیام پذیر ہیں،ان کی رہائش کو زمین بوس کر دیا گیا ہے، یہاں قائم سکول ،ہسپتال اور مساجد کو ملیا میٹ کر دیا گیا ہے،جس کی تعمیر نو کے لئے ایک وقت درکار ہو گا۔گو کہ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل رفح میں امدادی سامان لئے منتظر ہیں کہ کب جنگ بندی ہو اوروہ غزہ کے مظلوموںکے لئے امدادی سرگرمیاں شروع کر سکیں تاہم اہم ترین سوال وہی ہے کہ کیا اس جنگ بندی کے باوجود اسرائیلی وزیراعظم نتین یاہواپنی ضد،ہٹ دھرمی اور انا سے پیچھے ہٹ کر ،غزہ کی تباہ حالی کا تعمیر پر آمادہ ہو جائیں گے؟نیتن یاہو اور ان کے رفقاء نے یہ تباہی اس لئے تو نہیں کی اور نہ ہی غزہ کی تعمیر نو ان کے مقاصد میں کہیں شامل ہیں کہ جنگ بندی کے بعد یہاں فوری اور انتہائی تیزی کے ساتھ یہاں زندگی کو ازسر نو تعمیر کیا جائے اور بعد ازاں نیتن یاہو اور ان کے ہمنوائوں کو نئے سرے سے اپنے وسائل اس تعمیر کو تباہ کرنا پڑے کہ حالیہ درندگی میں ہی اسرائیل کی معیشت بہت حد تک برباد ہو چکی ہے۔ اسرائیل مصنوعات کا بائیکاٹ صرف اسلامی ممالک میں ہی نہیں بلکہ کئی غیر اسلامی ممالک میں بھی دیکھا گیا ہے اور اسرائیل کو ایک ظالم ریاست کے طور پر دیکھا گیا ہے۔اسرائیل کا اپنا روایتی موقف کہ وہ نہتے،چھوٹے چھوٹے پتھروں سے اسرائیلی جارحیت کا مقابلہ کرتے ہوئے فلسطینیوں کے خلاف حق دفاع استعمال کرتے ہوئے ،فلسطینیوں کا قتل عام کرتی رہی ہے۔حالیہ جارحیت نے اسرائیل کے اس جھوٹے پراپیگنڈے کی قلعی سرعام کھول کر رکھ دی ہے اور دنیا یہ کہنے میں حق بجانب دکھائی دے رہی ہے کہ دہشت گردوں کی تعریف کرتے ہوئے ماضی میں جب عالمی طاقتیں،مسلم حریت پسندوں کو دہشت گرد قرار دیتی رہی ہیں،آج ساری دنیااس جھوٹ کو بے نقاب ہوتا دیکھ رہی ہے اور انسانیت کے اصل دشمن چہروں کا نظارہ کر رہی ہے۔ ان انسانیت دشمن چہروں میں سرفہرست اسرائیلی سیاسی و عسکری قیادت ہے تو اس کے بعد وہ تمام ممالک اور ان سیاسی قیادت ہے کہ جنہوں نے ریاستی مفادات کے زیر اثر،اسرائیلی موقف کی آنکھیں بند کر کے حمایت کی ہے، وہ خواہ امریکہ ہو یا برطانیہ یا کوئی اور خود ساختہ مہذب ملک اور جمہوری ریاست،ان سب کے چہروں سے نقاب اتر چکے ہیں۔حد تو یہ ہے کہ ایک وقت تھا جب اسرائیلی مظالم کے خلاف کی گئی سوشل میڈیا پر کوئی بھی پوسٹ بلاجواز اور انتباہ،سوشل میڈیا کی انتظامیہ کی جانب سے ہٹا دی جاتی تھی لیکن اب ساری دنیا اسرائیل کے چہرے سے نقاب نوچ کر اسے ایک ظالم ریاست کے طور پر ،سوشل میڈیا کی زینت بنا رہی ہے لیکن سوشل میڈیا کی انتظامیہ بھی اس حقیقت سے انکار کرنے سے قاصر دکھائی دے رہی ہے اور ایسی پوسٹ کو ہٹانے کی بجائے خاموش نظر آ رہی ہے۔یہ تبدیلی بذات خوداتنی بڑی تبدیلی ہے کہ جس کے متعلق چند ماہ پہلے تک سوچا بھی نہیں جا سکتا تھا اور سوشل میڈیا استعمال کرنے والے ایسی کسی بھی پوسٹ کو شیئر کرنے کا خمیازہ اپنے اکائونٹ کی معطلی کی صورت برداشت کرتے دکھائی دیتے تھے،جس کا سامنا کم از کم اس وقت سوشل میڈیا کو فی الوقت دکھائی نہیں دیتا۔
غزہ کے متاثرین نے اس دوران کس قدر بربریت کا سامنا کیا ہے اور کس قدر ثابت قدم رہے ہیں ،اس پر ان کی ستائش کے لئے الفاظ ہی میسر نہیں کہ دنیا میں تقریبا دو ارب کس مسلم آبادی،ستاون اسلامی ممالک اور ان کی افواج،ان کی پشت پناہی کرنے سے قاصر دکھائی دی۔البتہ سفارتی سطح پر مسلم ممالک اپنی بھرپور کوششیں کرتے دکھائی دیتے رہے جو بہر طور کسی بھی طور امت مسلمہ کے شایان شان نہیں تھاکہ امت مسلمہ کا ماضی تو کسی غیر مسلم کے خلاف بربریت پر میدان میں دکھائی دینے کا تھا لیکن یہاں تو ان کے اپنے مسلم بھائی بہن تہ تیغ ہو رہے تھے مگر ستاون ممالک کی اسلامی افواج کہیں نظر نہیں آئی۔جس پر غزہ کے مسلمانوں نے جو نوحے کہے،انہیں سن کر انسان کانپ جاتا ہے لیکن افسوس اس امر کا ہے کہ انفرادی طور پر ہم بذات خود جس قدر مکلف ہیں،اس کی کاوش کرنے کی کوشش ضرور کی ہے،دل سے دعا رہی کہ اللہ کریم غزہ کے مسلمانوں کی مشکلیں آسان کرے۔اسرائیل کے ماضی کو دیکھا جائے ،اس کے مستقبل کے مقاصد کو سامنے رکھا جائے تو اسرائیل سے یہ توقع عبث ہے کہ وہ چین سے بیٹھ جائے اولا تو جنگ بندی کی قرارداد پر عمل درآمد ہونا بذات خود ایک مشکل امر دکھائی دے رہا ہے اور اگر اس پر عملدرآمد ہو جاتا ہے تو اس کی کیا ضمانت ہے کہ اسرائیل اس جنگ بندی کو مستقلا قائم رکھے گا؟یہ وہ سوال ہے جو ہر ذی شعور کے ذہن میں کلبلا رہا ہے کہ جنگ بندی کی اس قرارداد کو روبہ عمل لانے کے لئے اقوام متحدہ کیا لائحہ عمل اختیار کرے گا؟کیا یہاں اقوام متحدہ کی فوج تعینات کی جائیگی یا اسلامی ممالک کی فوج کو یہاں تعینات کیا جائے گا؟کیا اسرائیل اس انتظام کو قبول کرے گا؟بالفرض اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد پر عملدرآمد کروانے کے لئے ایسے انتظامات کر دئیے جاتے ہیں اور اسرائیل اپنے مستقبل مقاصد کے لئے کچھ عرصہ بعد دوبارہ غزہ پر جارحیت کر دیتا ہے تو کیا ہوگا؟ اسرائیلی ریاست تو کسی بھی قانون کو ماننے سے انکاری نظر آتی ہے وگرنہ اس کی اپنی حیثیت پر ایک سوالیہ نشان کھڑا ہوتا ہے کہ اسرائیل بذات خود ایک ناجائز ریاست کے طور پر مشرق وسطی میں خنجر کی طرح پیوست ہے اور خطے کے امن و امان کے لئے ایک مستقل خطرہ اور دھمکی ہے۔بہرکیف اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی طرف سے قرارداد منظور ہونے کے بعد،اسرائیل اس و قت عالمی سطح پر تنہا دکھائی دے رہا ہے اور مستقبل میں امریکہ کس حد تک اپنے اس موقف پر قائم رہتا ہے یا مجوزہ انتخابات کے بعد ،متوقع طور پر ٹرمپ کی کامیابی کے بعد ابراہیم اکارڈ؍ڈیل آف دی سنچری، دوبارہ روبہ عمل نظر آئے گی اور کیا ابراہیم اکارڈ،واقعتا خطے میں امن و امان کی ضامن ہو سکے گی یا کیا اسلامی ممالک اس ابراہیم اکارڈ کو تسلیم کریں گی کہ اب تک پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی گزر چکا ہے۔ آنے والے دنوں میں دیکھتے ہیں کہ یہ جنگ بندی کس حد تک اسرائیلی جارحیت کو نکیل ڈال پاتی ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button