ColumnImtiaz Aasi

منصفوں کی نالش اور چیف جسٹس کا امتحان

امتیاز عاصی
مہذب معاشروں میں قانون اور انصاف کی بالادستی میں عدلیہ اہم کردار ادا کرتی ہے۔جن قوموں میں انصاف ناپید ہو ایسی قومیں صحفہ ہستی سے مٹ جاتی ہیں۔قرون اولی کے دور میں طاقت ورجرم کرنے کے باوجود سزائوں سے بچ جاتے تھے کوئی چھوٹا جرم کرتا تو اسے سزا دے دی جاتی تھی۔رسالت مآب ٔ نے ریاست مدینہ کی بنیاد رکھی تو جرم کرنے والوں کو بلاامتیاز سزائیں دی جاتیں یہاں تک ایک موقع پر نبی کریمؐ نے فرمایا اگر ان کی بیٹی فاطمہ ؓ چوری کرتی تو اس کے ہاتھ کاٹ دیئے جاتے۔ پیغمبر اسلامؐ کی تبلیغ نے بنی نوع انسانیت کو جہالت کے گھوپ اندھیروں سے روشنی دکھائی جس کے نتیجہ میں اسلامی ریاست میں رہنے والوں کو بلاتفریق انصاف کی فراہمی کو یقینی بنایا گیا۔در اصل قیام پاکستان کا مقصد برصغیر کے مسلمانوں کو ایک اسلامی معاشرے کی فراہمی اور امیر وغریب کی تمیز کئے بغیر انصاف یقینی بنانا تھابدقسمتی سے وطن عزیزکے معرض وجود میں آنے کے چند سال بعد ہمارا ملک بگاڑ کا شکار ہو گیاعدلیہ سے من مانے فیصلے کرانے کا ایسا رواج فروغ پا یاجو ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا ہے۔مملکت خداداد آج جن مصائب کا شکار ہے اس کی بنیادی وجہ عدل وانصاف کا فقدان ہے۔1985ء کے بعد کے عرصہ پر نظر ڈالیں تو یہ حقیقت آشکار ہوتی ہے طاقت ور جرم کرنے کے باوجود سزائوں سے بچے رہے ۔احتساب کے نام پر کئی ادارے قائم کئے گئے جن کا مقصد ملک سے بدعنوانی کا خاتمہ تھا مگر مملکت سے مبینہ کرپشن کا خاتمہ خواب بن کر رہ گیا ۔گزشتہ چند سال پر نظر دوڑائیں تو بہت سے منصف بعض حلقوں کی جانب سے دبائو کے باعث اپنے عہدوں سے مستعفی ہو گئے جو اپنے عہدوں پر بیٹھے ہیں وہ کسی نہ کسی طور پر دبائو کا شکار ہیں۔ملکی تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے اسلام آباد ہائی کورٹ کے چھ جج صاحبان نے بعض حلقوں کی جانب سے من پسند فیصلوں کے لئے دبائو ڈالنے کی نالش سپریم جوڈیشل کونسل کو کی ہے جو چیف جسٹس آف پاکستان کے لئے کسی امتحان سے کم نہیں۔اس سے قبل یہی چھ جج صاحبان سابق چیف جسٹس آف پاکستان جناب عمر عطاء بندیال سے ملے تھے لیکن ان کی داد رسی نہ ہوسکی چیف جسٹس صاحب مدت ملازمت پوری کرنے کے بعد اپنے منصب سے سبکدوش ہو گئے۔اس ناچیز کے خیال میں عدلیہ کے لئے عوام کا اعتماد بحال کرنے کا اس سے اچھا اور کوئی موقع نہیں ۔تازہ ترین صورت حال میں ایک صوبے کی ہائی کورٹ میں ان دنوں جس طرح کے فیصلے آرہے ہیں عدلیہ کی تاریخ میں ایسا کوئی موڑ نہیں آیا ہوگا کہ حقائق کے برعکس فیصلے آتے ہوں۔اصولی طور پر دیکھا جائے تو جب یہ معاملہ سابق چیف جسٹس صاحب کے علم میں لایا گیا تھا انہیں بلاتاخیر کارروائی کرنی چاہیے تھی تاکہ جج صاحبان بلا خوف وخطر عوام کو انصاف کی فراہمی کو یقینی بناتے بدقسمتی سے جج صاحبان کی شکایت پر کارروائی نہیں ہو سکی اور معاملہ وہیں کا وہیں پڑا رہا۔اسلام آباد ہائی کورٹ کے انہی چھ جج صاحبان نے ازسر نو اپنی نالش موجودہ چیف جسٹس صاحب کے سامنے رکھی ہے جو موجودہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ صاحب کے لئے کسی امتحان سے کم نہیں۔چیف جسٹس آف پاکستان کے نام درخواست پر جسٹس میاں گل حسن اورنگ زیب، جسٹس بابر ستار، جسٹس اربا ب محمد طاہر،جسٹس طارق محمود جہانگیری، جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان اور جسٹس ثمن رفعت طاہر کے دستخط ہیں جس میں چیف جسٹس آف پاکستان سے اس معاملے کی چھان بین کے لئے فل کورٹ بینچ بنانے کی استدعا کی گئی ہے۔اس وقت ہمارا ملک جہاں معاشی مشکلات سے دوچار ہے وہاں عدلیہ کے آزاد نہ ہونے سے عوام کو فراہمی انصاف خواب بند گئی ہے۔عام طور پر کہا جاتا ہے جنرل پرویز مشرف کے دور میں جج صاحبان کو یرغمال بنایاگیا اور انہیں اپنے عہدوں سے مستعفی ہونے کے لئے دبائو ڈالا گیا تو وکلا برادری کے ساتھ عوامی حلقوں نے سخت ردعمل ظاہر کرکے حکومت کو جج صاحبان کو ان کے عہدوںپر بحال کرنے پر مجبور کر دیا تھا۔حقیقت میں دیکھا جائے تو ماتحت عدالتوں سے اعلیٰ عدلیہ تک جج صاحبان کو کسی نہ کسی حوالے سے دبائو کا سامنا ہے جو حصول انصاف کی فراہمی میں بڑی رکاوٹ ہے ۔اس وقت ملک کا کوئی شعبہ ایسا نہیں جو مبینہ کرپشن سے پاک ہو اگر کرپشن میں ملوث افراد کو بروقت سزائوں کو یقینی بنایا جاتا تو ملک کی یہ حالت نہ ہوتی ۔عدالتی نظام میںبعض حلقوں کی جانب سے بے جا مداخلت نے نظام عدل کا شیرازہ بکھیر دیا ہے۔اگرچہ سیاسی حلقوں کی جانب سے بارہا کہا جاتا ہے ہماری عدلیہ آزاد ہے درحقیقت عدالتیں بعض حلقوں کے گرادب میں ہیں جس کی وجہ سے اعلیٰ عدالتوں میں بے شمار مقدمات زیر التواء ہیں ۔حال ہی میں سپریم کورٹ نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے سابق جج شوکت صدیقی کو بار سے خطاب کے دوران بعض حلقوں کی جانب سے دبائو ڈالنے کے خلاف آواز بلند کرنے پر اس وقت کی حکومت کی طرف سے سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس بھیجنے کے بعدانہیں ملازمت سے علیحدہ دیا گیا تھا جس کے خلاف سابق جج نے سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی جو عرصہ دراز تک زیر التواء رہنے کے بعد چند روز قبل منظور کر لی گئی۔درحقیقت اس وقت ہمارا عدالتی نظام انحطاط کا شکار ہے بعض حلقوں اور سیاست دانوں کی طرف سے اعلیٰ عدالیہ سے من مانے فیصلوں کے رواج نے کاروبار زندگی کو مفلوج کر دیا ہے۔ہمیں عدلیہ کی آزادی کی جو اس وقت ضرورت ہے پہلے کبھی نہیں تھی ۔وکلابرادری اور ملک کے تمام حلقوں کو عدلیہ کی آزادی کے لئے جج صاحبان کی پشت پر کھڑا ہونے کی اشد ضرورت ہے ۔آزاد عدلیہ ہی مضبوط معاشرے کی تشکیل میں اہم کردار ادا کر سکتی ہے لہذا ضرورت اس امر کی ہے عدالتوں کو بلاخوف وخطر میرٹ پر فیصلے کرنے دینے چاہیں ۔جو حلقے جج صاحبان پر دبائو ڈال کر من پسند فیصلوں کے خواہاں ہیں انہیں ملک وقوم کی خاطر اپنا رویہ تبدیل کرتے ہوئے اپنے دائرہ کار میںرہ کر اپنے فرائض کی انجام دہی کرنی چاہیے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button