Column

آہ کہ اب وہ نگاہ ہائے سایہ شجر نہیں رہیں

قاضی سمیع اللہ
شاعر منور رانا نے کہا تھا
گھیرنے کو مجھے جب بھی بلائیں آ گئیں
ڈھال بن کر سامنے ماں کی دعائیں آ گئیں
لیکن میں اب اس ڈھال اور دعائوں سے محروم ہو چکا ہوں۔ 18اور 19جنوری 2024ء کی درمیانی شب میری والدہ ماجدہ دنیائے فانی سے رخصت ہو گئیں۔ بلا شبہ ہم سب کو اک دن مٹ جانا ہے، جس مٹی سے ہم تخلیق ہوئے و ہی ہمیں نگل بھی جائے گی۔ میں سفر میں تھا کہ مجھے اپنی ماں کے بہت زیادہ بیمار ہونے کی خبر ملی وہ علاج کے لیے اسپتال لائیں جا چکی تھیں۔ اس دوران میں اپنے بھائیوں اور ڈاکٹروں سے رابطے میں رہا لیکن جب ڈاکٹر نے یہ کہا کہ آپ بس آنے والے بنے ماں جی کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے، یہ سننا تھا کہ میں اپنے آبائی شہر نواب شاہ کی طرف ہو لیا لیکن جب میں اسپتال پہنچا تو مجھے بڑے برادر مبین بھائی کی کال آئی کہ ’’ یار امی تو گزر گئی‘‘ ۔
یہ میری زندگی کی سب سے بڑی بدنصیبی ہے کہ میں اسپتال پہنچ کر بھی اپنی والدہ ماجدہ سے آخری ملاقات نہیں کر پایا، یقیناً ماں کی آنکھیں مجھے تک رہی ہوں گی یہی وجہ ہے کہ ان کی آنکھوں کو آخری بار میرے ہی ہاتھوں سے بند ہونا لکھا تھا۔ اپنی ماں سے آخری وقت میں ملاقات نہ کرنے کا غم کیا ہو سکتا ہے یہ تو وہی جانتا جس پر یہ بیتی ہوتی ہے اور پوری زندگی اس کسک کے ساتھ جینے پر مجبور ٹھہرتا ہے۔ بس میں اتنا جانتا ہوں کہ میں اپنی ماں کا ایک ’’ رائیگاں بیٹا‘‘ ہوں جو ان سے زندگی بھر دور رہا اور ان کی امیدوں پر پورا نہیں اتر پایا۔
معاملہ کچھ یوں ہے کہ ماں کو مجھ سے یہ امید تھی کہ میں پی ایچ ڈی (PHD)کروں اور یہ کہ میں کوئی کتاب بھی لکھوں۔ جہاں تک پی ایچ ڈی کا تعلق ہے تو میں نے اپنی محبوب ترین استاد پروفیسر ڈاکٹر عطیہ خلیل عرب کی زیر نگرانی پی ایچ ڈی کے لیے موضوع کا انتخاب بھی کر لیا تھا اور اس پر تحقیقی کام بھی شروع کر دیا تھا لیکن کچھ مسائل ایسے سامنے آئے کہ میں اس سلسلے کو مزید جاری نہیں رکھ سکا اور اس طرح میں اپنی ماں کا یہ خواب پورا نہیں کر پایا۔ پی ایچ ڈی کے بر عکس میں نے مختلف موضوعات پر چار کتابیں تحریر بھی کیں لیکن انھیں شائع کروانے میں تاخیر برتی، اس طرح میں اپنی ماں کی یہ خواہش پوری کرنے سے بھی قاصر رہا۔ یعنی میں اپنی ماں کا ایک ایسا بیٹا ثابت ہوا جو پڑھ لکھ کر بھی رائیگاں ہی گیا۔
میں اکثر سوچتا ہوں کہ میری ماں جو اپنی مادری زبان ’’ مارواڑی‘‘ کے سوا کوئی دوسری زبان بول نہیں سکتی اور قرآن مجید کے علاوہ کچھ پڑھنا نہیں جانتی وہ کس طرح سے مجھ سے اتنی بڑی امیدیں لگا سکتی ہیں۔ حالانکہ زندگی بھر امی نے ٹی وی نہیں دیکھا، یہاں تک کہ ریڈیو تک بھی نہیں سنا، اور تو اور وہ اپنی تصویر تک نہیں بنواتی تھیں، بہت زیادہ سادہ زندگی بسر کرتیں۔ میری ماں بہت سے معاملات میں میرے لیے ایک ’’ پہیلی‘‘ کی طرح رہیں جو کبھی بوجھی نہیں گئیں۔
امی جی کی اپنی ہی منطق ہوا کرتی اور اپنے ہی تصورات ہوا کرتے تھے، یہی وجہ ہے کہ وہ اکثر و بیشتر خود ساختہ تصوراتی محاذوں سے الجھی رہتیں اور ایسے میں ہم میں سے کسی بہن بھائی کی خیر نہیں ہوتی اگر ہم ان سے کوئی اختلاف کرتے۔ دوسری جانب ہماری امی اتنی ہی شفیق بھی تھیں وہ ہمیشہ یتیموں اور مسکینوں کا خیال رکھتیں، بے سہارا غریب خواتین کی مدد بھی کرتیں۔ میرے والد بزرگوار مولانا حافظ محمد سرور ( حفظہ اللہ) زندگی بھر درس و تدریس سے وابستہ اور امام و خطیب رہے ہیں اور علم و الکلام پر مہارت بھی رکھتے ہیں لیکن وہ بھی والدہ ماجدہ کے اپنے ہی تراشے ہوئے دلائل کے سامنے بے بس دکھائی دیتے۔ ہماری امی بھی محلے کی خواتین کی امام رہیں، ہمارے گھر میں رمضان المبارک سمیت دیگر مقدس راتوں میں محلے کی خواتین کے لیے شب بیداری کا اہتمام ہوا کرتا اور رات کے آخری پہر میں امی ان خواتین کو اپنی امامت میں ’’ صلا التسبیح‘‘ پڑھایا کرتی تھیں۔
امی جی سے متعلق اگر یہ بات ضبط تحریر نہ لائوں تو زیادتی ہوگی، ہم سب بھائی بہن ان کی اولادیں عید ین اور دیگر تہوار پر ہی ایک ساتھ اپنے آبائی گھر میں جمع ہوتے، ایسے میں امی کو ہمارے کھانے پینے اور پہنے اوڑھنے کی فکر لاحق ہو جاتی۔ اس ضمن میں میرے بھتیجے اکثر یہ بات لطیفے کے طور سناتے ہیں کہ ’’ امی گلی کے چوک میں آ کر ہم سب کا نام لے کر پکارتی اور کہتی کھانا کھا لو اور کھیل کود کر آئے ہو تو نہا لو‘‘ یعنی امی اپنی زبان مارواڑی میں کہتیں ’’ کھالے، کھالے، کھالے‘‘ ۔
دوسری صورت میں کہتیں ’’ نہالے، نہالے، نہالے‘‘ ، ان بچوں کا کہنا کہ وہ امی کی اس تکرار سے محروم ہو گئے ہیں اب کون ہے جو اس طرح سے انھیں پکارے گا۔ میرے بیٹے رائد نے مجھے بتایا کہ ایک بار دادی جان مجھے کھانا کھانے پر زور دے رہی تھی جبکہ مجھے بھوک نہیں تھی لہذا میں نے ان کی خوشی کے لیے چھوٹی چچی سے کھانا لیا اور جیسا ہی ایک لقمہ اپنے منہ میں لیا اور وہ مطمئن ہو کر چلی گئیں۔ بس یہ کہ امی ہم سب کو اپنے سامنے کھلا کر ہی مطمئن ہوا کرتی تھیں۔
جس طرح یہ بچے امی کی اس تکرار سے محروم ہو گئے اسی طرح میں امی جان کی اس ’’ نگاہ‘‘ سے بھی محروم ہو گیا ہو جو مجھ پر اس تک جمی رہتی تھی جب تک میں ان کی نظروں اوجھل نہ ہو جائوں۔ معاملہ کچھ یوں ہے کہ میں جب بھی اپنے آبائی شہر نواب شاہ جاتا تو واپسی پر میری امی میرے ساتھ گلی کے آخری نکڑ تک چل کر آتی اور وہاں سے کھڑے ہو کر مجھے اس وقت تک دیکھتی رہتی جب تک میں ان کی نظروں سے اوجھل نہیں ہو جا تا۔ آہ آہ آہ کہ اب یہ ’’ نگاہ ہائے سایہ شجر‘‘ نہیں رہیں۔ اب ایسے میں ندا فاضلی کا یہ دوہا ہی یاد پڑتا ہے کہ
گھر کو کھوجیں رات دن گھر سے نکلے پائوں
وہ رستہ ہی کھو گیا جس رستے تھا گائوں
یا پھر منور رانا کا یہ شعر
ماں بیٹھ کے تکتی تھی جہاں سے مرا رستہ
مٹی کے ہٹاتے ہی خزانے نکل آئے
امی جان اپنی قبر مکرم میں آرام تو فرما رہیں ہیں لیکن وہ ہمارے حوالے سے آج بھی بے چین ہوں گی اور میں کہ اس بے چینی میں مبتلا ہوں کہ آپ سے آخری ملاقات نہ کر پایا، آپ سے کچھ کہہ نہ سکا، آپ کی کچھ سن نہ سکا، ایسا بد نصیب کہ معافی بھی نہ مانگ سکا۔ آپ نے مجھے یقیناً معاف تو کر دیا ہو گا لیکن آپ کی امیدیں اور خواہشیں مجھ پر آج بھی ادھار ہیں۔ کلیجہ پھنکنے لگا ہے کچھ لکھتے لکھتے اب بس کرتا ہوں، حالانکہ مجھے ابھی تو بہت کچھ لکھنا تھا۔
امی کی لگڑی ( سر کی چادر ؍ دوپٹہ) کا ذکر کرنا تھا، سردیوں کی رات میں کوئلے اور مٹی کی آمیزش سے تیار کردہ اوپلوں سے انگیٹھی سلگانے سے لے کر خشخاش اور کالی مرچ کی مصالحے والی چائے، پتے کی بیڑی اور سونگھنے والی ناس کی باتیں ہونا تھیں، یہی نہیں بلکہ انگریزی اور اردو زبان کے بعض الفاظ کو وہ اپنے جس انداز سے بولا کرتی تھیں اس پر بھی بات کرنی تھی۔ آخر میں امی اور میرے درمیان ایک ’’ چنڑی‘‘ کا سیکرٹ تھا اسے بھی تو بیان کرنا تھا۔ آہ آہ آہ
آخری میں جون ایلیا کے اس شعر کے ساتھ اپنی امی کو خراج عقیدت پیش کروں گا۔
ساری گلی سنسان پڑی تھی باد فنا کے پہرے میں
گھر کے دالان اور آنگن میں بس اک سایہ زندہ تھا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button