Column

قبضہ مافیا کی رسہ کشی

روہیل اکبر
ملکی سیاست میں تو رسہ کشی تھی ہی ساتھ میں ہم نے اس کھیل میں تعلیم کو بھی کھینچ لیا، ایچی سن کالج کے پرنسپل نے ہمارے انتہائی نیک، پارسا اور باریش گورنر پنجاب کے بارے میں جو کچھ تحریر کر دیا وہ ایک سند کے طور پر ہماری آنے والی آئندہ نسلوں کے پاس بھی محفوظ رہے گا کہ ہم نے جہاں اپنے دوسرے شعبوں کا بیڑا غرق کیا وہیں پر تعلیم اور اس نظام کا بھی کباڑا کر دیا کچھ عرصہ قبل اسلامیہ یونیورسٹی کا ایک اسکینڈل منظر عام پر آیا تھا جس کا مقصد وہاں سے ڈاکٹر اطہر کو ہٹانا تھا سازشی عناصر اپنے اس کام میں کامیاب رہے حالانکہ ڈاکٹر اطہر نے اس یونیورسٹی کو پاکستان کی ٹاپ کی یونیورسٹی بنا دیا تھا تعلیم سب کے لیے عام کردی تھی اور اب وہ اس یونیورسٹی کو دنیا کی بہترین یونیورسٹیوں کی صف میں شامل کرنے کے لیے دن رات محنت کرنے میں مصروف تھے ان کے دور میں طلبہ کی تعداد کا بڑھنا ہی ان کے ارادوں کی کامیابی تھی لیکن تعلیم دشمن مافیا نے انہیں کام نہیں کرنے دیا اس میں سب سے زیادہ خرابی ہمارے سیاسی نظام کی ہے اور بدقسمتی سے ہم پرانی غلطیوں سے باہر بھی نہیں آرہے جو ہمارے مسائل کی ایک بڑی وجہ ہے ہمارا سیاسی نظام اس لئے کمزور ہے کیونکہ ہمارا معاشرتی نظام مضبوط نہیں ہوسکا اور ہمارے اندر اعلیٰ معاشرتی اور اخلاقی اقدار کا فقدان ہے جس کی کمی کو پورا کرکے ہی ہم ترقی کر سکتے ہیں پاکستان کے سیاسی نظام کے مسائل سے سب واقف ہیں ضرورت اس امر کی ہے کہ سول سوسائٹی آگے آئی اور جامعات کے ساتھ مل کر ملکی مسائل پر جامع پالیسی سازی میں حکومت کی مدد کریں پاکستان میں سول اور ملٹری بیوروکریسی دونوں موجود ہیں۔ موجودہ بیوروکریسی کے تانے بانے ہمیں انگریزی حکمرانوں سے ملتے ہیں جنہوں نے برصغیر میں اپنی حکومت کو مضبوط رکھنے کے لئے ایک ایسا بیوروکریسی کا سسٹم ترتیب دیا جس میں ان کا درجہ آقا کے برابر تھا سر کا کلچر بھی ہمیں انگریزوں نے دیا جس کے مطابق ہماری سوسائٹی کے افراد ان کے آگے ملازم سے بڑھ کر نہ تھے وہ نظام جو آقا اور محکوم کے لئے تھا اور اس کی کسی بھی آزاد ملک میں گنجائش نہیں ہونی چاہئے تھی لیکن ہم آج تک اس نظام کو چلا رہے ہیں سیاسی نظام عوام کے انفرادی کلچر سے بنتا ہے اور عوام کا کلچر ہی سیاسی کلچر کی بنیاد ہوتا ہے جس کا ووٹنگ پر بھی اثر ہوتا ہے سیاسی نظام ملک کے معاشرے، عوام اور ماحول کے حالات و واقعات سے بنتا ہے۔ سیاسی برتائو بھی عوامی برتائو پر مبنی ہوتا ہے کبھی بھی سیاسی کلچر عوامی کلچر سے مختلف نہیں ہوتا پاکستان اور بھارت میں ووٹر ٹرن آوٹ کا فی کم ہوتا ہے جبکہ امریکہ اور دیگر ترقی یافتہ ممالک میں یہ بہت زیادہ ہوتا ہے کیونکہ ان کی عوام کو اپنی ووٹ کی طاقت کا ادراک ہے جب تک عوام کو سیاسی نظام میں اپنی شراکت داری کا احساس نہیں ہوگا وہ ووٹ ڈالنے نہیں نکلیں گے صرف آئین اہم نہیں بلکہ اس پر مکمل عملدرآمد سے ہی ہمارے مسائل حل ہونگے ایک دوسرے سے اختلاف رکھنا سب کا حق ہے لیکن ہم سب کا پاکستان کی ترقی پر متفق ہونا بہت ضروری ہے موجودہ دور چونکہ سوشل میڈیا کا ہے اور اس کے مثبت استعمال سے معاشرے میں تبدیلی لائی جاسکتی ہے ہمیں اپنے نصاب اور تحقیق کو عصر حاضر کے جدید تقاضوں سے ہم آہنگ اور قومی و بین الاقوامی ضروریات کے مطابق کرنے کی ضرورت ہے اسی صورت ہم ترقی یافتہ ممالک کی فہرست میں شامل ہوسکتی ہیں ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنا ہے تو تعلیم کے شعبے میں ایمرجنسی کا نفاذ کرنا ہوگا ہمارے ہاں جو نصاب پڑھایا جارہا ہے اس کے ذریعے ہم دنیا کا مقابلہ نہیں کر سکتے اس لئے نصاب میں جدت لانے کی ضرورت ہے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ آج بھی کروڑوں بچے سکولوں سے باہر ہیں اور جو ماسٹر ڈگریاں ہاتھوں میں پکڑ کر نوکریوں کی تلاش میں در بدر ٹھوکریں کھا نے کے بعد اب خاکروب کی نوکری کے لیے بھی درخواستیں جمع کروا رہے ہیں جو لمحہ فکریہ ہونا چاہیے اور ان باتوں پر کوئی بھی توجہ دینے کے لیے تیار ہے میں نے شروع میں ذکر کیا تھا رسہ کشی کا جو ایک کھیل ہے اور اس کھیل کو ہم نے اپنی سیاست سمیت ہر ادارے میں متعارف کروادیا جبکہ حقیقت میں اس کھیل کو ہم بھول چکے ہیں نہ صرف اس کھیل کو بلکہ ان کھیلوں کو بھی ہم نے نہ صرف فراموش کر دیاجن میں ہم کبھی ورلڈ چیمپئن تھے بلکہ ان کھیلوں میں سیاسی بھرتیاں کرکے وہاں بھی سیاسی ماحول بنا دیا اس وقت پاکستان ہاکی فیڈریشن دو حصوں میں تقسیم ہو چکی ہے ایک حصے پر پیپلز پارٹی کی شہلا رضا قابض ہے جبکہ دوسرے حصے پر وزیر اعلی بلوچستان کے بھائی قابض ہیں دونوں کا کھیلوں کے ساتھ جو لگا اور تعلق ہے وہ بھی سب جانتے ہیں جو حشر ہماری ہاکی کے ساتھ اس وقت ہورہا ہے یہی آج سے پہلے ہمارے فٹ بال کے ساتھ بھی ہوچکا ہے جہاں باٹ لڑائی مار کٹائی اور قبضے تک پہنچ جاتی تھی پاکستان فٹ بال فیڈریشن پر ایک دن ایک پارٹی کا قبضہ ہوتا تھا تو دوسرے دن مخالف گروپ ڈنڈے سوٹوں کے ساتھ آکر قبضہ کر لیتا تھا اور پھر آخر کار ہماری اس فیڈریشن پرنہ صرف پابندی لگ گئی بلکہ اسے بلیک لسٹ بھی کر دیا گیا اس وقت بھی ہماری بہت سی فیڈریشنوں پر ایسے لوگ مسلط ہیں جن کا کھیلوں کے ساتھ دور دور کا بھی تعلق نہیں پاکستان سپورٹس بورڈ فیڈریشن میں کام کرنے والے بہت سے ایسے افراد بھی ہیں جو مختلف محکموں سے یہاں مزے لینے آتے ہیں کھیلوں میں تباہی اور بربادی پھیلا کر واپس اپنے محکموں میں چلے جاتے ہیں جنکی وجہ سے ہمارے کھلاڑی اپنے کھیل سے دلبرداشتہ ہو کر چلے جاتے ہیں اور انکی جگہ سفارشی لڑکے آجاتے ہیں جو نہ صرف کھیلوں کی بربادی کا سامان پیدا کرتے ہیں بلکہ بین الاقوامی مقابلوں سے ہی پاکستان کی چھٹی کروا دیتے ہیں اب جو کھلاڑی کھیلنے کے لیے ویزے لگواتے ہیں اور باہر جاکر غائب ہو جاتے ہیں انکے ان کاموں سے ملک کی بدنامی ہوتی ہے اس کام میں مختلف فیڈریشنوں کے کرتا دھرتا لوگ شامل ہیں جو ویزوں کا کاروبار کھلاڑیوں کی شکل میں کررہے ہیں اس وقت ہماری سیاست تو برباد ہوچکی ہے اور کھیلیں برباد ہونے کے لیے تیار ہیں کاش کوئی ہمدرد، محب وطن، مخلص، باشعور اور اعلیٰ تعلیم یافتہ پاکستان کا مقدر سنوارنے کے لیے سامنے آئے تاکہ ہمارا ہر لحاظ سے زرخیز ملک ایک بار پھر ترقی کے سفر پر روانہ ہوسکے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button