Column

احتیاط کیجیے! ڈاکو آپ کی دہلیز پر ہیں

رفیع صحرائی
جوں جوں تعلیم عام ہونے کے ساتھ ٹیکنالوجی میں جدت آتی جا رہی ہے توں توں عوام میں شعور آتا جا رہا ہے۔ آگاہی کے ذرائع اور رفتار میں اضافہ ہو رہا ہے۔ دنیا کے ایک کونے میں ہونے والا کوئی واقعہ اگلے ہی لمحے دنیا بھر میں پھیل جاتا ہے۔ سب کو پتا چل جاتا ہے۔
پہلے دور میں لوٹنے کے چند ایک طریقے تھے۔ ٹھگ باز ان گنے چنے طریقوں پر عمل کر کے لوگوں کو لوٹا کرتے تھے۔ ذرائع وسل و رسائل تو ہوتے نہیں تھے لہٰذا عام لوگ ٹھگ بازوں کے طریقوں سے واقف بھی نہ تھے۔ فراڈیے لوگ ایک ہی طریقے سے سالوں تک کام چلایا کرتے تھے۔ اب ایسا نہیں ہے۔ اگر کوئی بندہ کسی طریقے سے لُٹ جاتا ہے تو اسی روز بہت سے لوگوں کو فیس بک، واٹس ایپ، انسٹا گرام اور ٹک ٹاک وغیرہ کے ذریعے طریقہ واردات کا پتا چل جاتا ہے جبکہ چند روز بعد سوشل میڈیا استعمال کرنے والے تقریباً سبھی لوگ لوٹ مار کے اس طریقے سے واقف ہو جاتے ہیں۔ ان حالات کے تحت لوٹ مار کرنے والے بھی اپنے طریقہ ہائے واردات میں جدت اور تبدیلی لاتے رہتے ہیں۔
آج کل رمضان کا مقدس مہینہ چل رہا ہے۔ لوگ زیادہ سے زیادہ نیکیاں سمیٹنے میں کوشاں ہیں۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہمارے ہاں ’’ عید کمانے‘‘ کا ٹرینڈ بھی دہائیوں سے جاری ہے۔ تاجر، دکاندار، سرکاری ملازم حتیٰ کہ درزی بھی عید کمانے کے چکر میں ہوتے ہیں۔ گویا اس ماہِ مقدس میں اکثریت لوٹ مار میں مصروف ہو جاتی ہے۔ ایسے میں پیشہ ور لوٹ مار کرنے والے بھلا کیسے پیچھے رہ سکتے ہیں۔ انہوں نے بھی زیادہ سے زیادہ عید کمانے کے چکر میں اب رات ہی کو ڈاکے مارنے پر اکتفا کرنا چھوڑ دیا ہے۔ وہ اب دن دہاڑے اوور ٹائم لگانے لگے ہیں۔ ایسی ہی ایک واردات کا حال آپ کو سنانے جا رہا ہوں جو گزشتہ دنوں وقوع پذیر ہوئی ہے۔
دوپہر کا وقت تھا۔ شہر کے ایک تاجر کے گھر کے گیٹ پر دستک ہوئی۔ گیٹ میں اندر سے کنڈی لگی ہوئی تھی۔ خاتونِ خانہ نے گھر کے گیٹ پر پہنچ کر پوچھا کہ کون ہے؟۔ جواباً ایک خاتون کی آواز آئی کہ بہن مجھے دوائی کھانی ہے۔ ایک گلاس پانی مل سکتا ہے کیا؟ خاتونِ خانہ گیٹ کا چھوٹا دروازہ کھولتی ہیں۔ باہر دو خوش پوش عورتیں کھڑی ہوتی ہیں جن کی عمریں تیس سے پینتیس سال کے درمیان ہوتی ہیں۔ ان خواتین کو گھر کے اندر بلا لیا جاتا ہے۔ بڑی عزت سے انہیں بٹھایا جاتا ہے۔ خاتونِ خانہ اپنی بیٹی کو پانی لانے کا کہتی ہیں جو پانی کی بوتل اور گلاس لے آتی ہے۔ اتنے میں گھر کی جواں سال بہو بھی اپنے چند ماہ کے بیٹے کو لے کر برآمدے میں آ جاتی ہے جہاں وہ خواتین بیٹھی ہوتی ہیں۔ اسی اثنا ء میں اجنبی خواتین میں سے ایک خاتون کے فون کی گھنٹی بجتی ہے۔ وہ کال رسیو کرتے ہے۔ دوسری طرف کی بات سننے کے بعد کہتی ہے کہ ’’میں نے ڈاکٹر سے چیک اپ کروانے کے بعد میڈیکل سٹور سے دوائی لے لی ہے اور اب بس کھانے ہی لگی ہوں۔ ڈاکٹر نے کہا ہے کہ جلدی ٹھیک ہو جائے گی‘‘
وہ خاتون تھوڑی دیر تک خاموش ہو کر بات سنتی ہے اور پھر بتاتی ہے کہ ’’ دوائی کی خوراک میں دو بڑی گولیاں، ایک چھوٹی گولی اور ایک چھوٹا سا کیپسول شامل ہے۔ بس میں دوائی کھا لوں، ہم یہاں سے نکلنے ہی لگی ہیں‘‘
اس کے بعد وہ اجنبی خواتین پانی پیتی ہیں۔ فون کال والی خاتون دوائی کھاتی ہے۔ خاتونِ خانہ کا شکریہ ادا کیا جاتا ہے۔ اور دونوں روانہ ہونے کے لیے گیٹ کی طرف بڑھتی ہیں۔ خاتونِ خانہ بھی دروازے کی کنڈی لگانے کے لیے ان کے ساتھ چل پڑتی ہیں۔ جب وہ اجنبی خواتین کو گھر سے باہر جانے کے لیے گیٹ کی کنڈی کھولتی ہیں تو اسی وقت دروازے کو باہر کی طرف سے دھکا دے کر کھولا جاتا ہے۔ تین مرد گھر کے اندر داخل ہوتے ہیں جنہوں نے چادریں اوڑھی ہوتی ہیں۔ وہ فوراً ہی چادروں کے نیچے سے جدید اسلحہ نکال کر گھر کی خواتین پر تان لیتے ہیں۔ اور انہیں خاموش رہنے کا حکم دیتے ہیں۔ وہ دونوں اجنبی خواتین بھی پستول نکال کر ان پر تان لیتی ہیں۔ اس کے بعد گھر میں پڑی لاکھوں روپے کی نقدی اور زیورات لوٹے جاتے ہیں، اہلِ خانہ کی ہاتھ پیچھے کی طرف باندھ کر ان کے منہ ٹیپ سے بند کیے جاتے ہیں۔
سب کو ایک کمرے میں بند کر کے کمرے کا دروازہ باہر سے بند کیا جاتا ہے اور وہ لوگ فرار ہو جاتے ہیں۔
آپ سمجھ ہی گئے ہوں گے کہ فون پر جب اجنبی عورت نے یہ بتایا کہ دوائی کی خوراک میں دو بڑی گولیاں، ایک چھٹی گولی اور ایک چھوٹا کیپسول شامل ہیں تو اس سے اس کی مراد یہ تھی کہ گھر میں اس وقت دو عورتیں، ایک لڑکی اور ایک بچہ موجود ہے۔ یہ در اصل اپنے ساتھیوں کو گرین سگنل دیتے ہوئے اس عورت نے گھر میں موجود افرادِ خانہ کی تعداد اور عمروں سے بھی اپنے ساتھیوں کو آگاہ کیا تھا۔
آپ لوگ محتاط رہیے۔ کسی بھی اجنبی مرد یا عورت کو گھر کے اندر آنے کی ہرگز اجازت نہ دیجیے۔ ضروری نہیں کہ کوئی پانی پینے کے بہانے ہی آپ سے گھر کے اندر آنے کی درخواست کرے۔ آج کل رمضان کا مہینہ ہونے کی وجہ سے صدقہ و خیرات لینے والی عورتیں بھی ٹولیوں کی صورت میں نکلتی ہیں جو بلاتکلف گھروں میں داخل ہو جاتی ہیں۔ ان کی آڑ میں بھی واردات کرنے والی عورتیں صدقہ و خیرات یا فطرانہ لینے کے بہانے گھروں میں داخل ہو جاتی ہیں اور اگر کسی گھر میں کوئی اکیلی خاتون انہیں مل جائے تو اس کی جان لینے سے بھی یہ دریغ نہیں کریں گی۔
گزشتہ دنوں ہی ایک اور واردات بھی سامنے آئی ہے جب ایک نوجوان نے ایک بوری کندھے پر رکھے ہوئے خشک روٹیاں خریدنے والے کا روپ دھارا ہوا تھا۔ ایک خاتون نے اسے بے ضرر سمجھتے ہوئے گھر کے اندر بلا لیا۔ اس نوجوان نے اپنی بوری سے ترازو نکالنے کے بہانے ایک چھوٹی سی جدید گن نکالی اور خاتون کو جان سے مارنے کی دھمکی دے کر اس کی جمع پونجی سے محروم کر دیا۔
ایک جدید ترین طریقہ واردات یہ اختیار کیا جا رہا ہے کہ کسی گھر کے باہر آدھی رات کے وقت چھوٹے بچے کے رونے کی آواز سنائی دیتی ہے۔ حقیقتِ حال جاننے کے لیے گھر کا دروازہ کھولا جاتا ہے تو مسلح افراد گھر میں گھس آتے ہیں۔ بچے کے رونے کی آواز موبائل فون میں ریکارڈ شدہ ہوتی ہے جسے چلا کر لوگوں کو ٹریپ کیا جاتا ہے۔
خود بھی یہ بات اچھی طرح جان لیں اور اپنے گھر والوں کو بھی بتا دیں کہ ہمیشہ گھر کے مین گیٹ کی کنڈی لگا کر رکھیں۔ کبھی کسی اجنبی مرد یا عورت کے لیے دروازہ مت کھولیں۔ ڈاکو آپ کی دہلیز پر کھڑے ہیں۔ خود کو لُٹنے سے بچائیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button