Column

آرمی چیف اور چیف جسٹس گارنٹی دیں

راجہ شاہد رشید
اس حکومت کو بنے ہوئے ابھی جمعہ جمعہ آٹھ دن ہی تو ہوئے ہیں لیکن مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی کے پہلوان ایک دوسرے کو للکارنے لگے ہیں اور نہ صرف نجی محفلوں میں بلکہ میڈیا میں بھی گزشتہ 16ماہ کی اپنی ہی اتحادی ’’ شو باز‘‘ حکومت کو کوستے اور ہلکے پھلکے انداز میں ایک دوسرے پر تنقید کرتے نظر آتے ہیں حالانکہ ابھی تو پارٹی شروع ہوئی ہے ۔ ان حالات میں یہ اتحادی حکومت چلے گی کیسے اور ان سے کوئی کیا امید رکھے کہ یہ ملک و قوم کی کوئی بہتری و بھلائی کر پائیں گی اور غریب عوام کو کب اس کمر توڑ مہنگائی ، بدحالی و بے روزگاری سے رہائی دلائیں گے ۔ ’’ ن‘‘ سے ’’ ش‘‘ کے نکلنے کی شیخ رشید کی پیش گوئی درست ثابت ہونے جا رہی ہے ۔ ’’ ن‘‘ کے پیچھے دو حرفی اضافہ کر کے میاں محمد نواز شریف نے بذات خود ہی تو اس ’’ ش‘‘ کی بنیاد رکھی تھی لیکن بہت ہی جلد شاید یہ ’’ ش‘‘ ایک الگ شکل اختیار کر کے اپنی نئی اور منفرد شناخت بیانیہ بنانے کا پابند و دل پسند بلکہ دل بند بننے جا رہا ہے ۔ اس بات کی سب سے بڑی دلیل اور شہادت مندرجہ ذیل نون لیگی لوگوں کی بھانت بھانت کی بولیاں ہیں ، مثال کے طور پر میاں جاوید لطیف ، حنیف عباسی ، مشاہد حسین سید ، سردار مہتاب خان عباسی ، مفتاح اسماعیل ، خواجہ محمد آصف ، جاوید عباسی ، محمد زبیر ، اسحاق ڈار ، راجہ جاوید اخلاص ، شاہد خاقان عباسی ، رانا ثنا اللہ اور ڈاکٹر آصف کرمانی ، آپ ان سب کے بیانات پر غور فرمائیں اور پھر انہیں آپس میں ملائیں تو دو الگ الگ صورتیں ایک ’’ ن‘‘ اور دوسری ’’ ش‘‘ آپ کے سامنے ہوں گی۔ الغرض ان کا ایک نہیں بلکہ دو علیحدہ علیحدہ بیانیے ہیں اور اب اگر ہم بات کریں تحریک انصاف کی تو وہاں ایک نہیں کئی ایک بیانیے ہیں، کچھ عمرانیے ہیں، کئی نادانیے ہیں اور کئی بیگانیے ہیں ۔ پی ٹی آئی کے بہت سے رہنما عمران خان کے پاس مفاہمت و مذاکرات و مصالحت کے مشورے لے کر جاتے ہیں لیکن وہ تو ویسے ہی ہیں یعنی کسی کو نہیں چھوڑوں گا اور لڑنے مرنے پہ آمادہ میں نہ مانوں کی مانند کھڑے ہیں ۔ مادام بُشریٰ بی بی فرماتی ہیں کہ ’’ عمران خان عوام کی خاطر جیل میں ہیں اور اگر انہیں کچھ ہوا تو اس کی ذمہ دار اسٹیبلشمنٹ ہو گی‘‘ ۔ مجھے تو ان جماعتوں کا یکجا اور متحد رہنا محال لگتا ہے ۔ تحریک انصاف میں کافی عرصہ سے سیاستدان بمقابلہ وکیل محاذ آرائی جاری تھی جو اب کھل کر سامنے آ رہی ہے ، ان کے اندر من کے مندر میں کئی کھچڑیاں بلکہ ’’ کھچڑے‘‘ پک رہے ہیں ان میں کوئی فکر و حکمت ہے نہ تحمل و تدبر ہے ۔ جیسے سٹوڈینٹ یونین کی سیاست میں ہوتا ہوتا تھا وہ انداز ہے ان کا اور مجھے کبھی تو یہ گلی محلے کے لڑاکا لڑکے لگتے ہیں ، پنجاب اسمبلی کا اجلاس جاری تھا تو ان کھلاڑیوں نے نازیبا اشارے کیے اور پھر اس کے بعد صوبائی وزیر سیدہ عظمیٰ بخاری و دیگر سراپا احتجاج خواتین وہاں سے چلی گئیں۔ آپ اختلافات کو ایک سائیڈ پر رکھ دیں خدارا اخلاقیات تو دیکھیں ان ’’ رہنمائوں‘‘ کی کہ پی ٹی آئی کی کور کمیٹی کے اجلاس میں ان کے جھگڑے چل رہے تھے اور یہ آپس میں لڑ رہے تھے ۔ شیر افضل مروت کا کہنا تھا کہ تحریک انصاف کے لوگ ہی میرے خلاف مہم چلا رہے ہیں میرے خلاف بہت باتیں کرتے ہیں ، جب نیاز اللہ نیازی نے کھڑے ہو کر انہیں چیلنج کیا تو مروت نے کہا کہ باہر آئو میں تمہیں سبق سکھاتا ہوں تو پھر آگے سے جواباً نیاز اللہ نیازی نے کہا کہ ٹھیک ہے آ جائو باہر مجھے شعیب شاہین مت سمجھنا۔ یہ ہے ان کی حالت کہ کوئی ادب و تہذیب و تمیز ہی نہیں ہے صد افسوس و ماتم کی کوئی شرم ہوتی ہے کوئی حیا ہوتی ہے ، یہ سب دیکھ سن کر تو کلیجہ منہ کو آتا ہے اور دل خون کے آنسو روتا ہے میں کیا کیا بتلائوں آپ کو یہ ایک درد بھری کہانی ہے اس سیاست کی ’’ بھاویں‘‘ کوئی کارکن ہے یا پھر پردھان ہے سب کی طویل داستان ہے ۔ آج کے ان حالات و معاملات میں خاص و عام تمام اور بالخصوص غریب عوام سپہ سالار کی سمت دیکھ رہے ہیں اور سوچ رہے ہیں کہ ہمارا مستقبل کیا ہوگا ، کیا بنے گا اس ملک کا۔؟ بین الاقوامی شہرت یافتہ فیشن ڈیزائنر محمود بھٹی فرماتے ہیں کہ کئی ارب پتی بزنس مین پاکستان آ کر سرمایہ کاری کرنا چاہتے ہیں لیکن وہ یہاں کی مشکلات سے خوفزدہ ہیں، میں مطالبہ کرتا ہوں کہ ہمیں سہولیات فراہم کریں ہم بیرونی ممالک سے بڑی محنت کر کے پیسہ کماتے ہیں پھر پاکستان لاتے ہیں لیکن یہاں پر ہماری جائیدادوں پر قبضہ کر لیا جاتا ہے اور اگر ہم عدالتوں سے رجوع کرتے ہیں تو پھر بھی انصاف نہیں ملتا، میں اپنی والدہ کے نام پر یتیموں کے لیے ایک یتیم خانہ بنانا چاہتا تھا لیکن میری جگہ پر قبضہ ہو گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بہت سے اوورسیز پاکستانی اپنے پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے کے لیے تیار ہیں لیکن ہم اپنے سرمائے کی حفاظت کے لیے چیف آف آرمی سٹاف اور چیف جسٹس آف پاکستان سے گارنٹی چاہتے ہیں، اگر ایسا ہی ہوا تو یہ ملک ضرور ترقی کی راہ پر گامزن ہو جائے گا۔
بند ہو جاتا ہے کوزے میں کبھی دریا بھی
اور کبھی قطرہ سمندر میں بدل جاتا ہے
ضرورت اس امر کی ہے کہ آرمی چیف اور چیف جسٹس آف پاکستان حکومت و اپوزیشن کو ایک جگہ بٹھائیں سب کو ساتھ ملائیں اور اوورسیز پاکستانیز کو ان کے سرمائے کی حفاظت کی ضمانت بھی ضرور دیں تاکہ ہمارے ملک و قوم کی ترقی ممکن ہو ۔ ہر سو ہریالی ہو خوشحالی ہو اور ہر انسان کی زندگی آسان ہو۔ لاہور سے شٍبہ طراز کے الفاظ میں : پھر سے کوزے میں بند کر دریا
دل دریا کو پھر سے سمندر کر

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button