CM RizwanColumn

آزاد ملک کے غلام منصوبے

تحریر : سی ایم رضوان
قارئین کو قومی زندگی کے ایک ایک لمحے کی یاد تازہ ہو گی کہ جب ریکوڈک کے ذخائر دریافت ہوئے تھے تو اس وقت کی حکومت نے دعویٰ کیا تھا کہ قدرتی خزانوں کا انبوہ کثیر نکل آیا ہے اب پاکستان سونا اگلنے والا ملک بن گیا ہے اور اب کسی چیز کی کمی نہیں رہے گی لیکن بعد میں پتہ چلا کہ ہماری قوم کی خوشحالی ایک عالمی طاقت کو ایک آنکھ نہیں بھائی اور اس نے اس منصوبے کا کچھ ایسا بندوبست کر دیا کہ قیمتی دھاتیں اگلنے والے اس منصوبے پر کام کرنے والے پاکستانی مزدوروں کو بھی مٹی ڈھونے والے مزدوروں سے زیادہ اجرت آج تک نہیں مل سکی پاکستانی خزانہ میں کوئی رقم انا تو بہت دور کی بات ہے۔ پھر گوادر پورٹ کی تیاری کے وقت بھی کچھ ایسے ہی خواب دیکھے اور دکھائے گئے لیکن یہ منصوبہ بھی زرمبادلہ دینے کی بجائے بلوچستان اور پاکستان کو ایک مستقل دہشت گردانہ سرگرمیوں کی خوں آشام نوید دینے کے سوا کچھ نہیں دے سکا۔ اسی طرح سی پیک منصوبے کے اجراء کے وقت بھی حتیٰ کہ آج بھی ترقی کے سہانے خواب اور حکمرانوں کی جانب سے شیخ چلی جیسی شیخیاں بگھارنے کا سلسلہ جاری ہے اور عوام کو ایک ٹکے کا فائدہ نہیں پہنچ سکا۔ اسی طرح پاکستان ایران گیس پائپ لائن منصوبے کو بھی معاہدہ طے پاتے وقت ایک بڑا منصوبہ قرار دیا گیا تھا مگر یہ کام بھی حسب روایت امریکی پابندیوں کا شکار ہو کر سالوں سے کھٹائی میں پڑا ہوا ہے۔ آپس کی بات ہے کہ ہماری خارجہ پالیسی اور ملک کی اندرونی انتظامی و سیاسی ساخت چیخ چیخ کر یہ دہائی دے رہی ہے کہ یہ تمام منصوبے کبھی بھی عوام کو کچھ نہیں دے سکیں گے ہاں ان میں سے بعض کا چلنا اور بعض پر بات چیت چلتے رہنا مقامی اور عالمی حکمرانوں کے لئے ازحد ضروری ہے کیونکہ اس کے ذریعے وہ اپنے در پردہ مقاصد ضرور حاصل کرتے رہیں گے اور بس۔ ان حالات میں ان منصوبوں کو پاکستان جیسے آزاد ملک کے غلام منصوبے قرار دینا بیجا نہ ہو گا جو کہ اب نئی حکومت کے برسر اقتدار آنے کے بعد ایک مرتبہ پھر پوری شدومد کے ساتھ زہر بحث آ گئے ہیں اب ان پر گفتند، نشستند، برخاستند کا ایک پورا دور چلے گا اور بالآخر قوم کے غریب طبقے وہی مہنگائی، بیروزگاری اور معاشی عدم استحکام کا رونا روتے رہیں گے۔ ان غلام منصوبوں میں سے ایک پر ظاہر ہے اب پاکستان نے ایک بار پھر اشارہ دیا ہے کہ وہ ایران پاکستان گیس پائپ لائن کی تکمیل کے لئے کوشاں ہے اور اس حوالے سے اپنے حصے کی پائپ لائن بچھانے کی کوشش کرے گا۔ سفارتی ذرائع کے مطابق اس مسئلے پر اسلام آباد اور تہران کے درمیان بات چیت جاری ہے۔ ممکنہ طور پر آنے والے چند ہفتوں میں ایرانی ماہرین کی ٹیم پاکستان کا دورہ بھی کرے گی۔ تاہم کئی مبصرین اس منصوبے کے حوالے سے اب بھی سوالات اٹھا رہے ہیں۔ کچھ کے خیال میں پاکستان کی طرف سے یہ کوشش ہے کہ وہ ایران پاکستان کے مسئلے کو لے کر امریکہ کی توجہ حاصل کرے۔ تاہم کچھ دیگر کے مطابق یہ منصوبہ پاکستان کے لئے انتہائی مثبت ہے۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ ایران پہلے ہی پاکستان کے بارڈر تک پائپ لائن بچھا چکا ہے اور اس حوالے سے گزشتہ کئی مہینوں سے پاکستان کے ساتھ بات چیت چل رہی تھی۔ اب پاکستان کو اپنے بارڈر تک پائپ لائن بچھانی ہے اور اس کا اگلا مرحلہ اس پائپ لائن کو نواب شاہ تک لے کے جانا ہے۔ گو کہ ماضی میں بھی اس طرح کے اعلانات ہوتے رہے ہیں لہٰذا کچھ ناقدین کا خیال ہے کہ پروجیکٹ پر کام اتنا آسان نہیں ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جو بھی حکومت جا رہی ہوتی ہے وہ اس منصوبے پر کچھ اعلان کر دیتی ہے۔ اسی طرح آصف زرداری نے اپنے سابقہ دور حکومت
کے خاتمے سے پہلے اس پر کچھ پیشرفت کی تھی اور پھر کاکڑ کی نگران حکومت بھی یہی اعلان کرتی رہی۔ پچھلے دنوں جب ایران اور پاکستان کے مابین تعلقات کشیدہ ہو گئے تھے تو بھی دونوں اطراف سے اس منصوبے کے مکمل طور پر کھٹائی میں پڑ جانے کے خدشات ظاہر کئے جا رہے تھے۔ اب پھر اس پر بات ہو رہی ہے تو ایک بڑا سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ اس کے لئے پیسہ کہاں سے آئے گا جبکہ پاکستان کو موجودہ مالی سال میں 49ارب ڈالرز قرضوں کی ادائیگی اور دوسری مدوں میں چاہیے۔ اس لئے ہو سکتا ہے کہ پاکستان محض امریکہ کی توجہ حاصل کرنے کے لئے اس پر پیش رفت کی بات کر رہا ہو لیکن یہ خدشہ بھی موجود ہے کہ پاکستان نے اگر اس پر کام کی کوشش کی تو امریکہ سے تعلقات خراب بھی ہو سکتے ہیں البتہ اس کا فائدہ یہ ہو سکتا کہ دونوں ممالک میں کشیدگی بڑھنے سے عوام کی توجہ موجودہ احتجاجی صورتحال سے ہٹ کر اس کشیدگی پر ہو جائے لیکن یہ طے ہے کہ ہماری طرف سے اس معاملے میں سنجیدگی نہیں ہے۔۔ اس سے قبل بھی ایک مرحلے پر بھارت بھی اس میں شمولیت اختیار کرنا چاہتا تھا۔ اسی لئے اسے ماضی میں ایران پاکستان انڈیا پائپ لائن کا نام دیا گیا تھا لیکن بعد میں امریکی دبائو کے پیش نظر بھارت اس سے نکل گیا تھا۔ مارچ 2013ء میں اس پروجیکٹ کا افتتاح کیا گیا تھا۔ اس وقت اس منصوبے کی لاگت تقریباً سات اعشاریہ پانچ بلین ڈالر تھی۔ پاکستان کو جنوری 2015ء تک اپنے حصے کی پائپ لائن بچھانا تھی لیکن فروری 2014ء میں اس وقت کے وزیر پٹرولیم شاہد خاقان عباسی نے ایران پر بین الاقوامی پابندیوں کے باعث اسے ناقابل عمل قرار دے دیا تھا۔تاہم ایران نے اپنے حصے کی 15کلو میٹر لمبی پائپ لائن بچھا دی جبکہ پاکستان کو سات سو اکیاسی کلومیٹر کی پائپ لائن ابھی بچھانا ہے۔ اس حوالے سے ایران نے بین الاقوامی اداروں سے بھی قانونی چارہ جوئی کے لئے رابطہ کیا ہے کیونکہ پاکستان نے مقررہ مدت تک اس منصوبے کو مکمل نہیں کیا ہے اور اس پر ممکنہ طور پر 18ارب ڈالرز کا جرمانہ عائد کیا جا سکتا ہے۔ واضح رہے کہ ایران عالمی پابندیوں کے باوجود اپنی توانائی کی پیداوار کو آگے بڑھانے کی کوشش کرتا رہا ہے جبکہ پاکستان توانائی کے شدید بحران کے باوجود اس منصوبے پر پیش رفت سے گریزاں ہے۔ یہ بھی ذہن نشین رہے کہ گیس کے حوالے سے ایران کے علاوہ اس وقت ہمارے پاس کوئی متبادل نہیں ہے۔ دوسری جانب امریکہ کی طرف سے ایران پر مختلف طرح کی بین الاقوامی پابندیاں ہیں جن کی وجہ سے امریکہ وقتاً فوقتاً پاکستان پر دبائو بھی ڈالتا رہا ہے حالانکہ امریکہ کو اس مسئلے پر کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہیے کیونکہ جہاں جاپان، بھارت اور دنیا کے کئی دوسرے ممالک ایران سے تیل خرید رہے ہیں تو پاکستان ایران سے اپنی معیشت کو بہتر کرنے کے لئے گیس کیوں نہیں لے سکتا۔ کیا پاکستان امریکی خواہشات کے خلاف نہیں جا سکتا۔ ہو سکتا ہے کہ اب پاکستان نے اس مسئلے پر امریکہ اور یورپی یونین کو قائل کیا ہو۔ ممکن ہے کہ اس امر پر بھی بات ہوتی ہو کہ اس میں فنڈنگ چین سے آئے گی لیکن یہ سب باتیں محض خیالی ہیں۔
یاد رہے کہ یہ معاہدہ طے پانے کے وقت اس وقت کے پاکستان کے صدر آصف علی زرداری نے کہا تھا ایران، پاکستان گیس پائپ لائن منصوبہ انتہائی اہم ہے اور بعد ازاں یہ بھی کہا تھا کہ پاکستان، افغانستان، تاجکستان اور بھارت کے درمیان ہونے والے مشترکہ گیس پائپ لائن معاہدے کا اس منصوبے پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ انہوں نے یہ بات استنبول میں ایرانی صدر محمود احمدی نژاد سے ملاقات کے دوران کہی تھی۔ یاد رہے کہ اس معاہدے میں طے کیا گیا تھا کہ یہ منصوبہ چار سال میں مکمل کیا جائے گا اس کے ذریعے پاکستان کو پچیس
سال تک گیس فراہم کی جائے گی اور اس عرصے میں مزید پانچ برس کا اضافہ ہو سکے گا۔ ابتداء میں اس منصوبے کے تحت گیس پائپ لائن کو بھارت تک جانا تھا مگر بھارت بظاہر گیس کی قیمت اور ٹرانزٹ فیس پر تنازع کی وجہ سے اس منصوبے سے علیحدہ ہوگیا تھا۔ امریکی انتباہ کے بعد سے اب تک ایران، پاکستان گیس پائپ لائن منصوبے پر پیش رفت بظاہر تعطل کا شکار ہے اور پاکستان اپنی توانائی کی ضرورت کو پورا کرنے کے لئے متبادل ذرائع تلاش کررہا ہے۔ لیکن اس منصوبے کے معاہدے پر دستخط کے تین ہفتوں بعد ہی پاکستان اور افغانستان کے لئے امریکہ کے سابق خصوصی ایلچی رچرڈ ہالبروک ( جن کا بعد ازاں امریکہ میں انتقال ہوگیا تھا) نے اسلام آباد میں صحافیوں سے بات کرتے پاکستان کو خبردار کیا تھا کہ وہ فی الحال ایران کے ساتھ گیس پائپ لائن منصوبے میں خود کو پابند کرنے سے گریز کرے کیونکہ ایران پر امریکہ کی طرف سے ( اس وقت زیر غور) پابندیاں پاکستانی کمپنیوں کو بھی متاثر کر سکتی ہیں۔ ہم پاکستان کو بھی خبردار کرتے ہیں کہ وہ انتظار کرے اور دیکھے کہ ایران پر پابندیوں کے متعلق یہ قانون کیا کہتا ہے۔ کیونکہ یہ پابندیاں ایران پاکستان گیس پائپ لائن منصوبے کو بھی متاثر کر سکتی ہیں۔ اس امریکی انتباہ کے بعد سے اب تک یہ منصوبہ تعطل کا شکار ہے۔ یاد رہے کہ بعد ازاں ترکمانستان کے دارالحکومت اشک آباد میں پاکستان، بھارت، افغانستان اور ترکمانستان کے درمیان ساڑھے سات ارب ڈالر مالیت کے مشترکہ گیس پائپ لائن منصوبے کا معاہدہ بھی ایسی ہی ایک کوشش تھا مگر جنوبی ایشیا میں اس طرح کے اکثر معاہدے اور منصوبے عالمی اور خطہ کی سیاست کی ہی نذر ہو جاتے ہیں کیونکہ جنوبی ایشیا کے چند ایک ممالک کے علاوہ باقی تقریباً تمام ممالک کے حکمرانوں کو اپنے عوام سے زیادہ اپنے اپنے عالمی آقائوں کی خوشنودی عزیز ہوتی ہے اور وہ ایسے منصوبوں کو تو کھٹائی میں ڈال لیتے ہیں مگر غیر ملکی آقائوں کی ناراضی مول نہیں لیتے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button