Ali HassanColumn

اشرافیہ کا ایچی سن کالج

تحریر : علی حسن
ایچی سن کالج لاہور کے پرنسپل مائیکل اے تھامسن نے احتجاج میں استعفیٰ دے دیا ہے اور سٹاف کو بھی خط کے ذریعے آگاہ کر دیا پرنسپل نے اپنے خط میں کہا ہے کہ گورنر ہائوس کے متعصبانہ اقدامات نے اسکول کی گورننس، نظم و نسق کو خراب کیا ہے ، کچھ لوگوں کو ترجیح دینے کے لیے اسکول کی پالیسی کو نقصان پہنچایا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسکول میں سیاست اور اقربا پروری کی کوئی گنجائش نہیں، یکم اپریل کے بعد مینجمنٹ اور داخلوں کے حوالے سے میں کوئی کردار ادا نہیں کروں گا۔ ایچی سن کالج پنجاب میں اشرفیہ کے بچوں کی تعلیم کے لئے انگریز کے دور میں قائم کیا گیا تھا۔ ہزاروں بچوں نے یہاں سے اپنی تعلیم مکمل کی۔ کالج کو ہمیشہ سے داخلے کے معاملات پر دبائو کا سامنا رہتا ہے لیکن وسائل ہونے کے باوجود حکومت کے کرتا دھرتائوں نے کبھی سنجیدگی سے کالج کا کوئی متبادل تعمیر نہیں کیا۔ تازہ ترین معاملہ اس وقت کھڑا ہوا جب معروف سرکاری ملازم احد چیمہ کو شہباز شریف کے وزارت اعلیٰ کے دور میں قائم کی گئی آشیانہ ہائوسنگ اسکیم کے معاملات پر نیب مین تفتیش کا سامنا رہا جو بعد میں حکومت تبدیل ہونی پر ختم ہو گیا تھا۔ احد چیمہ کی اہلیہ نے جو خود بھی اعلیٰ سرکاری افسر ہیں، نے فیس معافی کے لیے گورنر پنجاب کو درخواست دی تھی۔ گورنر پنجاب محمد بلیغ الرحمٰن کے کہنے پر احد چیمہ کے دونوں بچوں کی تین سال کی فیس معاف کی گئی۔ گورنر پنجاب کے حکمنامے کے مطابق انہوں نے ہمدردانہ غور کرتے ہوئے وفاقی وزیر اقتصادی امور احد چیمہ کے بچوں کی فیس معاف کی، کالج کے پرنسپل نے منظور شدہ چھٹی کے دورانیے کے بعد اسکول میں ملازمت دوبارہ اختیار نہ کرنے کرنے کا فیصلہ کیا اور احد چیمہ کے بچوں کا داخلہ بھی منسوخ کیا تھا۔ پرنسپل نی گورنر کی مداخلت پر احتجاج میں مستعفی ہونے کا فیصلہ کیا۔ گورنر پنجاب نے پرنسپل کے احکامات بھی مسترد کر دئیے تھے۔ ویسے بھی ایچیسن کالج ہو یا کنارڈ کالج یا کوئی اور معروف ادارہ ہو وہاں کی انتظامیہ کو حکمران طبقہ اور اعلیٰ افسران کی جانب سے اکثر مداخلت کی شکایت رہتی ہے۔ صوبہ سندھ میں کیڈٹ کالج پٹارو ہو یا کراچی میں کام کرنے والے عیسائیوں کی نگرانی میں چلنے والے تعلیمی ادارے ہوں، مداخلت کی شکایت عام ہے۔ ایچی سن ہو یا اسی طرح کے دیگر ادارے، وہاں بچوں کو تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت بھی کی جاتی ہے۔ بچوں کو کپڑے پہننے، کھانا کھانے کے آداب تک سکھائے جاتے ہیں۔ مطمع نظر کچھ ہی کیوں نہ ہو، بنیادی مقصد بچوں کو حکمرانی کے لئے تیار کیا جاتا ہے۔ ایسا ہونا تو تمام تعلیمی اداروں میں چاہئے لیکن خصوصی توجہ اشرافیہ کے بچوں پر ہی دی جاتی ہے۔
احد چیمہ کا کہنا ہے کہ ان کے بچوں کیلئے کوئی خصوصی رویہ نہیں رکھا گیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ایچی سن کالج کے تنازع میں سے اگر نکال دیا جائے تو گورنر کے احکامات میں کیا بات غلط ہے۔ کیا گورنر کے احکامات قانون اور انصاف کے مطابق نہیں ہیں، ان کے بچوں کیلئے کوئی خصوصی رویہ نہیں رکھا گیا پالیسی فیصلہ کیا گیا ہے۔ گورنر پنجاب نے سب کیلئے ایک عمومی پالیسی بنائی ہے اس میں کیا حرج ہے، یہ صرف تاثر ہے کہ گورنر کے فیصلے کی وجہ وہ ہیں اور ان کی سرکار ی ملازم اہلیہ ہیں۔ احد چیمہ کا کہنا ہے کہ انہوں نے 2022ء میں پرنسپل کو درخواست دی کہ ان کا تبادلہ ہوگیا ہے۔ بچوں کو منتقل کرنے کے لئے بچوں کو چھٹی دے دیں۔ پرنسپل کا موقف تھا کہ ہم چھٹی دیں گے مگر آپ کو پوری فیس دینا ہوگی۔ میری اہلیہ نے جواب میں کہا کہ دونوں جگہ پر پوری فیس دینا مشکل کام ہے آپ اپنی پالیسی پر نظرثانی کریں، پرنسپل نے اس بات سے اتفاق نہیں کیا۔ میری اہلیہ نے گورنر کو درخواست دی تو انہوں نے معاملہ بورڈ کو بھیج دیا۔ اس بور ڈ نے 2023ء میں فیس معاف کرنے کی درخواست کو سپورٹ کیا، اس بورڈ پر اگر میرا اثر و رسوخ کسی کے علم میں ہے تو مجھے بتادے، پرنسپل نے بورڈ کے فیصلے کے باوجود ہمارے بچوں کے داخلی منسوخ کر دیئے، ہم نے دوبارہ درخواست دی تو پرنسپل نے گورنر کو ریکارڈ فراہم کرنے سے منع کردیا۔ پرنسپل ایچی سن کالج نے احتجاجاً پاکستان سے واپس جانے کا اعلان کر دیا۔ پرنسپل نے کالج کے بورڈ آف گورنرز کو لکھے گئے خط میں کہا کہ گورنر ہائوس کے متعصبانہ اقدامات نے اسکول کی گورننس اور نظم و نسق کو خراب کیا، کچھ لوگوں کو ترجیح دینے کے لیے اسکول کی پالیسی کو نقصان پہنچایا گیا۔ اسکول میں سیاست اور اقربا پروری کی کوئی گنجائش نہیں، یکم اپریل کے بعد مینجمنٹ اور داخلوں میں کوئی کردار ادا نہیں کریں گے۔ کہا جاتا ہے کہ گورنر ہائوس کے فیصلوں نے انتظامی امور میں خرابی پیدا کی ہیں۔
مینجمنٹ کمیٹی کے سینئر ممبر ملک کے ممتاز صنعتکار سید بابر علی بھی مستعفی ہو گئے ہیں۔ گورنر پنجاب محمد بلیغ الرحمن نے کہا ہے کہ پرنسپل ایچی سن کالج دو مرتبہ استعفے کی درخواست دے چکے تھے ، بورڈ نے نئی پرنسپل کی تعیناتی نہ ہونے کی وجہ سے استعفیٰ قبول نہیں کیا تھا، پرنسپل ایچی سن کالج 40لاکھ روپے تنخواہ وصول کر رہے تھے ،40لاکھ روپے تنخواہ وصول کرنے کا آڈٹ شروع کر دیا گیا ہے، پرنسپل کالج
ایک سال میں 100سے زائد چھٹیاں کرتے تھے، انکوائریز سے بچنے کے لئے پرنسپل نے یہ حربہ اپنایا ہے۔ اگر پرنسپل صاحب چالیس لاکھ روپے تنخواہ وصول کر رہے تھے تو ان کی تنخواہ تو طے شدہ قواعد و ضوابط کے تحت ہی ہوگی، اگر ایک سال میں چالیس سے زائد چھٹیاں کر رہے تھے تو کیا انہیں ان دونوں مبینہ الزامات کے حوالے سے نوٹس دیئے گئے تھے؟ صائب مشورہ دینے والے کہتے ہیں کہ کیا ہی اچھا ہوتا کہ اگر پرنسپل صاحب پر اس طرح کے الزامات عائد کرنے کے بجائے بلیغ الرحمان حکومتی اور وزارتی دبائو کے زیر اثر آنے کے بجائے خود بھی پرنسپل مائیکل تھامسن کی تقلید کرتے ہوئے ایک نئی مثال قائم کر دیتے۔ واضح رہے کہ مائیکل تھامسن کی جانب سے اپنی ذمہ داریوں سے مستعفی ہونے کا یہ پہلا واقعہ نہیں ہے اس سے قبل بھی وہ 2018میں کالج میں ڈسپلن کی خلاف ورزی کے مرتکب طلبہ کو کالج سے نکالنے پر انہیں بحال کرنے کی سفارشوں اور دبائو کو تسلیم نہ کرنے استعفیٰ دیا تھا تاہم بعد میں گورنر اور صوبائی وزرا کی مداخلت کے بعد انہیں استعفیٰ واپس لینا پڑا۔ دریں اثناء بعض حلقوں کا یہ کہنا ہے کہ ایچی سن کالج میں داخلہ ذہانت کی بنیاد پر نہیں بلکہ امارت اور اثر و رسوخ کی بنیاد پر ملتا ہے۔ کالج میں ایک طالبعلم کے اخراجات ماہانہ بشمول فیس ایک لاکھ روپے سے زیادہ ہے۔ کالج میں ہزاروں بچے تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ ادھر وفاقی وزیراطلاعات عطاء اللہ تارڑ کا کہنا ہے کہ پرنسپل ایچی سن کالج کے استعفے کے معاملے کو غلط رنگ دیا جارہا ہے، یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ وفاقی وزیر اطلاعات عطاء اللہ تارڑ نے وفاقی حکومت کی جانب سے پرنسپل ایچی سن کالج مائیکل اے تھامسن سے رابطہ کیا ہے۔ ذرائع کے مطابق عطاء تارڑ نے پرنسپل سے استعفیٰ واپس لینے کی درخواست اور معاملے کو خوش اسلوبی سے حل کرنے کے حوالے سے بات چیت بھی کی ہے۔ گورنر ہائوس سیکرٹریٹ کا موقف ہے کہ جس ادارے میں چار ہزار بچے تعلیم حاصل کرتے ہوں وہاں چند طلبا ء کی فیس معاف کرنے سے اسکول کو مالی نقصان نہیں ہوگا۔ پرنسپل تھامسن مائیکل نے اپنے خط میں ادارے کے اسکولوں میں اقربا پروری اور سیاست کے حوالے سے اشارہ کرتے ہوئے یہ بھی لکھا تھا کہ بورڈ کی سطح پر جو کچھ ہو رہا ہے وہ سب کو معلوم ہے میں نے کالج کی شہرت کی حفاظت کیلئے بھرپور کوششیں کی ہیں لیکن چند افراد کی خاطر پالیسیوں میں تباہ کن تبدیلیاں لائی گئیں اور گورنر ہائوس کے جانبدارانہ اقدامات کے باعث گورنس کا نظام تباہ ہوگیا اور اس انتہائی بری گورنس کی وجہ سے میرے پاس استعفیٰ دینے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button