Column

23مارچ کی جھلکیاں اور سرفراز بگٹی کی مفاہمتی کوششیں

تحریر :طارق خان ترین
ملک کے دیگر حصوں کی طرح بلوچستان میں بھی یوم پاکستان جوش و خروش سے منایا گیا۔ گلی گلی کوچے بازاروں میں رمضان المبارک کے روزوں کے باوجود بلوچستان کے باسیوں نے یوم پاکستان کو انتہائی جوش و جذبے کے ساتھ منایا۔ صوبے کے مختلف اضلاع میں سرکاری، غیر سرکاری، سیاسی اور سماجی تنظیموں کے ساتھ ساتھ سکول کالجز اور یونیورسٹیوں کی جانب سے بھی مختلف سیمینار، ریلیوں اور جلسوں کا انعقاد کیا گیا۔ ان پروگراموں کے توسط سے اقوام عالم کو پیغام دیا گیا کہ صوبہ بلوچستان اور اس کے عوام اپنے وطن کے ساتھ محبت سے سرشار ہیں جو وطن عزیز کی تعمیر و ترقی ہمہ وقت برسر پیکار رہتے ہیں۔
23مارچ کے تاریخی پہلو پر اگر بات کی جائے تو یہ دن پاکستان کے لئے انتہائی اہمیت کا حامل دن ہے۔ اس دن یعنی 23 مارچ 1940ء کو قرارداد پاکستان، جسے قرارداد لاہور بھی کہا گیا تھا، پیش کی گئی تھی۔ قرارداد پاکستان جس کی بنیاد پر مسلم لیگ نے برصغیر میں مسلمانوں کے جدا گانہ وطن کے حصول کے لیے تحریک شروع کی تھی اور سات برس کے بعد اپنا مطالبہ منظور کرانے میں کامیاب رہی۔ وہ مطالبہ جو اسلامی جمہوریہ پاکستان کے نام سے دنیا کے نقشے پر ابھرا کر سامنے آیا۔ اس دن 23مارچ کو پورے پاکستان میں عام تعطیل ہوتی ہے۔ مورخہ 23مارچ کو ہم یوم قرارداد پاکستان مناتے ہیں جو مسلم لیگ کے لاہور جلسے میں 1940ء میں پیش ہوئی تھی اسی وجہ سے اس دن کو یوم قرارداد پاکستان کے طور منایا جانے لگا۔ پاکستان میں آئین سازی کا عمل 1956ء میں مکمل ہوا، وزیرِ اعظم چودھری محمد علی نے گورنر جنرل سے آئین کی باقاعدہ منظوری کے لیے تاریخ مانگی، گورنر جنرل نے 23مارچ کا دن چنا، 1940ء سے لے کر 1947ء تک اور آزادی کے بعد بھی 23یا 24مارچ کا دن سرکاری طور پر منایا نہیں جاتا تھا اور نہ ہی تعلیمی اداروں اور سرکاری دفاتر میں تعطیل ہوا کرتی تھی۔ گورنر جنرل کی جانب سے 23مارچ کا دن اتفاقاً چُنا گیا، اس دن کے چنے جانے پر وفاقی کابینہ کا اجلاس ہوا اور اسے یومِ جمہوریہ یا ری پیلک ڈے کے طور پر منانے کا فیصلہ کیا گیا، کابینہ کے اجلاس میں اس روز کے فیصلوں میں قراردادِ لاہور یا قراردادِ پاکستان کا ذکر نہ تھا۔ 1956ء کے بعد 1957ء اور 1958ء کو بھی 23مارچ یومِ جمہوریہ کے طور پر منایا گیا، جب اکتوبر 1958ء کے مارشل لا کے بعد آئندہ برس کا 23مارچ کا دن نزدیک آنے لگا، تو کابینہ نے فیصلہ کیا کہ اس دن کو یومِ جمہوریہ کی بجائے یومِ پاکستان کے طور پر منایا جائے گا، یہ وقتی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ مارشل لا کے نفاذ کے بعد 1956ء کا آئین منسوخ ہو چکا تھا اور نئے آئین کے مسودے پر کام جاری تھا۔ ان دنوں 14اگست یومِ پاکستان کے طور پر منایا جاتا تھا، فیصلہ ہوا کہ 23مارچ کو یومِ پاکستان اور 14 اگست کو یومِ آزادی کے عنوان سے موسوم کیا جائے، گو چند سال کے بعد مارشل لا اٹھا لیا گیا جبکہ 1962ء اور بعد ازاں 1973ء کے آئینِ پاکستان کے تحت پاکستان جمہوریہ رہا، مگر 23مارچ کا دن یومِِ جمہوریہ کی بجائے یومِ پاکستان کے طور پر منایا جاتا رہا اور تب سے لیکر آج تک یوم
پاکستان تسلسل کے ساتھ 23مارچ کو منایا جاتا ہے۔یوم پاکستان کو منانے کے لیے ہر سال 23مارچ کو خصوصی تقریب کا اہتمام کیا جاتا ہے جس میں پاکستان مسلح افواج پریڈ بھی کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ مختلف ریاستی اثاثوں اور مختلف اشیاء کا نمائش کیا جاتا ہے۔ اس موقع پر ملک بھر سے لوگ فوجی پریڈ کو دیکھنے کے لیے اکھٹے ہوتے ہیں۔2008ئ کے بعد سیکیورٹی خدشات اور ملک کو درپیش مسائل کے باعث پریڈ کا اہتمام نہیں کیا گیا تھا۔ لیکن 23 مارچ 2015ئ سے یہ سلسلہ پھر سے شروع ہوتا ہے جنہیں دیکھنے کے لئے لوگ انتہائی جوش و جذبے کے ساتھ دیکھنے آتے ہے۔ عمومی طور پر 23مارچ کی تقریب میں مہمان خصوصی صدر پاکستان ہی ہوتا ہے لیکن اس کے علاوہ دوسرے ممالک سے بھی مہمانوں کو مدعو کیا جاتا ہے۔
سنہ 1957میں شہدا اور قومی خدمات کے اعتراف میں فوجی افسران اور دیگر مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے افراد میں سرکاری اعلیٰ اعزاز نوازی کا سلسلہ شروع ہوا جو تاحال جاری ہے۔ پاکستان کا سب سے بڑا قومی اعزاز نشان حیدر کیپٹن محمد سرور شہید کو عطا کیا گیا جبکہ ہلا ل جرات پانے والوں میں کمانڈر انچیف جنرل محمد ایوب خان، میجر جنرل ضیا الدین، میجر جنرل شیر علی خان، بریگیڈئیر محمد اسلم خان اور کیپٹن ظفر اقبال مرحوم شامل تھے۔ اس کے علاوہ ستارہ جرات، تمغہ جرات اور امتیازی سند کے اعزازات بری، بحری اور فضائی افسروں اور جوانوں کو عطا کئے گئے تھے۔ صدر پاکستان نے پولیس کے جوانوں میں بھی بہادری کی اعلیٰ خدمات پر اعزازی انعام کا اعلان کیا تھا۔
یوم پاکستان 2024کی مرکزی تقریب پریڈ گرائونڈ اسلام آباد میں منعقد کی گئی، جہاں دن کا آغاز 31توپوں کی سلامی شروع ہوا جبکہ ملک کے دیگر صوبوں میں 21توپوں کی سلامی سے شروع ہوا۔ مرکزی تقریب سے صدر پاکستان آصف علی زرداری نے اپنے خطاب میں کہا کہ کہ پاکستان ایک ذمہ دار جوہری ریاست اور امن سے محبت کرنے والا ملک ہے تاہم اپنی خود مختاری پر کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے اور نہ ہی پاکستان کو غیر مستحکم کرنے والے کسی دہشتگرد گروپ کو برداشت کریں گے ، یوم پاکستان کے موقع پر ہم یہ عہد کرتے ہیں کہ پاکستان کی تعمیر ، ترقی اور سلامتی کو اپنی جان سے زیادہ عزیز رکھیں گے، مشکلات کے باوجود پاکستان نے دفاع، صنعت ، زراعت ، تعلیم، صحت اور ٹیکنالوجی سمیت مختلف شعبوں میں ترقی کی منازل طے کیں، ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ ملک کو درپیش مسائل سے نکالنے اور معاشی استحکام کیلئے یکسوئی سے کام کریں، پاکستان کی بہادر مسلح افواج دفاع وطن کیلئے ہمہ وقت تیار ہیں، اقوام متحدہ مقبوضہ جموں و کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالیوں کا نوٹس لے، غزہ میں جاری تشدد اور فلسطینیوں کی نسل کشی پر گہری تشویش ہے۔ اس موقع پر وزیراعظم محمد شہباز شریف، تینوں سروسز چیف ، غیر ملکی سفیروں، وفاقی کابینہ کے اراکین اور سول و فوجی حکام نے بڑی تعداد میں پریڈ دیکھی۔ پاک فوج اور پیرا ملٹری فورسز کے چاق و چوبند دستوں نے مہمانوں کو سلامی دی۔
بلوچستان میں اس دن کو منائے جانے کو خصوصی حیثیت اس لئے حاصل ہے کہ یہاں پر سیاستدانوں نے ہمیشہ سے کبھی لاپتہ افراد پر تو کبھی مایوسیوں، یا پھر  احساس محرومیت کا بہانہ بناکر اس پر پروپیگنڈوں کو
پروان چڑھانے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ جس سے بلوچستان کو نا صرف قومی اعتبار سے بلکہ بین الاقوامی اعتبار سے بھی نا قابل تلافی نقصان کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ جہاں قوم پرست سیاستدانوں نی روز اول سے بلوچستان کے جوانوں کو ملک اور ریاست سے متنفر کرنے کی کوششوں میں ہو وہاں اس بات کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ کیونکر بلوچستان میں یوم پاکستان کا منایا جانا ملک کے باقی حصوں سے زیادہ اہم ہے۔ قوم پرست سیاستدانوں کے مسلسل کوششوں کے باوجود نوجوانوں کا اپنے ملک کے ساتھ والہانہ محبت کا اظہار اس بات کا ثبوت ہے کہ بلوچستان کے نوجوان اپنے ملک کے ساتھ ساتھ اس ملک کی تعمیر و ترقی سے کتنا لگائو ہے۔ بلوچستان میں 23مارچ کا آغاز 21توپوں کی سلامی سے ہوا۔ کوئٹہ، ضلع پشین، چمن، لورلائی، ژوب، گوادر، ہرنائی، تربت، کیچ کے ساتھ ساتھ صوبے کے دیگر حصوں میں بھی ریلیوں اور سیمینار کا انعقاد کیا گیا۔ جس میں عوام نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ وزیر اعلیٰ بلوچستان نے بلوچستان یونیورسٹی آف انفارمیشن ٹیکنالوجی انجینئرنگ اینڈ مینجمنٹ سائنسز میں منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ کسی کو بھی اس بات کی اجازت نہیں دی جاسکتی کہ اپنے مفادات کی تکمیل کے لئے مذہب یا پھر کلچر کا استعمال کرے۔ انہوں قومی دھارے میں شامل ہونے والوں کو خوش آمدید کہتے ہوئے کہا ملک کے ساتھ جو بھی وفا کرینگے انہیں سر آنکھوں پر رکھیں گے۔ میر سرفراز بگٹی نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے مزید کہا حکومت کی جانب سے ان لوگوں کو ہر طرح کی سپورٹ حاصل ہوگی جو امن کے لئے قومی دھارے میں شامل ہونا چاہئیں گے۔ ملک میں جاری حقائق کو مسخ کیا جارہا ہے، ملک مخالف عناصر چیدہ مسائل پر ملک مخالف خود ساختہ کہانیاں گھڑتے ہیں جن کا تدارک کرنا حکومت کی ذمہ داریوں میں سے ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button