Columnمحمد مبشر انوار

ارتقاء و بقاء

محمد مبشرانوار( ریاض)
8فروری کا انتخابی معرکہ بپا ہوئے تقریبا ایک ہفتہ گزر چکا، انتخابی میدان میں اترنے والے اور پس پردہ سب کھلاڑی ششدر ہیں کہ ان نتائج کی توقع تو کسی کو بھی نہیں تھی، اتنے منقسم نتائج کہ حکومت بنانا مسئلہ فیثا غورث بن چکا ہے، تاحال تحریک انصاف کا دعوی ہے کہ اس کی تقریبا 80نشستیں چرائی گئی ہیں،مکمل نتائج کب تک آئیں اور اس وقت تک کیا ہو چکا ہو،کچھ نہیں کہا جا سکتا۔البتہ دوصوبوں ،سندھ اور کے پی میں مینڈیٹ حسب سابق،حسب توقع واضح ہے جبکہ بلوچستان اور پنجاب میں مینڈیٹ منقسم ہے،اس میںبلوچستان کا مینڈیٹ پھرماضی کی طرح رہا ہے اور اتحادیوں کی حکومت ہی معرض وجود میں آتی نظر آ رہی ہے،تاہم پنجاب میں اس مرتبہ نتائج بہت مختلف ہیں۔ انتخابات سے قبل ایسا تاثر بنایا گیا تھا کہ جیسے مسلم لیگ ن واحد سیاسی جماعت ہو گی جو تن تنہا مرکز میں حکومت سازی کرے گی اور نواز شریف چوتھی مرتبہ وزارت عظمیٰ کا تاج اپنے سر پر سجاتے ہوئے نئی ملکی تاریخ رقم کریں گے لیکن انتخابی نتائج نے یہ خواب پورا نہیں ہونے دیا اور اس وقت صرف تحریک انصاف نہیں بلکہ کئی دیگر سیاسی جماعتیں بھی یہی واویلا کرتی دکھائی دے رہی ہیں کہ انتخابات منصفانہ و شفاف نہیں ہوئے،حتی کہ فضل الرحمن بھی ان نتائج پر شاکی دکھائی دے رہے ہیں اور اعلان کر چکے ہیں کہ وہ انتخابی نتائج کے خلاف میدان میں اتریں گے۔ حیرت تو اس وقت ہوئی جب دیگر جماعتوں کے کامیاب امیدواران نے اپنی کامیابی کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا اور دھاندلی زدہ نشست کو تحریک انصاف کے امیدوار کی کامیابی قرار دیتے ہوئے، نشست واپس دینے کا اعلان کر دیا، ویسے حیرت اس پر بھی ہوئی کہ فقط اعلان سے نشست واپس تحریک انصاف کو کیسے ملے گی؟ جبکہ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ الیکشن کمیشن ،متنازعہ نشستوں کے فیصلے دھڑا دھڑ مسلم لیگ ن کے حق میں کر رہا ہے تا کہ وفاق میں مسلم لیگ ن کی پوزیشن مضبوط ہو جائے،ممکن ہے کہ الیکشن کمیشن کے فیصلے ٹھیک ہوں لیکن ان فیصلوں کے خلاف متاثرہ فریق اعلی عدالتوں میں بھی جا رہے ہیں تا کہ اپنا حق وصول کر سکیں،لہذا جب تک حتمی فیصلہ نہیں آ جاتا،یہ کہنا قبل ازوقت ہو گا کہ کون سچا ہے اور کون جھوٹا،البتہ الیکشن کمیشن کے قبل از انتخابات اور بعد از انتخابات اقدامات اس کے جانبدارانہ ہونے پر مہر تصدیق ثبت کرتے دکھائی دیتے ہیں۔وفاق میں حکومت سازی کس طرح ہو رہی ہے،اور اس سے کون مستفید ہو گا،بظاہر یہی دکھائی دے رہا ہے کہ پیپلزپارٹی ،مسلم لیگ ن کو لحد تک چھوڑنے کے لئے ہر حربہ استعمال کرے گی،جو فارمولا اقتدار کے لئے منظر عام پر آرہا ہے،اس میں مسلم لیگ ن سراسر نقصان میں دکھائی دے رہی ہے تاہم مسلم لیگ ن کے زعماء اس صورتحال میں کیوں حکومت لینا چاہ رہے ہیں،اس کے متعلق وہی بہتر بتا سکتے ہیںکہ حکومت کی ساری بالائی بہر کیف پیپلز پارٹی کی پلیٹ میں جاتی نظر آرہی ہے۔یوں زرداری شریف خاندان سے حساب انتہائی چالاکی سے پورا کرتے دکھائی دے رہے ہیں کہ اگر پیپلز پارٹی کے لئے پنجاب میں جگہ نہیں رہے گی تو اس کا سبب بننے والے شریف خاندان کو بھی پنجاب سے فارغ کردیا جائے،اس کے بدلے خواہ عمران خان یا کوئی اور اقتدار میںآ جائے کہ وہ شریف خاندان سے بہرطور کم منتقم مزاج ہو گا۔دوسری طرف ایک خوشگوار حیرت کا سامنا ہو رہا ہے کہ عمران خان ایک عرصہ تک جمعیت العلماء اسلام اور فضل الرحمن پر الزامات لگاتے رہے،ان جماعتوں اور پرانی سیاسی قیادت سے بوجوہ مذاکرات کرنے سے انکار کرتے رہے لیکن آج کی خبر یہ ہے کہ عمران خان اور تحریک انصاف ان سیاسی جماعتوں کے ساتھ مل بیٹھنے کے لئے تیار ہے۔کسی بھی سیاسی رہنما کو مذاکرات کے لئے اپنے دروازے بند نہیں کرنے چاہئے اور میز پر بیٹھ کر اپنے تحفظات و اختلافات کو دلائل کے ساتھ سامنے رکھتے ہوئے،ملک و قوم کے مسائل کا حل نکالنا چاہئے،یہ سوچ عمران خان کو بہت پہلے اپنا لینی چاہئے تھی،تاہم اب بھی دیر نہیں ہوئی اور معاملات بہتری ،برداشت اور رواداری کی طرف جانے چاہئے۔یہاں یہ امر برمحل ہے کہ جب عمران خان برسراقتدار تھے تو محاسبہ کا نعرہ لگاتے ہوئے،انہیں بطور وزیراعظم ایسے بیانات دینے سے گریز کرنا چاہئے تھا،جس سے یہ تاثر ابھرتا کہ عمران خان ذاتی طور پر احتساب کے سارے عمل میں شریک ہیں،صرف عمران خان ہی نہیں بلکہ ہر سیاسی قیادت کو اسی روئیی کا مظاہرہ کرنا چاہئے۔بدقسمتی یہ ہے کہ مسلم لیگ ن کا ماضی و حال اس معاملے میں اتنا تابناک نہیں کہ ریاستی مشینری کو ذاتی غلاموں کی فوج بنانے اور مخالفین پر مقدمات قائم کرنے کی ریت کا سہرا بہرطور مسلم لیگ ن کے سر ہی سجتا ہے،وہ خواہ بے نظیر بھٹو ہوں،آصف علی زرداری ہوں یا پھر عمران خان،ان سب کے پس پردہ شریف خاندان ہی دکھائی دیتا ہے۔ایام اسیری کا موازنہ بھی کیا جائے تو واضح ہے کہ موروثی سیاستدانوں کی اسیری اور عمران خان کی اسیری میں زمین آسمان کا فرق ہے کہ اطلاعات کے مطابق ریاستی مشینری کسی بھی طور عمران خان کو وہ سہولتیں فراہم نہیں کر رہی جو دیگر سیاسی زعماء کو دی جاتی ہیں۔
بہرحال موجودہ انتخابات نے مسلم لیگ ن کی پنجاب میں واضح برتری کا مفروضہ بھی پاش پاش کردیا ہے کہ جاگ پنجابی جاگ کے نعرے سے شروع ہونے والی اس برتری کا انجام یہی ہونا تھا کہ بے نظیر بھٹو کو پنجاب سے بے دخل کرنے کے لئے جو کچھ کیا گیا،جیسے کیا گیا،وہ سب تاریخ کا بدنما داغ ہے،جس میں مسلم لیگ ن کا بڑا حصہ ہے۔پنجاب نے اس مرتبہ جو مینڈیٹ دیا ہے،وہ حیران کن ہے اور حقیقت میں مسلم لیگ ن کی عوامی پذیرائی کی صحیح عکاسی کر رہا ہے، ماضی میںمسلم لیگ ن دھاندلی کے تمام حربے کامیابی سے چلاتی رہی اور پنجاب پر قابض رہی لیکن اس مرتبہ ووٹرز کا رجحان انتہائی مختلف نظر آیا ،امیدواران کے منظر عام پر نہ ہونے کے باوجود،جس طرح ووٹرز نے تحریک انصاف کے امیدواران کو ووٹ دیا ہے،اس سے پس پردہ کھلاڑیوں کی آنکھیں بھی کھل چکی ہوںگی۔اس مرتبہ ووٹرنے صرف ووٹ نہیں دیا بلکہ ووٹ کی حفاظت کرنے کا بیڑہ بھی اٹھا لیا ہے اور عمران خان کے نام پر دئیے گئے ووٹ میں بے ایمانی کرنے کی اجازت نہیں دے رہا،لاہور سے عمران خان کے نام پر ووٹ لینے والے ایک کامیاب امیدوار کے ساتھ جو سلوک ووٹرز کر رہے ہیں،اس نے یقینی طور پر دوسرے امیدواران کے کان کھڑے کر دئیے ہیں اور وہ لالچ،دھونس،جبر میں آتے دکھائی نہیں دیتے۔یہ اتنی بڑی تبدیلی ہے کہ جس کا تصور تک بھی کسی سیاسی پنڈت کے وہم وگماںمیں نہ تھا،ان کے نزدیک وہ ماضی کی طرح کامیاب امیدواران کو اپنے نشیمن میں داخل کروا کرووٹ کی عزت کر لیتے لیکن اب مزید ایسا ہونا ممکن دکھائی نہیں دے رہا۔بالفرض ہواؤں کا رخ بدل جاتا ہے اور عمران خان ایک حقیقی سیاسی قائد کے طور پر سامنے آتا ہے کہ جس میں وہ سب سےمل بیٹھ کر ،اپنے تحفظات اور حقوق پر سمجھوتہ کئے بغیر کوئی حل نکال لیتا ہے تو یہ یقینی طور پر عوام کی جیت ہی ہوگی لیکن کیا ایسا ہونا ممکن ہے؟بہرحال اب تک کے آثار یہی دکھائی دے رہے ہیں کہ مسلم لیگ ن ایک بار پھر اپنی سیاست کا محورومرکز پنجاب کو بنانے جار ہی ہے اور اس ضمن میں مسلم لیگ ن پنجاب میں حکومت بنانے کے لئے اکثریت حاصل کر چکی ہے،لہذا یہاں مریم نواز کو بطور وزیراعلی پنجاب ریاستی مشینری اسی طرح پروٹوکول بھی دے رہی ہے۔یوں اگلی معرکہ آرائی پنجاب کے ایوانوں میں ہوتی نظر آ رہی ہے اور تحریک انصاف ایک طرف ایوان کے اندر مریم نواز کے لئے مشکلات کھڑی کرے گی تو دوسری طرف عوام میں اس کا مظاہرہ دیکھنے کو ملے گا۔ سوال یہ ہے کہ کیا مریم نواز کی وزارت اعلی میں،عدم تشدد ،رواداری و برداشت کے ساتھ سیاسی معاملات طے ہو سکیں گے؟کیا سیاسی مخالفین کو انتقامی کارروائیوں سے دبانے کی کوشش نہیں ہو گی؟بظاہر اس کا امکان کم دکھائی دیتا ہے لیکن کون جانے کہ کل کیا ہوگا اور حالات کس کروٹ بیٹھتے ہیں لیکن ایک حقیقت واضح ہے کہ اب مسلم لیگ ن کے لئے پنجاب ذاتی جاگیر دکھائی نہیں دیتی اور پنجاب کو دوبارہ اپنا بنانے کے لئے سرتوڑ محنت کرنے کی ضرورت ہوگی تو دوسری طرف تحریک انصاف کی مقبولیت اسے بڑھانے کے لئے مزید اکسائے گی،یوں پنجاب میں ایک طرف پیپلز پارٹی اپنے قدم جمانے کے لئے روبہ عمل دکھائی دے گی تو دوسری طرف تحریک انصاف اپنی مقبولیت کو ہر صورت مستحکم اور بڑھانے کی سعی کرتی دکھائی دے گی اور تیسری طرف مسلم لیگ ن اپنے دوبارہ ارتقاء و بقاء کا سفر طے کرے گی ،دیکھنا یہ ہے کہ اس ارتقاء و بقاء کی کشمکش میںمسلم لیگ ن کامیاب ہوتی ہے یا نہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button