CM RizwanColumn

مہنگائی نہیں ٹلے گی

سی ایم رضوان
بلاشبہ ملک گیر پٹ سیاپا ہی سہی، چاہے پورا ملک احتجاج کر رہا ہو، بیشک مخلوط اور کمزور ہی سہی مگر پھر بھی نئی حکومت بنے گی بھی اور چلے گی بھی چاہے عوام کی اس سے بھی زیادہ چیخیں نکلیں۔ نئی حکومت کے لئے پہلا امتحان آئی ایم ایف کا آئے گا کیونکہ مارچ میں پروگرام ختم ہو رہا ہے اور فوراً نئے آئی ایم ایف پروگرام میں جانا ہو گا اگر یہ کہا جائے کہ اس پروگرام کے لئے ہی نئی حکومت تشکیل دی جا رہی ہے تو بے جا نہ ہو گا۔ چند ہفتے قبل جو لوگ شدت سے انتخابات ہونے کے منتظر تھے تاکہ عوامی مینڈیٹ رکھنے والی حکومت آئے اور عام آدمی سمیت کاروباری طبقے کے بھی مسائل حل ہو سکیں۔ ان میں اکثریت کی امیدیں تو اس الیکشن کے نتائج نے ہی بجھا دی ہیں اور جو ابھی بھی خوش فہم ہیں وہ نئی حکومت کی تشکیل اور اس کی پہلے تین ماہ میں ہونے والی معاشی اور سیاسی ناکامیوں سے یکسر مایوس ہو جائیں گے۔ ویسے تو اب بھی پاکستان کے بہت سے بزنس ٹائیکونز نے اپنا کاروبار جزوی یا مکمل طور پر دبئی اور دیگر بیرونی ممالک میں منتقل کر لیا ہے جس سے ملک مناسب آمدنی اور ملازمتوں سے محروم ہوتا جا رہا ہے۔ ان حالات میں جو لوگ منتظر ہیں کہ نئی حکومت اس مسئلے کے حل کے لئے کوئی کوشش کرے گی ان کو خاطر جمع رکھنی چاہیے کہ آنے والی حکومت بھی ماضی کی طرح گروہی مفادات کی سیاست ہی کرے گی اور جس طرح سے موجودہ حکومت نے بجلی اور گیس کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ کر دیا ہے اور جاتے جاتے بھی گیس 67فیصد تک مہنگی کر دی ہے۔ ان حالات میں انڈسٹری چلانا تو درکنار گھروں میں گیس کے چولہے پر دو وقت کی روٹی پکانا ناممکن ہو گیا ہے۔ ان حالات میں نئی حکومت کامیاب اس وقت مانی جائے گی جب وہ عوام کو مہنگائی سے جڑے مسائل سے نکالے گی۔ ایک اور فضول قسم کا مفروضہ پی ٹی آئی کے حمایتی میڈیا نے یہ عام کر رکھا ہے کہ اگر ایسی پارٹی کی حکومت بنے گی جس کے پاس عوامی مینڈیٹ سب سے زیادہ ہے تو یقیناً تاجر برادری کی امنگوں کے مطابق پالیسیاں بنائے گی جبکہ دوسری طرف سیکڑوں جعلی فارم 45تیار کر کے زیادہ مینڈیٹ کا دعویٰ کر کے ملک کو احتجاج کی آگ میں جھونک دیا گیا ہے۔ اس طرح کے سازشی مسائل سے ہٹ کر اصولی طور پر اس مسئلہ پر توجہ ضروری ہے کہ آئی ایم ایف کا اگلا پروگرام متوقع طور پر پہلے سے بڑا ہو گا کیونکہ آئندہ جون میں پاکستان کو 25ارب ڈالر کے قرض ادا کرنے ہیں اور آئی ایم ایف کی سپورٹ کے بغیر ان کی ادائیگی مشکل ہو سکتی ہے۔ خاص طور پر اس مرحلے پر جبکہ دنیا میں پالیسی ریٹ نیچے آ رہا ہے لیکن پاکستان میں یہ ابھی تک بلند ترین سطح پر ہے لہٰذا جب تک ملک میں مہنگائی کم نہیں ہو گی اور آئی ایم ایف پالیسی ریٹ نیچے آنے نہیں دے گا۔ مہنگائی کم کرنے کے لئے بجلی اور گیس کی قیمتوں میں بھی کمی لانا ہو گی جبکہ بجلی اور گیس کی قیمتیں نیچے لانے کے لئے ضروری ہے کہ توانائی کے شعبے میں چوری کو روکا جائے۔ اس وقت بجلی کی تقسیم کار کمپنیاں تقریباً 580ارب روپے کا سالانہ نقصان کر رہی ہیں۔ گیس فراہم کرنے والی دونوں کمپنیاں تکنیکی طور پر ڈیفالٹ ہیں۔ تقریباً 20فیصد گیس چوری ہوتی ہے جس پر قابو نہیں پایا جا رہا۔ نئی حکومت کے لئے ان مسائل سے نکلنا مشکل ہے۔ بجلی گیس کی قیمتیں بڑھانا کوئی حل نہیں ہے۔ پچھلے 10سالوں سے قیمتیں بڑھائی جا رہی ہیں لیکن نقصان کم ہونے کی بجائے بڑھ رہا ہے۔ ایک بہترین حل پرائیویٹائزیشن ہے۔ اس سے بجلی گیس کے ریٹس بھی نیچے آ سکتے ہیں اور گردشی قرضوں کا بوجھ بھی کم ہو سکتا ہے اور نئی بننے والی حکومت کے لئے یہ فیصلے مشکل تر ہیں۔ پی آئی اے سمیت دیگر نقصان میں چلنے والے ادارے بھی پرائیویٹائز کرنے سے نئی حکومت کے مسائل کم ہوں گے۔ اس وقت پی آئی اے کی پرائیویٹائزیشن دو کمپنیوں میں تقسیم کر کے ہو رہی ہے۔ گو کہ اس طریقہ کار سے پی آئی اے کے 250ارب روپے کے قرضے حکومت کو ادا کرنا ہوں گے لیکن پی آئی اے کو پرائیویٹائز کرنے کا اس سے بہتر طریقہ موجود نہیں ہے۔ اب امید ہے کہ نئی حکومت اس معاملے کو بہتر انداز میں لے کر چلے گی کیونکہ یہ معاملہ آئی ایس ایف سی کے سامنے بھی ہے۔
نئی حکومت کی معاشی پالیسیز کے حوالے سے کم از کم اس نقطہ نظر سے زیادہ فکر کی ضرورت نہیں کیونکہ ملک کو معاشی طور پر سنبھالنے کے لئے خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل ( ایس آئی ایف سی) موجود ہے۔ آئی ایم ایف بھی بظاہر مطمئن ہے لیکن الیکشنز کے بعد جو صورت حال بن رہی ہے اس سے عالمی اداروں کی نظر میں ملک کے لئے کچھ مشکلات سامنے آ سکتی ہیں کیونکہ پاکستان میں مخلوط حکومت بننے کے امکانات زیادہ ہیں۔ ایسی حکومت سے متعلق عالمی مالیاتی اداروں کی رائے زیادہ اچھی نہیں ہوتی کیونکہ ایسی حکومت کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک آ جائے اور حکومت کے گھر چلے جائے کا پتہ نہیں چلتا۔ اس سے ملک کی معاشی پالیسیاں اور سٹرکچر بری طرح متاثر ہوتا ہے۔ ایسے حالات میں قرض سخت شرائط پر ملتا ہے۔ دوسرا اہم نقطہ یہ ہے کہ پاکستان کو صرف آئی ایم ایف سے نہیں بلکہ دوست ممالک سے بھی قرض لینا ہے۔ پہلے بھی دوست ممالک نے انتہائی مہنگے قرض دے رکھے ہیں جو پاکستان ابھی تک ادا نہیں کر سکا۔ صرف ایک صورت میں نئی حکومت کے لئے مشکلات کم ہو سکتی ہیں کہ اگر وہ ایس آئی ایف سی کو قانونی تحفظ دیں اور اس کی پالیسیوں کو آگے لے کر چلیں۔ کیونکہ یہ ادارہ تقریباً دو سال سے کام کر رہا ہے اور معاشی میدان میں کافی کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ گو کہ مارکیٹ میں ڈالر کے حوالے سے مختلف دعوے کیے جا رہے ہیں لیکن اگر ایس آئی ایف سی کو نئی حکومت سپورٹ کرتی رہی تو ڈالر کی قیمت میں زیادہ اتار چڑھائو بھی نہیں ہو سکے گا اور مارکیٹ میں بھی استحکام آ سکتا ہے۔ مذکورہ بالا تمام ضروریات و مقتضیات کے ہوتے ہوئے یہ امر قطعی طور پر یقینی ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کے نزدیک قابل قبول وزیراعظم صرف ن لیگ اور ن لیگ میں بھی صرف شہباز شریف کی وزارت عظمیٰ ہے جبکہ اس معاملے میں پاکستان پیپلز پارٹی کی اپنی نظریاتی مجبوریاں ہیں۔ اسی بناء پر وہ ابتدا میں تو اس حکومت کے ساتھ اس طرح طرح اٹیچ نہیں ہو گی لیکن جب پرائیوٹائزیشن جیسے اقدامات مکمل ہو گئے تو پھر پیپلز پارٹی کھل کر نئی حکومت کا حصہ بن جائے گی۔
یہ ٹھیک ہے کہ نواز شریف چوتھی بار وزیراعظم نہیں بن پائے لیکن اب مستقبل کی ملکی سیاست میں اُن کا کردار بنیادی نوعیت کا ہو گا۔ گزشتہ دنوں مسلم لیگ ن کی جانب سے اعلان کیا گیا کہ مخلوط حکومت میں وزارتِ عظمیٰ کے امیدوار نواز شریف نہیں شہباز شریف ہوں گے اور یہ کہ یہ فیصلہ نواز شریف نے بذات خود کیا ہے۔ اس فیصلہ کے سامنے آنے کے بعد سیاسی حلقوں میں چہ میگوئیوں کا سلسلہ شروع ہوا کہ کیا یہ نواز شریف کو مستقبل میں سیاست سے دور کرنے کی سازش تو نہیں جس پر مریم نواز نے ٹوئٹ کیا کہ وزارت عظمیٰ کا عہدہ قبول نہ کرنے کا مطلب اگر یہ اخذ کیا جا رہا ہے کہ نواز شریف سیاست سے کنارہ کش ہو رہے ہیں تو اس میں کوئی سچائی نہیں اگلے پانچ سال وہ نہ صرف بھرپور سیاست کریں گے بلکہ وفاق و پنجاب میں اپنی حکومتوں کی سرپرستی کریں گے۔ ن لیگ کے دیگر رہنماں کے مطابق نواز شریف اور دیگر پارٹی رہنما یہ سمجھتے ہیں کہ شہباز شریف مخلوط حکومت کو زیادہ احسن انداز میں چلا پائیں گے۔ اس حوالے سے ایک سوال یہ بھی کیا جا رہا ہے کہ کیا شہباز شریف کی نامزدگی کی وجہ اُن کے اسٹیبلشمنٹ سے بہتر تعلقات ہیں تو اس کا جواب یہ ہے کہ تعلقات تو اب نواز شریف کے بھی اسٹیبلشمنٹ سے اچھے ہیں کیونکہ اب ادارے میں وہ ماضی کے لوگ نہیں رہے جن سے نواز شریف کو خطرہ تھا لیکن دوسرا پہلو یہ ہے کہ نواز شریف ایک کامیاب لیڈر کے طور پر واپس آنا چاہتے تھے، یہ ثابت کرنا چاہتے تھے کہ انہیں عوام کی حد درجہ سپورٹ اور ہمدردی حاصل ہے لیکن ایسا نہیں ہوا اور ایک منقسم مینڈیٹ سامنے آیا۔ اب الیکشن میں یہ واضح ہو گیا ہے کہ وہ چار سال بعد واپس آ کر دوبارہ اپنی وہ جگہ آسانی سے نہیں بنا سکے اور یہ ان کا مزاج نہیں کہ ایک مخلوط حکومت کی سربراہی کر سکیں۔ شہباز شریف کی نامزدگی کی وجہ ان کا اس ضمن میں 13سیاسی جماعتوں پر مشتمل اتحادی حکومت 16ماہ تک چلانے کا تجربہ ہے۔ تاہم ن لیگ کی سیاست پر نظر رکھنے والے تجزیہ کاروں کی رائے میں وزارتِ عظمیٰ کا امیدوار نہ بن کر نواز شریف نے اچھا فیصلہ کیا ہے۔ پنجاب میں اب نواز لیگ کو تحریک انصاف جیسے فتنے سے مقابلے کا بھی سامنا ہے۔ اب مریم نواز اور مسلم لیگ ن کے لئے امتحان ہے کہ وہ آنے والے دنوں میں پنجاب میں کیسے حکومت کرتے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ پارٹی کے اندر مسائل پیدا ہوں کیونکہ مقابلہ پہلے سے سخت ہو چکا ہے۔ اس حوالے سے ن لیگ کے رہنما عرفان صدیقی کہتے ہیں شاید چند لوگوں کو ایسا محسوس ہو رہا ہو کہ نواز شریف وزارت عظمیٰ کے امیدوار نہ بن کر سیاست سے دور ہو رہے ہیں مگر ایسا نہیں ہے وہ بھرپور سیاست کر رہے ہیں اور شہباز شریف اور مریم نواز سے متعلق اہم فیصلے انہوں نے ہی سینئر لیڈرشپ کی مشاورت سے لئے ہیں۔ مستقبل کی سیاست میں نواز شریف کا انتہائی اہم کردار ہو گا۔ اگرچہ وہ وزیراعظم نہیں ہوں گے مگر وہ اپنی جماعت سے متعلق اہم فیصلے کرنے اور وفاق اور پنجاب میں حکومتوں کی رہنمائی میں مصروف رہیں گے لیکن ان کے بیان سے قطع نظر عوام کو کسی خوش فہمی میں مبتلا نہیں ہونا چاہیے اور یہ امر فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ نئی حکومت میں بھی مہنگائی کم نہیں ہو گی کیونکہ جو مینڈیٹ نواز شریف چاہتے تھے وہ انہیں نہیں ملا اور نواز شریف کے وزیراعظم نہ ہونے سے ملک معاشی طور پر ترقی نہیں کر سکتا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button