Column

گل ودھ گئی اے مختارا

صفدر علی حیدری
کمشنر راولپنڈی لیاقت علی چٹھہ انتخابی بے ضابطگیوں پر مستعفی ہوگئے اور خود کو پولیس کے حوالے کرنے کا فیصلہ کر لیا۔
پنڈی کرکٹ اسٹیڈیم میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کمشنر لیاقت علی چٹھہ نے کہا ہے کہ میں نے راولپنڈی ڈویژن میں ناانصافی کی ہے، میں نے جو ظلم کیا اس کی سزا مجھے ملنی چاہیے، باقی جو بھی اس میں ملوث ہیں انہیں بھی سزا ملنی چاہیے۔
’’ میں اپنے عہدے اور سروس سے استعفیٰ دیتا ہوں‘‘
کمشنر راولپنڈی ڈویژن نے کہا کہ ہم نے اس ملک کے ساتھ غلط کام کیا ، جو کام میں نے کیا وہ کسی طرح مجھے زیب نہیں دیتا، میں اپنے عہدے اور سروس سے استعفیٰ دیتا ہوں ۔ انہوں نے کہا کہ مجھ پر سوشل میڈیا اور اوورسیز پاکستانیوں کا دبا تھا، میں نے آج صبح کی نماز کے بعد خودکشی کی کوشش کی، میں نے سوچا کیوں نا یہ چیزیں عوام کے سامنے رکھوں، میں حرام موت کیوں مروں، میں کرب سے گزر رہا ہوں، سیاسی لوگ شیروانی سلوا کر منسٹر بننے کے لیے گھوم رہے ہیں، ملک سے غداری اور بے ضمیری نہیں کرنی چاہیے ۔
’’ میرے ساتھ چیف الیکشن کمشنر کو سزائے موت دی جائے‘‘
لیاقت علی چٹھہ کا کہنا ہے کہ میں اپنے کرب کا بوجھ اتار رہا ہوں، سکون کی موت چاہتا ہوں، راولپنڈی ڈویژن کے 13ایم این ایز ہارے ہوئے تھے، انہیں 70، 70ہزار کی لیڈ دلوائی، ملک کے ساتھ کھلواڑ کیا ہے، میرے ساتھ چیف الیکشن کمشنر کو سزائے موت دی جائے ۔ انہوں نے کہا کہ میں راولپنڈی ڈویژن میں انتخابی دھاندلی کی ذمے داری قبول کرتا ہوں، میں انتخابی دھاندلی پر اپنے آپ کو پولیس کے حوالے کرتا ہوں ۔
’’ ہارے ہوئے امیدواروں کو 50، 50ہزار کی لیڈ میں تبدیل کر دیا ہے‘‘
کمشنر راولپنڈی کا کہنا ہے کہ ہم نے ہارے ہوئے امیدواروں کو پچاس، پچاس ہزار کی لیڈ میں تبدیل کر دیا ہے، ملک کی پیٹھ میں جو چھرا گھونپا وہ مجھے سونے نہیں دیتا۔
’’ آج بھی ہمارے لوگ بیٹھ کر جعلی مہریں لگا رہے ہیں‘‘
لیاقت علی چٹھہ نے کہا کہ ہارے ہوئے لوگوں کو ہم نے جتوایا ہے، لوگوں کی ستر ستر ہزار کی لیڈ سے جیت کو شکست میں بدلا، آج بھی ہمارے لوگ بیٹھ کر جعلی مہریں لگا رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اپنے ڈویژن کے ریٹرننگ افسران سے معذرت خواں ہوں، میرے ماتحت رو رہے تھے میں انہیں کیا کہہ رہا ہوں، میں نے اپنے ڈویژن میں غلط کام کیا، مجھے راولپنڈی کے کچہری چوک میں سزائے موت دی جائے، غلط کام کون کر رہا ہے اور کس نے کرایا کوئی چیز چھپی ہوئی نہیں۔
حالیہ الیکشن میں کچھ ایسے واقعات رونما ہوئے ہیں جنہوں نے ملکی سطح پر ایک تہلکہ مچا دیا۔ سب سے بڑی خبر یہ آئی کہ جیتنے والے امیدواروں نے خود تسلیم کیا کہ وہ نہیں جیتے بلکہ ان کا حریف جیت گیا ہے۔ ایسا قومی تاریخ میں پہلی بار ہوا ہے
مولانا فضل الرحمان کی پریس کانفرنس اور مختلف میڈیا ہائوسز کو دئیے گئے انٹرویوز میں ایسے انکشافات کیے گئے جو کوئی انکشافات نہیں ہیں بلکہ اعترافات ہیں ۔ اس سے ایک بڑی سیاسی جماعت کے سربراہ کے موقف کی تائید ہوتی ہے کہ ملکی اور بین الاقوامی اسٹیبلیشمنٹ نے مل کر ان کی حکومت گرائی اور ملک کو اوندھے منہ دلدل میں گرایا ۔
اس پر مستزاد کمشنر پنڈی کا اعترافی بیان ہے جو کسی دھماکے سے کم نہیں ہے ۔ اس نے الیکشن کی شفافیت ہوا میں اڑا کر رکھ دی ہے ۔
اب ایسی دھاندلی زدہ الیکشن کے بعد الیکشن کمیشن اور خود الیکشن کا کیا اخلاقی جواز رہ گیا ہے۔
ملک میں غیر سیاسی ایکٹرز جو کھیل کھیلا تھا وہ پوری طرح بے نقاب ہو چکا ہے۔ ملک بحران کی زد میں ہے اس بحران سے بچنے کا ایک ہی حل ہے کہ مینڈیٹ اس جماعت کو واپس کیا جائے جس نے ملک کے ہر حصے سے ووٹ لے کر اپنی برتری ثابت کر دی ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ فارم 45کی بنیاد پر جیتنے والوں کو ان کی نشستیں واپس کی جائیں اور انھیں حکومت بنانے کا پورا پورا موقع دیا جائے ۔ یہ ملک کسی بھی بحران کا متحمل نہیں ہو سکتا ۔ مہنگائی اور غربت سے تباہ حال ملک کے ساتھ مزید کوئی کھلواڑ نہ کیا جائے ۔ یہی وقت کی ضرورت ہے اور یہی ملک دوستی کا تقاضا بھی ۔۔۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button