ColumnQaisar Abbas

الیکشن اور بے اعتبار سسٹم

قیصر عباس صابر
ہمارا نظام اس قدر بے اعتبار ہے کہ سسٹم بنانے والے اور اسے چلانے والے بھی بے اعتباری اور عدم اعتمادی کے حصار سے نہیں نکل رہے ۔ الیکشن شیڈول جاری ہونے کے بعد الیکشن کمیشن شش و پنج میں تھا کہ کہیں انتخابات ملتوی ہی نہ کرنے پڑیں ۔ دہشت گردی کے واقعات اور سیاستدانوں کی ٹارگٹ کلنگ کے بعد التوا کے حالات بھی بنے مگر کسی کو حوصلہ نہیں ہوا کہ الیکشن ملتوی کر سکے۔ آٹھ فروری کو الیکشن کی تاریخ طے تھی مگر امیدواروں نے تشہیری مہم پر پیسہ ضائع نہیں کیا۔ جلسے جلوس ویسے نہیں ہوئے جیسے ماضی میں ہوتے تھے ۔ انتخابی نشانات ملنے کے بعد بھی ماحول میں دھند نمایاں رہی۔ امیدوار ’’ ٹکٹ ‘‘ لیں یا ’’ آزاد ‘‘ لڑیں کا فیصلہ آخری ہفتے تک نہیں کر پائے تھے۔ سیاسی پارٹیوں نے اخبارات کو بزنس دے کر کمپین چلائی تو کچھ یقین آیا مگر چنائو کا روایتی ماحول نہیں بن سکا۔
اسی یقین اور بے یقینی کی کیفیت میں الیکشن ہو گئے اور پولنگ ختم ہوتے ہی گنتی کا عمل شروع ہوا تو ٹی وی چینلز نے ایک ایک پولنگ کے غیر حتمی نتیجہ کی بنا پر ’’ آگے ، پیچھے ‘] کے رنگ برنگے سٹیکرز چلا کر ذہن سازی شروع کر دی ۔ جب بڑے پولنگ سٹیشنز کا نتیجہ آیا تو ہارنے والا امیدوار جیتنے کی پوزیشن میں آ گیا تو لوگوں کے ذہنوں میں انتشار بھرے سوالات نے جنم لیا کہ پہلے جو جیت رہا تھا وہ اب ہار کیسے گیا ۔ جو لوگ انتخابی عمل کو غور سے دیکھتے ہیں وہ جانتے ہیں کہ چھوٹے چھوٹے پولنگ سٹیشنز کبھی ہار جیت کا فیصلہ نہیں کرتے ۔ جہاں سیکڑوں میں ووٹ ہونگے وہاں ہار اور جیت بھی اکائیوں میں ہوگی ۔ بڑی آبادی والے پولنگ سٹیشنز کا ایک نتیجہ رزلٹ کو بدلنے کے لئے کافی ہوتا ہے۔ اس لئے جب نتائج بدلنا شروع ہوئے تو پہلے سے عدم اعتبار کا شکار قوم اپنے شبہات پختہ کرتی نظر آئی ۔ کہیں کہیں تو واقعی ہیر پھیر کیا گیا اور ہزاروں ووٹ مسترد کر کے کچھ امیدواروں کو جتوایا بھی گیا۔ حیران کن بات ووٹرز کا ازخود نکلنا اور اپنے گم نام اور بغیر ایجنٹ والے امیدوار کو ووٹ کاسٹ کرنا تھا۔ دیہی علاقوں میں بھی لوگوں نے غیر معروف امیدوار کو ووٹ دیا اور اس کے باوجود دیا کہ نہ تو اس کے پوسٹر لگے اور نہ وہ امیدوار جلسے جلوس کر سکا ۔ شہری حلقوں میں صورتحال یہاں تک رہی کہ غیر معروف امیدواروں نے بڑے بڑے سیاست دانوں کی جیت کو مشکل بنا دیا۔
بے اعتباری کا یہ عالم ہے کہ ہر سیاسی جماعت نتائج کو شک کی نگاہ سے دیکھ رہی ہے ۔ محمد نواز شریف جیسے سینئر سیاست دان نے مانسہرہ سے اپنا نتیجہ چیلنج کر کے الیکشن عمل پر سنجیدہ ترین شک کی مہر ثبت کر دی ہے ۔ پیر پگارو نے انتخابی نتائج پر یوں خدشات کا اظہار کیا ہے کہ اپنی جیتی ہوئی نشستیں بھی واپس کرنے کا اعلان کر دیا ہے ۔ جماعت اسلامی کے حافظ نعیم الرحمان نے جیت کے باوجود تسلیم کر لیا ہے کہ انہیں جتوایا گیا ہے ووٹ تو ہارنے والے امیدوار کو زیادہ ملے ہیں ۔ انوکھا الیکشن ہوا ہے جس میں فاتح بھی اپنی فتح کو شک کی نگاہ سے دیکھ رہے ہیں ، مفتوح کی تو چیخیں ہی الگ ہیں۔
اس عمل پر جب عالمی مبصرین نے خدشات کا اظہار کیا تو ہمارے الیکشن کمیشن کے ترجمان نے صرف ایک ہی جواب دیا ہے کہ ’’ یورپی یونین، برطانیہ اور امریکہ ہمارے اندرونی معاملات سے دور رہیں ‘‘۔ ترجمان الیکشن کمیشن شائد نہیں جانتے کہ اب کوئی بھی مسئلہ اندرونی نہیں رہا۔
جس طرح الیکشن سے پہلے شبہات کی فضا اور شک کی دھند نمایاں تھی وہی الیکشن کے بعد بھی موجود ہے ۔ کوئی سیاسی جماعت فیصلہ نہیں کر پا رہی کہ آخر وہ کرے کیا ۔ زیادہ نشستیں جیتنے والی پارٹی بھی حکومت کا طوق گلے میں لٹکانے سے ڈر رہی ہے ۔ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی ابھی تک فیصلہ نہیں کر پا رہیں کہ حکومت کس طرح بنائی جائے اور وزیراعظم کس جماعت کا ہو ۔
قوم اپنے لیڈر پر ، لیڈر اپنی پارٹی کے سربراہ پر، الیکشن کمیشن طاقتور ادارے پر اور وہ مقتدر ادارہ سیاستدانوں پر اعتبار نہیں کر رہا۔ اس لئے چوں چوں کا مربہ حکومت شائد مقتدر اکائی کو قبول ہو کہ جس پر اعتبار نہ ہو اسے چوں چوں کا مربہ ہی رکھا جاتا ہے کوئی ایک نام نہیں دیا جاتا۔
پاکستان کی تاریخ کا شائد یہ پہلا الیکشن ہے جس میں عام ووٹر نے برادری اور لسانی تعصب سے بالا تر ہو کر صرف پارٹی کو ووٹ دیا ہے۔
ایک اور بات بھی اہم ہے جو بے اعتباری کو مزید پختہ کرتی ہے کہ دنیا بھر میں الیکشن جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے کروائے جارہے ہیں مگر ہم الیکشن ڈے پر رابطے کا واحد ذریعہ ہی کاٹ دیتے ہیں۔ حادثات اور واقعات کے لئے نہ ایمرجنسی کال نہ ریسکیو کے لئے پکار۔ الیکشن مینجمنٹ سسٹم EMS پر کروڑوں روپے کے فنڈز خرچ کئے گئے مگر نتائج صفر۔
ووٹرز نے یہ نہیں سوچا کہ ناقص تیل اور کھاد کی ’’ ایجنسیاں ‘‘ کیا سوچتی ہیں۔ انہوں نے لمحہ بھر کی تنہائی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنا فیصلہ سنا دیا۔ یہ الگ بات کہ عوام نے اپنا فیصلہ کسی کی نفرت میں سنایا یا محبت میں۔
ریاست کو اپنے عوام کا اعتماد اور اعتبار بحال کرنا ہوگا ورنہ بد اعتمادی کی فضا ہر سو پھیل جائے گی ۔ ہمارے تعلیمی نظام امتحانات میں تو سی ایس ایس سطح بھی داغدار ہو چکی ہے۔ کھانے پینے کی اشیا سے لے کر ادویات تک ملاوٹ زدہ ہیں ۔ نظریاتی برتن بھی چھید در چھید ہو کر خالی ہوئے جاتے ہیں۔ عدالتی طریقہ کار بھی تسلی بخش نہیں رہا ۔ قتل تک کے مقدمات کی تفتیش رشوت کے گرد گھوم جاتی ہے۔ ہمارے کرکٹ میچ تک فکس ہوتے ہیں۔ ڈاکٹرز گردہ چوری کرتے اور ٹرانسپلانٹ کرتے ہوئے پکڑے گئے ہیں۔ اپنے حکمران منتخب کرنے میں بھی سال ہا سال سے دھاندلی زور پکڑ چکی ہے۔
اگر اب بھی ہم نے اپنے معاملات کو شفاف کرنے کی کوشش نہ کی تو پھر بہتری کی امیدوں کی سلیٹ بھی زنگ آلود ہو جائے گی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button