Ali HassanColumn

انتخابات سے جڑے معاملات کو فوری حل کیا جانا چاہئے

علی حسن
8فروری کے انتخابات کے نتائج عام آدمی سے لے کر بڑے بڑے سیاستدانوں غرض سب ہی کے لئے حیران کن ہیں کہ جیل میں قید سزا یافتہ سیاسی رہنما عمران خان نے سوشل میڈیا کے ذریعہ اپنے حمایت یافتہ امیدواروں کی فہرست جاری کی ۔ جواب میں لوگوں نے عملا کھمبوں کو ووٹ دے کر کامیاب کرا دیا۔ نہ کوئی جلسے ہوئے، نہ امیدوار کی تشہیر ہو سکی۔ نشان بھی ہر امیدوار کا علیحدہ تھا۔ ایک جماعت سے وابستہ امیدواروں کے علیحدہ علیحدہ نشانات۔ ٹی شرٹ، بھیڑ، بیگن، چمٹا، بوتل وغیرہ وغیرہ نشانات دئیے گئے تھے۔ الیکشن کمیشن کے چیف دانست میں لوگوں کے بیوقوف سمجھ رہا تھا کہ لوگ نشان کے چکر میں الجھ جائیں گے لیکن لوگوں نے تو ضرورت سے کہیں زیادہ عقلمندی کا مظاہرہ کیا اور تمام تدبیروں کو ناکام بنا دیا۔ نتائج کے اعتبار سے تحریک انصاف کے حمایت یافتہ امیدواروں کی تعداد تمام سیاسی جماعتوں کے مقابلہ میں بہت زیادہ نکلی۔ آخری گنتی تک 266کے مقابلہ میں آزاد امیدواروں کی تعداد ایک سو سے زیادہ نکلی۔ ن لیگ اور پیپلز پارٹی تعداد کے مقابلہ میں بہت پیچھے رہے۔ اتنی بڑی تعداد میں امیدواروں کی کامیابی کا یقین تو ممکن ہے کہ خود عمران خان کو نہیں ہوگا اسی طرح جیسے 1970میں پیپلز پارٹی کے سربراہ ذوالفقار علی بھٹو کو بھی نہیں تھا۔ بھٹو 30اور 35نشستوں پر کامیابی کا تخمینہ رکھتے تھے۔ نتائج کے بعد حکومت سازی کی کوششوں کی سرگرمیاں تیز ہوئیں۔ نتائج مکمل نہیں ہوئے تھے کہ پیپلز پارٹی کے سربراہ آصف زرداری اپنے بیٹے بلاول بھٹو کے ہمراہ لاہور پہنچ گئے۔ سندھ میں پیپلز پارٹی بھاری اکثریت کے ساتھ سب سے بڑی پارٹی بن کر ابھری ہے۔ وہ سندھ میں ایک بار پھر بلا شرکت غیرے، حکومت قائم کرنے کی آسان پوزیشن میں ہے۔ ن لیگ کے ساتھ ملاقات میں نواز شریف نے آصف زرداری سے ملاقات کی بجائے کی ان کی ملاقات شہباز شریف کے ساتھ کرائی گئی۔ ملاقات میں کوئی فیصلہ نہیں ہو سکا اور گفتگو جاری رکھنے کا فیصلہ کیا گیا۔ نواز شریف خود وزیر اعظم بننے کی خواہش رکھتے ہیں لیکن پیپلز پارٹی بلاول بھٹو کو وزیر اعظم بنوانے کی قرار داد منظور کر چکی ہے۔ سابق وفاقی وزیر فواد چودھری نے حکومت سازی کیلئے سیاستدانوں کی بھاگ دوڑ پر ردّ عمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ مخلوط حکومت نہیں قومی حکومت بنے گی۔ اپنا خیال ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ قومی حکومت بنائی چاہیے، کوئی حکومت اکیلے مسائل سے نہیں نمٹ سکتی۔ جس طرح کے انتخابات ہوئے ہیں حالات سب کے سامنے ہے، آسٹریلیا امریکا سمیت پوری دنیا نے انتخابات پر سوالات اٹھائے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی پر پابندی نہیں، وہ قانونی اور آئینی طور پر اپنا فیصلہ کر سکتی ہے۔ ن لیگ اور پیپلز پارٹی نے اپنے اپنے تئیں آزاد حیثیت میں منتخب ہونے والوں سے ملاقاتوں کو سلسلہ جوڑا۔ آزاد حیثیت میں منتخب ہونے والوں میں عمران خان کے حمایت یافتہ ہیں اور ایسے امیدوار ہیں جو اپنی ذاتی حیثیت سے کامیاب ہوئے ہیں۔ عمران خان حمایتیوں کی تو فہرست باقاعدہ سوشل میڈیا پر وائلر تھی۔ بعد میں ایک کامیاب امیدوار وسیم قادر نے ن لیگ میں شمولیت اختیار کر لی جس پر ان کے حلقے کے ووٹروں نے ایک ہنگامہ برپا کر دیا ۔ ان کے گھر کے باہر رات کے وقت مظاہرہ کیا گیا۔ جواب میں انہیں وڈیو پر اپنا بیان جاری کرنا پڑا کہ وہ عمران خان کی ہدایات ماننے کے پابند ہیں۔ لطیف کھوسہ اور جمشید دستی کے حوالے سے خبریں وائرل ہوئیں کہ ’’ دونوں پیپلز پارٹی کو پیارے ہوگئے‘‘۔ تحریک انصاف کے ذرائع کا دعوی ہے کہ یہ خبریں بے بنیاد ہیں۔
غرض 12فروری تک گہرا ابہام پایا جاتا ہے کہ عمران خان کی حمایت سے کامیاب ہونے والے کہاں جائیں گے۔ الیکشن قوانین کے تحت آزاد حیثیت میں کامیاب ہونے والے افراد کو کامیابی کے سرکاری نوٹیفیکیشن کے اجراء کے بعد کسی بھی سیاسی جماعت میں شمولیت اختیار کرنا ہوتی ہے۔ سرکاری نوٹیفیکیشن 12فروری تک جاری نہیں ہو سکے تھے۔ اب اطلاع ہے کہ اب الیکشن کمیشن کو حتمی نتائج کا نوٹیفکیشن 22فروری تک جاری کرنا ہو گا، تین دن یعنی 23، 24 اور 25فروری کو آزاد امیدوار سیاسی جماعت سے جڑنے کا اعلان کریں گے۔ کئی حلقوں میں نتائج کو متنازعہ قرار دے کر تسلیم نہ کرنے اور احتجاج کرنے، ہائی ویز پر دھرنے دینے کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔ سندھ کے معروف اور طاقت ور گدی نشیں پیر پگارو نے تو 16فروری کو ہائی پر دھرنے کی ہدایت بھی جاری کی ہے۔ اگر یہ صورت حال 1977جیسی بن رہی ہے تو اس کے نتائج بہتر نہیں نکلیں گے۔1977میں اسی صورت حال کے نتیجے میں ایک مرحلے پر جنرل ضیاء الحق نے ملک میں مارشل لاء نافذ کر دیا تھا اور وہ گیارہ سال تک اپنے جہاز کے پیش آنے والے حادثہ تک ملک پر صدر کی حیثیت سے موجود رہے تھے۔ موجودہ چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ کو کسی حالت میں جسٹس سجاد جیسا 1977کا چیف الیکشن کمشنر ثابت نہیں ہونا چاہیے۔ کسی تاخیر کے بغیر کمیشن کا اجلاس منعقد کر کے طے کرنا چاہئے تاکہ متاثرہ لوگوں کو مطمئن کیا جا سکے۔ لیکن مائنڈ سیٹ کا کیا کیا جا سکتا ہے۔ انتخابی عزر داریوں کی درخواستوں کی سماعت کے موقع پر سندھ سے کمیشن کے نامزد رکن نثار درانی نے کہا کہ’’ جو ہار گیا وہ جشن منا رہا ہے، جو جیت گیا وہ دھاندلی کے الزامات لگا رہا ہے ایسا رویہ کب تک چلے گا‘‘ ۔
1970 میں ہونے والے انتخابات میں بھی نتائج کو تسلیم نہیں کیا گیا تھا۔ عوامی لیگ کے سربراہ شیخ مجیب الرحمان نے تو ایک بیان میں یہاں تک کہہ دیا تھا کہ ’’ آگ سے نہیں کھیلو۔ نتائج کو تسلیم کرو‘‘۔ عوامی لیگ نے مشرقی پاکستان سے قومی اسمبلی کی 162میں سے 160نشستوں پر کامیابی حاصل کر لی تھی ۔ مغربی پاکستان میں ذوالفقار علی بھٹو نے 81سیٹ حاصل کی تھیں لیکن اقتدار منتقل نہ کرنے کے باعث پے در پے سازش کی وجہ سے مجیب کو گرفتار کیا گیا، خانہ جنگی ہوئی، ملک ٹوٹ گیا ، اقتدار مغربی پاکستان کو پاکستان قرار دئیے کر بھٹو کے حوالے کر دیا گیا۔ انتخابی نتائج کو تسلیم نہ کرنے کی وجہ سے ہی تو پاکستان ماضی میں نا قابل تلافی نقصان اٹھا چکا ہے۔ ملک کی بڑی آبادی کو علاقہ اس وقت کا مشرقی پاکستان خانہ جنگی کہ وجہ سے پاکستان سے علیحدہ ہو گیا تھا۔ بھارت کی جنگی مداخلت پاکستان کو بہت زیادہ مہنگی پڑے تھے۔ بھٹو نے دہشت گردی اور ملک توڑنے کے الزام میں گرفتار مجیب کو رہا کر دیا جو بنگلہ دیش جا کر نئے ملک کے صدر بن گئے۔ اس مطالبہ نے بھی زور پکڑنا شروع کر دیا ہے کہ انتخابات نئے سرے سے کرائے جائیں۔ پولنگ اسٹیشن پر موجود پولنگ افسران کے جاری کر دہ فارم 45کے مطابق کامیاب امیدواروں کی شکایات کا ازالہ ضروری ہے اور ا نہیں ریٹرننگ افسر ( آر او) کی جانب سے فارم 47جاری کیا جانا چاہئے۔ یہ طے ہونا چاہئے کہ فارم 45میں دئیے گئے اعداد و شمار درست اور حتمی ہیں۔ شکایات کا فوری تدارک ضروری ہے تاکہ بات آگے نہ بڑھ سکے۔ لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس باقر نجفی فیصلہ دے چکے ہیں کہ الیکشن کمیشن فارم 45میں درج تفصیلات ہی حتمی تصور کی جائیں گی اور اسی کی روشنی میں رزلٹ دینے کا پابند ہے۔ جماعت اسلامی کے رہنما نعیم الرحمان نے ایک بیان میں کہا ہے کہ پہلے ہی کہا تھا جو جیتے اسے جیتنے دو جو ہارے اسے ہارنے دو، میری جیتی ہوئی سیٹ پر فارم 45کے مطابق پی ٹی آئی جیتی ہے۔ لہذا اپنے ضمیر اور اپنی جماعت کی اخلاقی روایات کے مطابق اپنی صوبائی اسمبلی کی سیٹ چھوڑنے کا اعلان کرتا ہوں اور مطالبہ کرتا ہوں کہ ہمیں ہماری ساری جیتی ہوئی سیٹیں واپس کی جائیں۔ سندھ کے سیاست داں ایاز لطیف پلیجو کا کہنا ہے کہ بوگس الیکشن نے ملک کو مزید بحران میں دھکیل دیا ہے جس کے نتائج انتہائی برے ہوں گے۔ پولنگ سٹیشنوں میں فوت ہونے والے ووٹر باہر آئے۔ قبروں پر جا کر ووٹ کاسٹ کیا۔ ہر خاتون سے دس دس پندرہ پندرہ ووٹ ڈلوائے گئے، غیر معیاری سیاہی کا استعمال کیا گیا۔ وہ الیکشن کے نتائج کو نہیں مانتے۔ بوگس الیکشن نے ملک کو مزید بحران میں دھکیل دیا ہے جس کے نتائج انتہائی برے ہوں گے۔ تحریک انصاف کے ذرائع الزام لگاتے ہیں کہ ملک میں حکمرانی کے لئے پی ڈی ایم کو نیا ایڈیشن ٹھونسنے کی سازش کی جارہے ہیں۔ نئے ایڈیشن میں ن لیگ، پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم کو شامل کیا جائے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button