CM RizwanColumn

نتائج کی عدالت یاترا ناگزیر

سی ایم رضوان
انتخابات 2024 خاص طور پر ان کے نتائج میں مبینہ بددیانتی کے روز بروز حد سے بڑھتے ہوئے الزامات کی بنیاد پر احتجاجی مظاہرین کی جانب سے پشاور، اسلام آباد ہائی وے بلوچستان کو دوسرے صوبوں سے ملانے والی مین شاہراہوں کے بلاک کئے جانے، بلوچستان میں شٹر ڈائون ہڑتال اور دیگر متعدد بین الصوبائی مواصلات کی گزشتہ تین روز سے مسلسل بندش نے عام شہریوں کو شدید پریشان کر رکھا ہے۔ تحریک انصاف کے حامیوں نے ووٹنگ میں جعلسازی کے الزامات اور متنازعہ فارم 45اور 47کے وسیع تر اجراء پر دونوں جانب سے نمایاں ترین مد مقابل امیدواران کی کامیابی کا دعوئوں کو بنیاد بنا کر احتجاج کا دائرہ وسیع تر کر دینے کی دھمکی دی ہے۔ ان حالات میں نئی غیر مستحکم حکومت کا قیام ملک میں ایک نئے بحران کو جنم دے سکتا ہے۔ اس وقت جو نتائج سامنے ہیں ان کا مطلب ہے کہ کوئی بھی ایک پارٹی خود سے حکومت نہیں بنا سکتی اور وفاقی سطح پر ایک مخلوط حکومت ناگزیر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نئی حکومت کی تشکیل ابتداء میں ہی پیچیدہ شکل اختیار کر گئی ہے۔ گو کہ پاکستان کی سیاست میں حکومتی اتحاد اور مخلوط حکومت کوئی غیر معمولی بات نہیں لیکن ان حالات میں اس طرح کی کسی حکومت کو چلانا اس صورت میں اور بھی مشکل ہو سکتا ہے جبکہ ملک کو آگے بڑھنے اور معیشت کو لاحق سخت بنیادی مسائل سے نجات کے لئے سخت اقتصادی پیکیجز کے ساتھ چلنا ناگزیر ہو جائے۔ ان سخت مسائل میں محدود ٹیکس محصولات اور دوسرے ملکوں کے عطیات پر انحصار شامل ہیں۔ ان حالات میں جو بھی نئی حکومت آئے گی اسے فوری طور پر غیر مقبول فیصلے درکار ہوں گے جو اس صورت میں مزید مشکل ہو جائیں گے جب حکومت بٹی ہوئی اور ایک محدود عوامی مینڈیٹ کی حامل ہو گی اور اس پر مستزاد یہ کہ اس اپوزیشن کی موجودگی میں جو ضد، ہٹ دھرمی اور نفرت کے آخری مقام پر متعین ہو۔ جو میں نہ مانوں کی رٹ کبھی چھوڑ ہی نہیں سکتی چاہے ملک یا نظام چلے یا نہ چلے۔ اس صورت حال کے پیش نظر ایک مزید مستحکم اور موثر حکومت کے حصول کے لئے تھوڑے ہی عرصے بعد ایک دوسرے قومی انتخاب کی ضرورت پیش آ سکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان انتخابات کو مغرب نے بھی مشکوک قرار دیا ہے اور اب تو اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کی جانب سے بھی ان نتائج پر تحفظات کا اظہار کیا گیا ہے۔ یہ ایک الگ بحث ہے کہ کیا یہ مناسب ہے گو کہ یہاں تک تو درست ہے کہ پاکستان کے معیار کے مطابق اصل پولنگ نسبتاً پر امن رہی۔ الیکشن سے ایک روز قبل صوبہ بلوچستان میں دو خوفناک دہشت گرد حملے ہوئے جن میں مجموعی طور پر 28لوگ ہلاک ہوئے لیکن انتخاب کے دن بڑے پیمانے پر تشدد کے خدشات سامنے نہ آئے جو کہ انتظامیہ اور نگران حکومت کی احسن کارکردگی ہے۔
دوسری جانب اس حقیقت کے پیش نظر کہ پی ٹی آئی نے انتخابات میں خود کو ایک بڑی جماعت ثابت کیا ہے اور جہاں دیگر دو واضح اکثریت والی پارٹیاں موجود ہیں یہ بھی ان دونوں سے کسی طرح کم نہیں جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ پورے انتخابات میں کوئی واضح دھاندلی نہیں ہوئی ہے۔ کچھ مقامات پر پی ٹی آئی کے ووٹروں کو ہراساں کیا گیا لیکن یہ واضح طور پر ان کے مجموعی ووٹوں میں زبردست مداخلت کرنے کے لئے کافی قرار نہیں دیا جا سکتا۔ یورپ اور ویلفئیر سٹیٹس میں بیٹھ کر ان انتخابات کے نتائج پر تبصرے کرنے والے جمہوریت کے ٹھیکیداروں کو یہ ذہن نشین کر لینا چاہیے کہ پاکستان کی جمہوریت کا مقابلہ امریکہ یا کسی دوسرے ملک کی جمہوریت سے نہیں کیا جا سکتا۔ پاکستانی سیاست پر بیرونی مبصرین کے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ وہ پاکستان کے انتخابات کو ان نظروں سے دیکھتے ہیں جیسا کہ عمومی طور پر دوسرے مقامات پر دیکھا جاتا ہے حالانکہ پاکستان کی سیاست منفرد ہے جہاں ماضی میں ایک عرصے تک سیاست اور انتخابات میں غیر سیاسی طاقت شامل رہی ہے۔ اب تو یہاں یہ سمجھ لینا ہی کافی ہے کہ انتخابات خواہ کتنے ہی غیر منظم ہوں ان کا متبادل مارشل لاء ہے اور ایک ناقص جمہوریت فوجی حکومت سے بہتر ہوتی ہے۔ اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ انتخابات بھی نسبتاً پر امن منعقد ہوئے۔ انتخابات کے دن سیل فون اور موبائل انٹرنیٹ سروسز کی بندش پر مغرب کی جانب سے بہت زیادہ تنقید ہوئی ہے جو بیرونی مبصرین کو انتخابی عمل میں ناقابل قبول مداخلت دکھائی دے سکتی ہے لیکن پاکستان میں سیل فونز کے دھماکوں میں استعمال کیے جانے کا حقیقی خدشہ موجود تھا۔ جہاں تک مغرب کی جانب سے نتائج پر اثر انداز ہونے کا اظہار کرنے کا تعلق ہے تو یہ امر قابل ذکر ہے کہ منقسم قومی مینڈیٹ کا مطلب ہے کہ فوج کی ہائی کمان نے انتخابات یا نتائج میں کوئی مداخلت نہیں کی۔
دوسری جانب اگر مسلم لیگ ن مخلوط حکومت میں ایک بڑی پارٹی کے طور پر حکومت کرتی ہے تو وہ نسبتاً ایک کمزور پوزیشن میں ہو گی۔ خاص طور پر اگر پی ٹی آئی انتخابات کے نتائج کے خلاف بڑے پیمانے پر مظاہروں میں مصروف رہتی ہے گو کہ ان انتخابات کا ایک مثبت پہلو یہ ہے کہ اب تک لوگوں کی حمایت حاصل کرنے کا عمل جاری رکھنے کی اجازت دی گئی ہے لیکن بیشتر کے نزدیک اس کے منفی اثرات مثبت اثرات سے زیادہ ہیں اور 2024کے ان انتخابات کو ہیرا پھیری اور کنٹرول کے اعتبار سے 2018کے انتخابات سے اگر زیادہ نہیں تو اس کے برابر ضرور سمجھا جا رہا ہے۔ اس بار ووٹ ڈالنے والوں کی شرح لگ بھگ 48فیصد رہی جو 2018کے مقابلے میں کم ہے جو اس وقت 51فیصد تھی۔ ان میں نوجوانوں نے ایک اہم کردار ادا کیا۔ 44فیصد ووٹرز 35سال سے کم عمر تھے۔ خواتین نے بھی ووٹنگ میں بڑا کردار ادا کیا۔ پہلے سے زیادہ خواتین نے انتخابات میں حصہ لیا۔ القصہ ان انتخابات میں ووٹرز یہ بتانے آئے تھے کہ اگر ملک کے سیاسی حالات ان پر اثرانداز ہوتے ہیں تو وہ بھی اس اثر اندازی پر اثرانداز ہو سکتے ہیں۔ ان نتائج سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ جماعتی سیاست سے قطع نظر ووٹروں کو ہراساں کرنے اور دبانے کے پرانے حربے اب زیادہ کارگر نہیں رہے۔ عام سطح پر یہ توقع تھی کہ بانی پی ٹی آئی کے خلاف انتخابات سے صرف چند ہفتے قبل قانونی فیصلوں اور ان کی مسلسل قید سے ان کی مقبولیت ختم ہو سکتی ہے اور اس کا مطلب یہ ہو گا کہ پی ٹی آئی کے حامی گھروں میں رہیں گے مگر ایسا واضح طور پر نہیں ہوا جبکہ اس سے ممکنہ طور پر صرف سیاسی بے یقینی جاری رہنے میں مدد ملی ہے کیونکہ ملک اب ایک نئے غیر یقینی دور میں داخل ہو گیا ہے۔ انتخابات کے حتمی نتائج کا پتہ چلنے سے پہلے ہی پی ٹی آئی نے دعویٰ کیا تھا کہ اس نے 170یا اس سے زیادہ نشستیں جیت لی ہیں جو اتنی کافی ہیں کہ وہ اپنی حکومت تشکیل دے سکتی ہے۔ لیکن اس کے بظاہر کوئی ثبوت موجود نہیں ہیں۔ اس دعوے سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ یہ قبول کرنے کو تیار نہیں کہ اس نے خود سے ایک حکومت کی تشکیل کے لئے درکار ووٹ نہیں جیتے۔ اس نے اس کی بجائے یہ دعویٰ کرتے ہوئے نتائج کو چیلنج کر دیا ہے کہ اس کے ووٹوں کو غیر قانونی طور پر بلاک کیا گیا اور اس نے پہلے ہی حملے میں 18حلقوں میں شکایات درج کروا دیں لیکن کل 265نشستوں میں سے پی ٹی آئی کی جیتی ہوئی 93نشستوں کا مطلب ہے کہ اس کے پاس اب بھی خود سے اپنی حکومت کی تشکیل کے لئے درکار نشستوں کی کافی کمی ہے۔ دوسری طرف پاکستان مسلم لیگ ن 78نشستوں کے ساتھ دوسرے نمبر پر ہے۔ اس کی نشستوں کی تعداد امکانی طور پر آزاد ارکان کے اضافے سے بڑ ھ سکتی ہے۔ یہ وہ جماعت ہے جس نے 2022میں وزیر اعظم کا منصب سنبھالا تھا۔ سابق وزیر اعظم نواز شریف کے بارے میں خیال کیا گیا کہ انہیں فوج کی حمایت حاصل ہے لیکن ان کی جماعت نے انتخابات میں یہ توقع بھی فوت ہو گئی۔ اس جماعت کے پاس بھی خود سے حکومت کی تشکیل کے لئے درکار ووٹوں کی کمی ہے۔ 54نشستیں حاصل کر کے تیسرے نمبر پر آنے والی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کے پاس بھی خود سے حکومت کی تشکیل کے لئے درکار نشستیں نہیں ہیں لیکن اپنی اس تیسری پوزیشن کی وجہ سے اسے وفاقی سطح پر مخلوط حکومت بنانے میں کسی دوسری پارٹی کی مدد کرنے کا موقع دستیاب ہو گیا ہے۔ زیادہ امکان یہی ہے کہ پی ایم ایل این کی زیر قیادت دوسری پارٹیوں کے درمیان اتحاد تشکیل ہو گا لیکن سوال یہ ہے کہ کیا اس سے وہ ووٹرز چاہے وہ اقلیت ہیں یا اکثریت مطمئن ہو جائیں گے جنہوں نے پی ٹی آئی کو پارلیمنٹ کی سب سے بڑی پارٹی کے طور پر ووٹ دیئے ہیں اور وہ اس وقت تک کوئی بھی صورت تسلیم نہیں کریں گے جب تک یہ ثابت نہ ہو جائے کہ ان نتائج میں کوئی ہیرا پھیری موجود نہیں ہے لہٰذا ملک میں امن و امان کے ساتھ نئی حکومت کے چل چلائو کے ضروری ہے کہ سب سے پہلے ان انتخابات کے مکمل نتائج کو ایک مرتبہ عدالت یاترا ضرور کروا لی جائے۔ اس طرح یورپی مبصرین اور مقامی انقلابی مظاہرین دونوں کے منہ بند ہو جائیں گے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button