ColumnFayyaz Malik

کیا مریم نواز پہلی خاتون چیف منسٹر بن سکیں گی ؟

فیاض ملک
بیٹیوں کو بہادر اور مضبوط بنانا وقت کی اہم ضرورت بن چکا ہے، جہاں وقت و حالات بہت بدل چکے ہیں وہیں ہمیں اس تیزی سے بدلتے وقت کے ساتھ نا صرف چلنا ہے بلکہ کامیاب بھی ہونا ہے، لہذا ہمیں نئے دور کے تقاضے اپنانے ہوں گے ،دوسری صورت میں وقت ہمیں اپنے پیروں تلے روندتا ہوا چلا جائے گا۔ جیسے کسی بھی انسان کے اندر کوئی بھی تبدیلی اچانک رونما نہیں ہوتی بالکل اسی طرح کسی بھی انسان کی شخصیت ایک ہی رات میں نہیں بن جاتی، اس کے پیچھے کئی عوامل اور محرکات شامل ہوتے ہیں، سالہا سال کا عرصہ  اردگرد کا ماحول اور حالات و واقعات اور پھر ہماری سوچ ہمیں اپنے مطابق ڈھالتی ہے۔ ایسی ہی سوچ کی حامل مریم نواز لاہور کے امیر شریف خاندان میں 28اکتوبر 1973کو پیدا ہوئی، ان کے دو بھائی حسین اور حسن نواز اور ایک بہن عاصمہ ہے، مریم نواز نے انگریزی ادب میں جامعہ پنجاب سے ڈگری لی اور ابتدائی طور پر 2012میں خاندان کے رفاہی ونگ میں کام کا آغاز کیا، بعد ازاں ان کو پاکستان مسلم لیگ نے پاکستان کے عام انتخابات 2013کے دوران میں ضلع لاہور کی انتخابی مہم کا منتظم مقرر کیا۔ وزیر اعظم کے دفتر میں اپنے والد کے تیسرے غیر مسلسل انتخابات کے بعد مریم کو 22نومبر 2013کو وزیراعظم یوتھ پروگرام کا کرسی نشین مقرر کیا گیا تھا، تاہم عدالت عالیہ لاہور میں اس فیصلے پر درخواست کے بعد انہوں نے 13نومبر 2014کو استعفیٰ دے دیا تھا، تاہم مریم کو نواز شریف کا ظاہری وارث اور مسلم لیگ ن کا نیا رہنما سمجھا جانے لگا۔ مریم نواز اس وقت مسلم لیگ ن میں سنیئر نائب صدر اور چیف آرگنائزر کے طور پر کام کر رہی ہیں۔ مسلم لیگ ن کی سیاسی تاریخ کو دیکھا جائے تو مریم نواز شریف وہ پہلی خاتون ہیں جنہیں سینئر نائب صدر بنایا گیا ہے اور چیف آرگنائزر بھی۔ مگر اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ مریم نواز مسلم لیگ نواز کی سیاسی جانشین ہیں اور نواز شریف کے علاوہ اگر کارکنان کسی شخصیت کے ساتھ جڑے ہیں تو مریم نواز ہی ہیں۔ مریم نواز نے پارٹی کو متحرک کرنے کیلئے تنظیمی اجلاس، جلسے جلوس کیے اور نہ صرف اب بلکہ عمران خان کی دور میں بھی جب ن لیگ پر برا وقت چل رہا تھا اس وقت پارٹی کی طرف سے ایک ہی مضبوط آواز بن کر میڈیا کے سامنے آئیں اور اپنا مقدمہ عوام کے سامنے رکھا، نوجوان طبقے تک پہنچنے کیلئے مریم نواز شریف نے سوشل میڈیا کو بھرپور طریقے سے استعمال کیا اور ٹوئٹر پر سرگرم ہو گئیں۔ مریم نواز ٹوئٹر پر اپنی دھواں دھار ٹوئٹس کی وجہ سے خاصی شہرت رکھتی ہیں اس وقت مریم نواز کے ٹوئٹر پر 78لاکھ فالورز ہیں۔ فیس بک اور انسٹا گرام پر بھی لاکھوں لوگ انہیں فالو کرتے ہیں۔ پاکستان جیسے ملک میں لیڈر شپ کے اندر چار خصوصیات کا ہونا اہم ہے اور یہ چاروں خصوصیات مریم نواز کے اندر بدرجہ اتم پائی جاتی ہیں۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کی طرح مریم نواز پرکشش شخصیت کی حامل ہیں۔ مریم نواز کی ایک اور اہم خصوصیت ہے کہ انہوں نے کہنہ مشق سیاسی اتالیق کی نگرانی میں تقریر پر عبور حاصل کر لیا ہے۔ وہ عوام کی نبض شناس ہیں اور جان چکی ہیں کہ سامعین کے اندر جوش و جذبہ کب بیدار کرنا ہے اور کب کیا بات کہنی ہے۔ لیڈر کے طور پر جو چیزیں درکار ہوتی ہیں مریم نواز ان سے گزر چکی ہیں اس وقت دور دور تک مریم نواز کی لیڈر شپ کو کوئی چیلنج کرنے والا نہیں، بلاشبہ اس وقت نون لیگ کا مستقبل مریم نواز اور مریم نواز کا مستقبل نون لیگ ہے باقی سب لیڈر شپ ثانوی ہے۔ وہ مریم نواز ہی تھیں جو پاکستان کے مختلف شہروں میں جلسے کرتیں تو وہاں کی عوام مریم نواز کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے امڈ آتے ،عوام کے اندر انھیں پذیرائی خوب ملتی ہے پاکستان کے عوام اس لیڈر شپ کے گن گاتے ہیں جو دلیر، نڈر اور بہادر ہو۔ مریم نواز کی سیاست للکار کے گرد گھومتی ہے۔ مریم نواز شریف کی اسی للکار پر کشمیر کی سرسبز وادیاں ہوں یا پنجاب کے میدان، گلگت بلتستان کے سنگلاخ پہاڑ ہوں یا سندھ کے ریگستان لوگ دیوانہ وار باہر نکلتے ہیں اور انھیں پسند کیا جاتا ہے۔ عمران خان کے دور میں اگرچہ مریم نواز کی پریس کانفرنس، جلسے جلوس میڈیا پر دکھانے پر پابندی تھی لیکن سوشل میڈیا پر اپنے بیانات کی وجہ سے چھائی رہیں۔ ہر عدالت ہر مقدمے، جس میں میاں نواز شریف کو گھسیٹا گیا ان کی بیٹی کو انکے ساتھ شریکِ جرم ٹھہرایا گیا، شاید یہ سوچ کر کہ نواز شریف اپنی تو جان بھی نظریات پر قربان کر دے، اپنی بیٹی پر ہونیوالی سختیوں سے ڈر کر جھک جائے، مگر وہ بیٹی جس پر وار کر کے نواز شریف کو ہرانے کا منصوبہ تھا وہی بیٹی مخالفین کے ہتھکنڈوں کو روکنے کیلئے نواز شریف کے سامنے آہنی دیوار بن گئی۔ یہ جدوجہد صرف ایک بیٹی کی باپ کی خاطر کی جانیوالی جدوجہد نہیں بلکہ ایک سسکتی، لڑکھڑاتی اور گرتی جمہوریت کو نئی زندگی دینے کی ایک کامیاب کوشش بھی تھی۔ تاریخ گواہ ہے کے اصولوں پر قائم قیدی اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھے ظالم حکمرانوں سے جیت جاتے ہیں اور یہ بازی بھی بہادر باپ اور بہادر بیٹی کے نام ہیں، آج بھی سیاست کے تمام ستارے ان بہادر باپ بیٹی کے گرد گھومتے ہیں، آج بھی آزادی کی قیمت نظریے کی قربانی ہے جو انکو قبول نہیں، اس میں کوئی شک نہیں کہ مریم نواز نے ایک بہادر بیٹی کی طرح اپنے باپ کا ساتھ دیتے ہوئے اپنے آپ کو نواز شریف کے بعد پاکستان کا لیڈر منوایا جن کی سوچ اور بیانیہ کافی مضبوط تھا اور ہے، آج ( ن) لیگ کا سیاسی مستقبل مریم نواز شریف سے وابستہ ہے۔ انہوں نے سیاسی جلسوں میں جس طرح اپنا مقدمہ عوام کے سامنے پیش کیا اسی کی بدولت آج ن لیگ پھر سے عوام کے دلوں میں گھر کر چکی ہے۔ اب اقتدار کے ایوانوں میں بھی یہ آواز پوری شدت کے ساتھ گونج رہی ہے کہ آنے والا کل مریم نواز شریف کا ہے۔ آج مریم نواز شریف ایک بیان دیتی ہیں تو پاکستان کے طول و عرض میں اس کی بازگشت سنائی دیتی ہے۔ اس لئے کہ وہ بے باک و بہادر ہے۔ وہ سچ بول رہی ہے، اسے اس بات کی پرواہ نہیں کہ کون کیا کہہ رہا ہے۔ وہ لگن کے ساتھ، حوصلے کے ساتھ، ہمت و استقلال کے ساتھ کھڑی ہے گزشتہ دنوں میں الیکشن میں این اے 119اور پی پی 159میں ان کی بے مثال کامیابیوں کو دیکھتے ہوئے یہ سمجھا جارہا ہے کہ اب کی بار مسلم ن لیگ کی طرف وزارت اعلی کیلئے اگر کوئی امیدوار ہوگا تو وہ مریم نواز متوقع ہوں گی اور اگر وہ پنجاب کو سنبھال لیتی ہیں تو یہ مسلم لیگ ن کی بڑی کامیابی ہوگی اور جماعت میں اکثریت کی بھی یہی رائے ہے کہ مریم نواز کہ وزیراعلیٰ پنجاب کی امیدوار کے طور پر لایا جائے تو اس سے پارٹی پنجاب میں مزید مضبوط ہوگی اور پنجاب کے عوام کو وزارت اعلی کے دوران سول بیوروکریسی کو سپورٹ اور اعتماد فراہم کرنے کیلئے شہباز شریف کی طرز حکمرانی رکھنے والا ایک ایسا وزیر اعلیٰ چاہتے ہیں جو عوامی مسائل کا تدارک کر سکے، چونکہ پنجاب چونکہ ملک کا سب سے بڑا صوبہ ہے اس لئے یہاں تعینات تمام افسر خواہ ان کا تعلق پاکستان ایڈمنسٹریٹو سروس ( سابقہ ڈی ایم جی گروپ) سے یا پھر صوبائی سول سروس ( پروونشل مینجمنٹ سروس) سے ہو کو سیاسی قیادت سے اچھے ورکنگ ریلیشن شپ کی خواہاں ہوتی ہے اور انہیں اپنی مرضی سے نہیں ہانکا جاسکتا۔ یہاں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ اگر مریم نواز بطور وزیر اعلیٰ پنجاب سامنے آتی ہے تو انہیں بھی پنجاب میں شہباز شریف کی طرز حکمرانی کو دیکھتے ہوئے بیوروکریسی کو ساتھ لے کر چلنا پڑے گا، جس سے پنجاب میں افسر شاہی کے ساتھ اچھا ورکنگ ریلیشن شپ رکھنے سے صوبے کی ترقی کے حوالے سے گہرے اثرات مرتب ہوں گے، کیونکہ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ شہباز شریف نے وزارت اعلی کے دوران سول بیوروکریسی کو سپورٹ اور اعتماد فراہم کیا جس کی وجہ سے پنجاب نے دیگر صوبوں کی نسبت زیادہ تیزی سے ترقی کی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button