CM RizwanColumn

عوام کو نواز دو

سی ایم رضوان
ان دنوں پاور کوریڈورز کے اشاروں پر سیاست کا الزام ملک کا ہر چھوٹا بڑا ن لیگ پر لگا رہا ہے لیکن یار لوگ جانتے ہیں کہ ان ناکردہ اشاروں کو فی الاصل بلاول کے پاپا سمجھ بھی رہے ہیں اور ان مبہم اشاروں پر باقاعدہ شطرنج کی بساط بچھا کر چالیں چلنے میں مصروف ہیں جبکہ ن لیگ تو سیدھی سادی عوامی سیاست کر رہی ہے اور پچھلے چند روز کے جلسوں میں ہی عام سطح پر نواز شریف کا بیانیہ عوام میں مقبول ہو گیا ہے۔ یہ امر بھی یاد رہے کہ اس بار نواز شریف مخلوط حکومت یا کمزور اکثریت کی ساتھ حکومت چھوڑ کر اپوزیشن میں بیٹھنا زیادہ مناسب سمجھیں گے مگر سابقہ غلطیوں کو ہر گز نہیں دہرائیں گے۔ ان دنوں مسلم لیگ ( ن) کا منشور بھی قابل توجہ ہے جس میں پارلیمنٹ کی بالا دستی، نیب کے خاتمے، آرٹیکل 62، 63کی اصلی حالت میں بحالی، چھوٹے کسانوں کو سود سے پاک قرضوں کی فراہمی، فصلوں کے نقصان کی کمی پوری کرنے کے لئے جدید ٹیکنالوجی کے استعمال، زراعت کی جدت، کسان کی خوشحالی نیز منشور پر موثر عمل یقینی بنانے کے لئے خصوصی عملدرآمد کونسل کے قیام، حکومتی کارکردگی کی سہ ماہی رپورٹ مرتب کرنے، آئینی، قانونی، عدالتی اور انتظامی اصلاحات کی منصوبہ بندی، گورننس سسٹم میں اصلاحات، مالی سال 2025تک مہنگائی میں 10فیصد کمی، چار سال میں مہنگائی 4سے 6فیصد تک لانے کے ہدف، ایک کروڑ سے زائد نوکریوں کی فراہمی، غربت اور بیروزگاری میں کمی، تعلیم کے لئے بجٹ میں اضافے، سستی اور زیادہ بجلی کی فراہمی، بجلی بلوں میں کمی، ہر صوبے میں کینسر ہسپتال کے قیام، یونیورسل ہیلتھ کوریج اور انشورنس اور کم آمدن والے افراد کے لئے علاج کی مفت سہولیات کی فراہمی جیسے نکات شامل ہیں۔ مسلم لیگ ن کے اس منشور کی خاص بات یہ بھی ہے کہ ماضی کی کارکردگی کو بھی اس کا حصہ بنایا گیا ہے۔ اس میں ماضی کی کارکردگی کو بھی شامل کیا گیا ہے اور یہ بھی بتایا گیا ہے کہ ماضی کے وعدے پورے ہوئے یا نہیں۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ یہ منشور پیش کرتے ہوئے نواز شریف نے مہنگائی پر آبدیدہ ہو کر کہا کہ ان کی توجہ انتقام نہیں ملکی ترقی پر مرکوز ہے۔ یہ بات تو ان کے مخالفین بھی مانتے ہیں کہ اگر اُن کی 16ماہ کی حکومت معیشت نہ سنبھالتی تو ملک دیوالیہ ہو جاتا۔
نواز شریف کا ان دنوں تکرار کے ساتھ یہ سوال کافی حد تک درست ہے کہ 2018ء میں ان کو اقتدار سے محروم کر کے ملک و قوم کو کیا فائدہ دیا گیا۔ بلکہ یہ بھی درست ہے کہ صرف 2018ء ہی نہیں ان کے تینوں بار کے اقتدار کے پورے راستے میں کھڑی کی جانے والی رکاوٹوں نے ملکی معاشی ترقی کا سفر کھوٹا کیا۔ گزشتہ پانچ عشرے کی ملکی سیاسی تاریخ کی ابتدا نوجوان نواز شریف کے سیاست کے میدان میں داخل ہونے سے ہوئی تھی۔ وہ ایک قومی سیاسی رہنما کے طور پر اُبھرے تھے۔ 1990ء میں وزارتِ عظمیٰ کا منصب سنبھالا تو توقع یہی تھی کہ پاکستان بہت جلد بڑی معاشی طاقت بن جائے گا۔ سرکاری اداروں کو پرائیویٹائز کرنے، نجی سرمایہ کاری کرنے، ہمسائیوں کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کے حوالے سے ان کے اہداف بھی نمایاں تھے لیکن اس وقت کے صدر پاکستان غلام اسحاق خان رکاوٹ بن گئے۔ ان کے ساتھ ٹکرانے نواز حکومت کو اُلٹا کر رکھ دیا۔ یاد رہے کہ اس سے پہلے 1977ء کے انتخابات کے بعد جو بحران پیدا ہوا، اس نے اِس سوچ کو تقویت دی تھی کہ صدر کا منصب بے اختیار نہیں ہونا چاہیے۔ 1977ء میں بھٹو حکومت کے زیر انتظام انتخابات پر دھاندلی کے سنگین الزامات لگے تو صدرِ مملکت فضل الٰہی چودھری سے مطالبہ کیا جانے گا کہ وہ مداخلت کریں، قومی اسمبلی کو تحلیل کر دیں یا حکومت کو برخواست کر دیں۔ اس مطالبے کو تسلیم کرنے کا کوئی آئینی راستہ موجود نہیں تھا، ڈیڈ لاک بڑھا تو مارشل لاء نے راستہ بنا لیا۔ اسی راستے سے ذوالفقار علی بھٹو ایوانِ اقتدار سے نکال دیئے گئے۔ بعد ازاں یہ سمجھا جانے لگا کہ اگر صدرِ پاکستان کے پاس کوئی آئینی اختیار ہوتا تو وہ حکومت کے خلاف کارروائی کر کے ملک کو مارشل لاء سے بچا سکتے تھے۔ اسی سوچ نے دستور میں اُس ترمیم کا دروازہ کھولا تھا جس کے تحت صدرِ مملکت کو قومی اسمبلی تحلیل کرنے کا اختیار دے دیا گیا۔ سمجھا جانے لگا کہ اب سیاسی عمل غیر ہموار نہیں ہو سکے گا، کسی عوامی حکومت نے اگر حدود سے تجاوز کیا تو اُسے آئینی طور پر گھر بھیجا جا سکے گا۔ یہ اختیار جو انتہائی نیک نیتی سے صدرِ مملکت کو فراہم کیا گیا تھا وہی ملک میں عدمِ استحکام کا باعث بن گیا۔ سب سے پہلے تو جنرل ضیاء الحق نے اسے وزیراعظم محمد خان جونیجو کے خلاف استعمال کیا۔ جب ایسا ہوا تو ملک میں کوئی آئینی بحران نہیں تھا، یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ اس اختیار کے استعمال نے آئینی بحران پیدا کر دیا۔ نئے انتخابات سے پہلے ہی جنرل ضیاء الحق ہوائی حادثے میں جاں بحق ہو گئے، ان کی جگہ غلام اسحاق خان صدر بن گئے۔ انہوں نے بھی اس صوابدیدی اختیار کو پہلے وزیراعظم بینظیر کی قومی اسمبلی کے خلاف استعمال کیا۔ بعد ازاں وزیراعظم نواز شریف کو نشانہ بنایا۔ نواز شریف سپریم کورٹ پہنچے اور مقدمہ جیت گئے لیکن ملکی ترقی کا جو سفر انہوں نے شروع کیا تھا وہ رک گیا۔ نواز شریف دوسری بار وزیراعظم منتخب ہوئے تو بھارت نے ایٹمی دھماکہ کر دیا، نواز شریف نے جواباً چھ ایٹمی دھماکے کر کے منہ توڑ جواب دیا۔ بھارتی وزیراعظم نے یہ منظر دیکھا تو تاریخ میں پہلی بار پاکستان کے ساتھ بامقصد اور نتیجہ خیز مذاکرات کے لئے آمادگی ظاہر کر دی۔ دونوں ممالک ناقابل ِتسخیر اور دونوں ایک دوسرے کو تباہ کر دینے پر قدرت حاصل کر چکے تھے۔ خطہ میں طاقت کے اس توازن نے پُرامن بقائے باہمی کی ضرورت کو بھی اُجاگر کیا اور بھارت کی ہٹ دھرمی کو بھی بے نقاب کیا۔ بھارتی وزیراعظم واجپائی خود چل کر پاکستان پہنچے اور کشمیر کا مسئلہ حل کرنے کے لئے ٹھوس پیش رفت پر اتفاق کر لیا۔ دوسری طرف اس وقت کے آرمی چیف جنرل پرویز مشرف کی قیادت میں فوجی جرنیلوں کے ایک ٹولے نے وزیراعظم نواز شریف کے حکم اور علم کے بغیر ہی کارگل کا محاذ کھول دیا یوں دوستی کا یہ سفر ابتداء میں ہی ختم ہو گیا۔ دوسری طرف پروپیگنڈہ شروع کر دیا گیا کہ نواز شریف نے پاک فوج کو کارگل میں تنہا چھوڑ کر اپنے سپاہیوں کو شہید کرایا۔ اسی بناء پر وزیراعظم نواز شریف نے جنرل پرویز مشرف کو ان کے عہدے سے ہٹانے کا فیصلہ کیا تو جرنیلوں کے اسی ٹولے نے نواز شریف کے خلاف بغاوت کر دی۔ یہاں تک کہ وہ وقت بھی آ گیا کہ نواز شریف کو ہتھکڑیوں سمیت کال کوٹھڑی کا منہ دیکھنا پڑ گیا۔ ایک بوگس مقدمہ قاءم کر کے عمر قید کی سزا بھی دلوا دی گئی۔ بعد ازاں ملک بدر کر کے سعودی عرب پہنچا دیا گیا۔ یوں نواز شریف کو ایک اور امتحان سے گزرنا پڑا، اس طرح ایک طرف تو عوامی حکومت کا خاتمہ ہو گیا اور دوسری طرف ان کے جاری کردہ ترقیاتی اور تعمیراتی منصوبے کھٹائی کا شکار ہو گئے۔ کئی سال بیرون ملک گزارنے کے بعد وطن واپس آئے تو دوبارا سے ایک نئے عزم اور ملکی ترقی کے ارادہ سے 2013ء کے انتخابات میں حصہ لیا۔ اس بار دو تہائی اکثریت سے کامیابی ملی۔ دہشت گردی، لوڈ شیڈنگ کا خاتمہ کیا۔ ملکی معیشت کو بھی مضبوطی دی اور آئی ایم ایف کے قرضوں سے بھی آئندہ کے لئے ملک کی جان چھڑانے کا بندوبست کیا۔ اب کی بار ان کے خلاف پانچویں پشت کی دوغلی ابلاغی جنگ شروع کر دی گئی۔ حقائق مسخ ہو گئے اور جھوٹ نمایاں ہو گیا اور جھوٹ یہ تھا کہ نواز شریف چور ہے اور اس کا مخالف صادق اور امین ہے۔ عدلیہ نے بھی اس معاملی میں خوب سہولت کاری کی۔ یہاں تک کہ 2018ء کے انتخابات کا انعقاد ہوا تو وزارتِ عظمیٰ کا تاج عمران خان کے سر سجا ہوا تھا اور نواز شریف ایک مرتبہ پھر پس زندان ہو چکے تھے۔ پی ٹی آئی دور حکومت میں وہ کچھ ہوا ملکی تاریخ میں آج تک نہیں ہوا تھا۔ اسی حکومت کی نادانیوں کے باعث آج ملک کا غریب طبقہ بھوک سے دوچار ہو گیا ہے۔ یہاں تک کہ فوجی قیادت اور بانی پی ٹی آئی کے درمیان ٹکرائو کے بعد ان کا اقتدار بھی ڈانواں ڈول ہو گیا۔ دوسری طرف ملکی سیاستدانوں نے مل کر بانی پی ٹی آئی کو عدم اعتماد کے ووٹ سے اسمبلی سے نکال باہر کر دیا۔ بعد ازاں ملکی فوجی قیادت کے خلاف سازشوں حتیٰ کہ نو مئی جیسے سانحہ کا ارتکاب کر کے بانی پی ٹی آئی نے خود ہی ثابت کر دیا کہ وہ اپنے اقتدار کی خاطر ملک و قوم اور ملکی سلامتی و استحکام تک کو دائو پر لگا دینے کی سوچ رکھتے ہیں۔ اب عدالت نے انہیں گھڑی چوری کا بھی مجرم ثابت کر دیا ہے اور اہم ترین ملکی راز افشاء کرنے کا مجرم بھی قرار دے دیا ہے۔ اب وہ اڈیالہ جیل میں بیٹھے کئی دیگر سنگین مقدمات کا بھی سامنا کر رہے ہیں۔ انتخابات کی آمد آمد ہے اور نواز شریف ایک بار پھر ملک کی قیادت سنبھالنے کا عزم باندھ کر میدانِ عمل میں ہیں۔ وہ مسلم لیگ ن کے ساتھ ایک بار پھر ملک کو سنگین ترین بحران سے نکالنے کا ارادہ لے کر انتخابات کی مہم چلا رہے ہیں۔ نواز شریف کے منشور سے بھی واضح ہے کہ وہ ایک بار پھر ملک کو معاشی طاقت بنانے کا ارادہ کئے ہوئے ہیں۔ ان کا ماضی کم از کم یہ گواہی ضرور دے رہا ہے کہ وہ ملکی معیشت کو اپنے پائوں پر کھڑا کرنے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں، ان حالات میں ہم تو یہی کہہ سکتے ہیں کہ اس بار اگر عوام ان کو وزیراعظم منتخب کریں تو وہ عوام کو خوشحالی سے نواز دیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button