ColumnImtiaz Ahmad Shad

جھوٹے پر لعنت

امتیاز احمد شاد
وقتی فائدے کے لئے انسان بعض اوقات جھوٹ کا سہارا لیتا ہے حالانکہ بے بنیاد باتوں کو لوگوں میں پھیلانے، جھوٹ بولنے اور افواہ کا بازار گرم کرنے سے کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوتا۔ البتہ! اتنی بات تو ضرور ہے کہ یہی جھوٹ، چاہے جان کر ہو، یا اَنجانے میں، کتنے لوگوں کو ایک دوسرے سے بدظن کر دیتا ہے، یہ لڑائی، جھگڑے اور خون و خرابے کا باعث ہوتا ہے، کبھی تو بڑے بڑے فساد کا سبب بنتا ہے اور بسا اوقات پورے معاشرے کو تباہ و برباد کرکے رکھ دیتا ہے۔ جب جھوٹ بولنے والے کی حقیقت لوگوں کے سامنے آتی ہے، تو وہ بھی لوگوں کی نظر سے گر جاتا ہے، اپنا اعتماد کھو بیٹھتا ہے اور پھر لوگوں کے درمیان اس کی کسی بات کا کوئی اعتبار نہیں ہوتا۔ جھوٹ اور الزام تراشی کے بارے میں اللہ تعالیٰ اور ہمارے پیارے رسول ٔ نے سختی سے منع فرمایا ہے۔ جھوٹ بولنے والے کو لگتا ہے کہ میرا جھوٹ نہیں پکڑا جائے گا۔ لیکن انسان جب بھی کچھ بولتا ہے تو اللہ کے فرشتے اسے نوٹ کرتے رہتے ہیں، پھر اسے اس ریکارڈ کے مطابق اللہ کے سامنے قیامت کے دن جزا و سزا دی جائے گی۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے، ترجمہ: ’’ وہ کوئی لفظ منہ سے نہیں نکالنے پاتا، مگر اس کے پاس ہی ایک تاک لگانے والا تیار ہے‘‘۔ ( سورہ ق:81 ) ۔ یعنی انسان کوئی کلمہ جسے اپنی زبان سے نکالتا ہے، اُسے یہ نگراں فرشتے محفوظ کر لیتے ہیں۔ یہ فرشتے اس کا ایک ایک لفظ لکھتے ہیں، خواہ اس میں کوئی گناہ یا ثواب اور خیر یا شر ہو یا نہ ہو۔ امام احمد نے بلال بن حارث مزنیؓ سے روایت کیا ہے کہ رسولِ اکرمؐ نے فرمایا: ’’ انسان بعض اوقات کوئی کلمہ خیر بولتا ہے، جس سے اللہ تعالیٰ راضی ہوتا ہے، مگر یہ اسے معمولی بات سمجھ کر بولتا ہے، اسے پتہ بھی نہیں ہوتا کہ اس کا ثواب کہاں تک پہنچا کہ اللہ تعالیٰ اس کے لیے اپنی رضائے دائمی قیامت تک کیلئے لکھ دیتا ہے۔ اسی طرح انسان کوئی کلمہ اللہ کی ناراضی کا ( معمولی سمجھ کر) زبان سے نکال دیتا ہے، اسے گمان نہیں ہوتا کہ اس کا گناہ و وبال کہاں تک پہنچے گا؟ اللہ تعالیٰ اس کی وجہ سے اس شخص سے اپنی دائمی ناراضی قیامت تک کے لیے لکھ دیتا ہے۔ ( بن کثیر، تلخیص، از: معارف القرآن، ج: ص:8:341)۔ جھوٹ بولنا گناہِ کبیرہ ہے اور یہ ایسا گناہِ کبیرہ ہے کہ قرآن کریم میں، جھوٹ بولنے والوں پر اللہ کی لعنت کی گئی ہے۔ ارشادِ ربانی ہے: ’’ لعنت کریں اللہ کی اُن پر جو کہ جھوٹے ہیں۔( سورہ آلِ عمران:16 ) ۔ جیسا کہ مندرجہ بالا قرآنی آیات میں جھوٹ اور بلا تحقیق کسی بات کے پھیلانے کی قباحت و شناعت بیان کی گئی ہے، اسی طرح احادیثِ مبارکہ میں بھی اس بدترین گناہ کی قباحت و شناعت کھلے عام بیان کی گئی ہے۔ ایک حدیث میں یہ ہے کہ جھوٹ اور ایمان جمع نہیں ہوسکتے، لہٰذا اللہ کے رسول ٔ نے جھوٹ کو ایمان کے منافی عمل قرار دیا ہے ۔ حضرت صفوان بن سلیمؓ بیان کرتے ہیں: اللہ کے رسول ؐ سے پوچھا گیا: ’’ کیا مومن بزدل ہوسکتا ہے؟ آپؐ نے جواب دیا : ہاں‘‘۔ پھر سوال کیا گیا: کیا مسلمان بخیل ہوسکتا ہے؟ آپؐ نے فرمایا: ہاں‘‘۔ پھر عرض کیا گیا: کیا مسلمان جھوٹا ہوسکتا ہے؟ آپؐ نے فرمایا: نہیں ( اہلِ ایمان جھوٹ نہیں بول سکتا)۔ ( موطا امام مالک، حدیث:428/3630)۔
ایک حدیث شریف میں جن چار خصلتوں کو محمد عربیؐ نے نفاق کی علامات قرار دیا ہے، ان میں ایک جھوٹ بولنا بھی ہے، لہٰذا جو شخص جھوٹ بولتا ہے، وہ خصلتِ نفاق سے متصف ہے۔ فرمایا: ’’ جس میں چار خصلتیں ہوں گی، وہ خالص منافق ہے اور جس شخص میں ان خصلتوں میں کوئی ایک خصلت پائی جائے، تو اس میں نفاق کی ایک خصلت ہے، تا آں کہ وہ اسے چھوڑ دے: جب اس کے پاس امانت رکھی جائے تو خیانت کرے، جب بات کرے تو جھوٹ بولے، جب وعدہ کرے تو دھوکہ دے اور جب لڑائی جھگڑا کرے تو گالم گلوچ کرے۔ ( صحیح بخاری، حدیث:43)۔ ایک حدیث میں آیا ہے کہ جب بندہ جھوٹ بولتا ہے، تو رحمت کے فرشتے اس سے ایک میل دور ہوجاتے ہیں۔ رسولِ اکرمؐ نے ایک حدیث میں جھوٹ بولنے کو بڑی خیانت قرار دیا ہے۔ ارشاد فرمایا: ’’ یہ ایک بڑی خیانت ہے کہ تم اپنے بھائی سے ایسی بات بیان کرو، جس حوالے سے وہ تجھے سچا سمجھتا ہے، حالاں کہ تم اس سے جھوٹ بول رہے ہو۔ ( سنن ابو دائود، حدیث: 1794)۔ ایک حدیث شریف میں نبی کریمؐ نے جھوٹ کو کبیرہ گناہوں میں بھی بڑا گناہ شمار کیا ہے: حضرت ابو بکرؓ فرماتے ہیں کہ نبی اکرمؐ نے ارشاد فرمایا: ’’ کیا میں تمہیں وہ گناہ نہ بتلاوں جو کبیرہ گناہوں میں بھی بڑے ہیں؟ تین بار فرمایا۔ پھر صحابہ کرامؓ نے عرض کیا: ہاں! اے اللہ کے رسولؐ۔ پھر آپؐ نے ارشاد فرمایا: ’’ اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرانا اور والدین کی نافرمانی کرنا۔ پھر آپؐ بیٹھ گئے، جبکہ آپؐ ( تکیہ پر) ٹیک لگائے ہوئے تھے، پھر فرمایا: ’’ خبردار! اور جھوٹ بولنا بھی ( کبیرہ گناہوں میں بڑا گناہ ہے) ‘‘۔ ( صحیح بخاری، حدیث: 4562)۔
صرف یہی نہیں کہ ایسا جھوٹ جس میں فساد و بگاڑ ہو اور ایک آدمی پر اس جھوٹ سے ظلم ہو رہا ہو، وہی ممنوع ہے، بلکہ لطف اندوزی اور ہنسنے ہنسانے کے لیے بھی جھوٹ بولنا ممنوع ہے۔ اللہ کے رسولؐ نے ارشاد فرمایا: ’’ وہ شخص برباد ہو جو ایسی بات بیان کرتا ہے، تاکہ اس سے لوگ ہنسیں، لہٰذا وہ جھوٹ تک بول جاتا ہے، ایسے شخص کے لیے بربادی ہو، ایسے شخص کے لیے بربادی ہو‘‘ ۔ ( سنن ترمذی، حدیث:5132 )۔ جھوٹ کبیرہ گناہوں میں سے ہے، لہٰذا جھوٹ بولنا دنیا و آخرت میں سخت نقصان اور محرومی کا سبب ہے۔ جھوٹ اللہ رب العالمین اور نبی کریمؐ کی ناراضی کا باعث ہے۔ یہ ایک ایسی بیماری ہے، جو دوسری بیماریوں کے مقابلے میں بہت عام ہے۔ لوگ چھوٹی چھوٹی باتوں کے لیے جھوٹ کا ارتکاب کرتے ہیں اور اس بات کی پروا نہیں کرتے کہ اس جھوٹ سے انہوں نے کیا پایا اور کیا کھویا؟ جب لوگوں کو جھوٹے شخص کی پہچان ہوجاتی ہے، تو لوگ اسے کبھی خاطر میں نہیں لاتے۔ جھوٹ بولنے والا شخص کبھی کبھار حقیقی پریشانی میں ہوتا ہے، مگر سننے والا اس کی بات پر اعتماد نہیں کرتا۔ ایسے شخص پر یقین کرنا مشکل ہوجاتا ہے، کیوں کہ وہ اپنے اعتماد و یقین کو مجروح کر چکا ہے۔ جھوٹ ایک ایسی بیماری ہے جو معاشرے میں بگاڑ پیدا کرتی ہے۔ لوگوں کے درمیان لڑائی، جھگڑے کا سبب بنتی ہے۔ دو آدمیوں کے درمیان عداوت و دشمنی کو پروان چڑھاتی ہے۔ اس سے آپس میں ناچاقی بڑھتی ہے۔ اگر ہم ایک صالح معاشرے کا فرد بننا چاہتے ہیں، تو یہ ہماری ذمے داری ہے کہ ہم لوگوں کو جھوٹ کے مفاسد سے آگاہ اور باخبر کریں، جھوٹے لوگوں کی خبر پر اعتماد نہ کریں، کسی بھی بات کی تحقیق کے بغیر اس پر ردّ ِعمل نہ دیں۔ اگر ایک آدمی کوئی بات آپ سے نقل کرتا ہے تو اس سے اس بات کے ثبوت کا مطالبہ کریں۔ اگر وہ ثبوت پیش نہیں کر پاتا تو اس کی بات پر کوئی توجہ نہ دیں اور اسے دھتکاریں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button