ColumnM Riaz Advocate

ات خدا دا ویر

محمد ریاض ایڈووکیٹ
پاکستانی سیاست میں ذوالفقار علی بھٹو، بے نظیر بھٹو، نواز شریف کے بعد عمران خان ان چند سیاستدانوں میں شامل ہیں جو ایوان اقتدار میں ہوں یا اپوزیشن بینچوں پر، سیاسی و غیر سیاسی حلقوں، عوامی حلقوں اور میڈیا میں توجہ کا مرکز رہتے ہیں۔ عمران خان کی شہرت کا طوطی سیاست میں انٹری سے بہت پہلے ہی سے بول رہا تھا۔ یہ کہنا دروغ گوئی نہ ہوگا کہ پاکستان کے شہر شہر گائوں گائوں میں کرکٹ کے کھیل کی پہچان و شہرت عمران خان اور جاوید میانداد کی بدولت ہے۔ 1992 کرکٹ ورلڈ کپ جیتنے کے بعد شوکت خانم میموریل کینسر ہسپتال کی تعمیر نے عمران خان کو شہرت کی بلندیوں تک پہنچا دیا۔ 1996سے سیاست کر آغاز کیا ۔ 30اکتوبر 2011کے لاہور جلسہ عام کے بعد عمران خان نے پیچھے مڑ کر نہ دیکھا۔ قسمت کی دیوی نے ان کے سر پر اقتدار کا تاج سجایا۔ شہرت، اقتدار کی بلندیوں کو چھوتا ہوا عمران خان آج اڈیالہ جیل میں قید و بند کی صعوبتیں برداشت کر رہا ہے۔ سائفر اور توشہ خانہ مقدمات کے فیصلے سنا دیئے گئے ہیں۔ ابھی القادر ٹرسٹ، فارن فنڈنگ کیس، 9مئی جیسے دیگر مقدمات کے فیصلے آنا باقی ہیں۔ عمران خان کے خلاف چلنے والے مقدمات اور ان کے فیصلے پاکستانی سیاست اور خصوصا وفاقی سطح کی جماعت پاکستان تحریک انصاف کے لئے اچھا شگون نہیں ہے۔ کیا عمران خان کے خلاف چلنے والے مقدمات سیاسی ہیں، بدنیتی پر مبنی ہیں یا سازش؟ یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا۔ بحیثیت سیاست و قانون کے طالب علم میری نظر میں عمران خان کے خلاف ہونے والی موجودہ کارروائیوں کو دیکھتے ہوئے عمران خان کے دور حکومت میں ہونے والی انتقامی کارروائیوں کو پس پشت نہیں ڈالا جاسکتا ۔ یقینی طور پر اسے مکافات عمل ہی کہا جاسکتا ہے۔ کیونکہ منہ پر ہاتھ پھیر پھیر کر مخالفین کے خلاف انتقامی کارروائیوں کی دھمکیوں کے ساتھ ساتھ عملی جامہ پہنانے میں عمران خان نے کسی قسم کی کوتاہی نہ برتی۔ عمرانی دور حکومت میں عسکری حلقوں اور عدلیہ میں پائی جانے والی ان کی حمایتی خلائی مخلوق گٹھ جوڑ کی بدولت چُن چُن کر حزب اختلاف کے سیاستدانوں یہاں تک کہ انتہائی محنتی و قابل بیوروکریٹس کو مہینوں کے حساب سے پابند سلاسل کیا جاتا رہا۔ حوالے کے طور پر چند مثالیں بیان کرنا ضروری ہے ۔ جیسا کہ احد چیمہ1148دن۔ سید خورشید شاہ 765دن۔ حمزہ شہباز 627دن ۔ فواد حسن فواد 510دن۔ خواجہ سعد رفیق نے 462دن ۔ میاں نواز شریف 374دن ۔ حنیف عباسی 352دن۔ شہباز شریف 340دن۔ حافظ نعمان 305دن۔ کامران مائیکل 270دن۔ راجہ قمر السلام 248دن۔ شاہد خاقان عباسی 222دن۔ یوسف عباس 215دن۔ فریال تالپور 187دن ۔ آصف علی زرداری 185دن۔ خواجہ آصف 176دن ۔ رانا ثناء اللہ 174دن ۔ مریم نوازشریف 157۔ مفتاح اسماعیل 140دن۔ احسن اقبال 66دن۔ میاں جاوید لطیف56دن۔ کیپٹن ( ر) صفدر 53دن اور عرفان صدیقی 6دن، ان افراد نے بنا کسی جرم جیل میں گزارے۔ بعد ازاں یہ افراد عدالتوں سے باعزت بری ہوئے۔ عمران خان مخالفین کو جیل میں ڈلوانے کے بعد بھی چین سے نہیں بیٹھے۔ کبھی جیل رولز کے تحت طے شدہ سہولیات ختم کروائیں تو کبھی گھر کا کھانا بند کروایا۔ مخالفین کے گھروں، جائیدادوں اور کاروباری مقامات کو بھی نہ بخشا۔ خلائی مخلوق اور عمرانی گٹھ جوڑ کی بدولت مخالف سیاسی قائدین کی زندگیاں اجیرن کردی گئیں۔ عمرانی دور حکومت میں سیاستدان کے علاوہ پی ٹی آئی کے خلاف اُٹھنے والی ہر آواز کو خاموش کرنے کی ہر ممکن کوشش کی چاہے وہ بیوروکریٹس ہوں، کاروباری شخصیات، یونیورسٹی کے پروفیسرز ہوں یا پھر صحافی حضرات۔ پاکستان کی تقریبا پون صدی پر محیط سیاسی تاریخ میں بظاہر سیاسی حکمران کی جانب سے اتنی گرفتاریاں منظر عام پر نہ آئیں جتنی اکیلے عمرانی دور حکومت میں ہوئیں۔ چور ڈاکو کرپٹ کی تسبیح ایسی پھیری کہ پی ٹی آئی کے علاوہ ہر سیاستدان کو گالی بنا ڈالا۔ جبکہ تاریخ گواہ ہے کہ عمران خان نے جسکو چور ڈاکو کہا اسی کو نہ صرف پارٹی میں اونچے مقام پر جگہ دی بلکہ اعلیٰ ترین حکومتی عہدوں سے بھی نوازا۔ حوالہ کے طور پرویز الٰہی کی مثال ہی سب پر بھاری ہے۔ وہی پرویز الٰہی جس کو پنجاب کا سب سے بڑا ڈاکو قرار دیا، اسی کو نہ صرف پارٹی کا صدر بنوایا بلکہ پاکستان کے سب سے بڑے صوبہ پنجاب کی اسمبلی کا سپیکر اور بعد ازاں وزیراعلیٰ پنجاب بھی بنوایا۔ عمرانی دور حکومت میں حکومتی کرپشن پر اُٹھنے والی ہر آواز کو بند کرایا۔ کرپشن کا نعرہ بلند کرکے خلائی مخلوق کے کندھوں پر سوار ہو کر مسند اقتدار تک پہنچے مگر صوبہ خیبر پختونخوا کے احتساب کے ادارے کو تالے لگوا دیئے۔ نیب کے چیئرمین جسٹس جاوید اقبال نے حکومتی کرپشن پر ایکشن لینے کے لئے آنکھیں ہی دکھائیں تو نیب چیئرمین کا منہ بند کرنے کے لئے طیبہ گل نامی خاتون کے ساتھ مبینہ جنسی ہراسانی ویڈیو ٹی وی چینلز کی زینت بنا دی گئی۔ احتساب کے ادارے کو انتقامی کارروائیوں کی آماجگاہ بنا دیا گیا۔ نجی ٹی وی نے عمرانی حکومت پر نکتہ چینی کی تو اس کے مالک کو تیس سال پرانے زمین کے معاملے میں اٹھوا کر مہینوں تک پابند سلاسل رکھا۔ پارلیمنٹ اجلاسوں میں روایات کے برعکس عمران خان اپوزیشن جماعتوں کے لیڈران کے ساتھ ہاتھ تک ملانے کو اپنی توہین سمجھتا تھا۔ پنجابی میں اس طرح کے رویے کو ’’ ات چکنا‘‘ کہا جاتا ہے۔ افسوس کل تک مخالفین کو چور ڈاکو کہہ کر پکارنے والا شخص آج مکافات عمل کا شکار دکھائی دے رہا ہے۔ آج انہی عدالتوں سے چور، کرپٹ اور ملک دشمن سرگرمیوں میں ملوث مجرم قرار پاکر عمران خان جیل کی تاریک و تنگ دیواروں میں اپنا وقت گزار رہا ہے۔ پی ٹی آئی اور خصوصا عمران خان کے حالات دیکھ کر مرحوم سینیٹر مشاہد اللہ خان کے سینیٹ کے اجلاس میں تاریخی الفاظ ’’ جس دن آپ کو جیل جانا پڑنا ہے آپ نے رونا ہے اور آپ کے آنسو پونچھنے والا کوئی نہیں ہوگا‘‘، بہت یاد آتے ہیں۔ سیانے سچ ہی کہہ گئے ہیں کہ ’’ ات خدا دا ویر ہوندا اے‘‘۔ کاش یہ بات عمران خان مسند اقتدار پر براجمان ہوتے ہوئے سمجھ جاتے۔ یاد رہے سدا بادشاہی میرے رب کی ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button