Column

پلان 2025۔ خدشات!!!

محمد مبشر انوار( ریاض)
بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے دل یقینا پاکستان کے ساتھ دھڑکتے ہیں کہ خواہ وہ تارکین وطن ہی ہیں لیکن بیرون ملک رہتے ہوئے انہیں اس امر کا شدت یہ احساس ہے کہ ان کا وطن، ان کا گھر بہرطور پاکستان ہے، جس نے انہیں اقوام عالم میں ایک پہچان، ایک شناخت عطا کر رکھی ہے۔ اس پس منظر میں جب پاکستان میں کشتی کو بھنور میں دیکھتے ہیں ، اس کے سیاسی و معاشی حالات پر نظر دوڑاتے ہیں تو دل و دماغ میں خوف طاری ہو جاتا ہے کہ کہیں خدانخواستہ عاقبت نا اندیشوں کی غلط پالیسیوں یا جانبدارانہ عوامل، اس ملک کو اتنا نقصان نہ پہنچا دیں کہ پھر تلافی کی کوئی صورت نظر نہ آئے۔ بدقسمتی یہ ہے کہ پاکستان مخالف روز اول سے ہی اس کی وجود کے خلاف برسر پیکار دکھائی دیتے ہیں، اندرونی و بیرونی محاذ پر اس ہمہ وقت مسائل کا سامنا دکھائی دیتا ہے، ارباب اختیار بضد ہیں کہ یہ ملک ان کے تحت چلے گا، خواہ اس کا نظام حکومت کچھ بھی ہو، انہیں اس سے کوئی غرض نہیں، ان کا اشارہ ابرو ہی اس کی تقدیر کا فیصلہ کرے گا۔ اس ضمن میں جو کچھ ہو چکا اور جو ہونے جا رہا ہے، وہ انتہائی تکلیف دہ نظر آتا ہے کہ خواہشات و ذاتی انا کے پس منظر میں ایسی قیادت کو مسلط کرنے کی تیاری ہو رہی ہے کہ جس کو نہ عوام تسلیم کر رہے ہیں اور کل تک یہی قیادت طاقتوروں کے نزدیک ناقابل برداشت رہی لیکن آج حالات نے ایسا پلٹا کھایا ہے کہ اس سیاسی قیادت کو ہر صورت حکمرانی پر فائز کرنے کی ہر ممکن کوشش کی جارہی ہے۔ بدقسمتی یہ ہے کہ اس سارے کھیل میں، ہر بار ذہن ماضی کے دریچوں میں جا کھلتا ہے اور بیرون دشمن عناصر کے وہ گندے منصوبے نظروں کے سامنے آ جاتے ہیں کہ جنہیں دیکھنے، سوچنے اور تسلیم کرنے کے لئے دل و دماغ مائل نہیں ہوتا لیکن معروضی حالات کا جائزہ لیتا ہوں تو سرتاپا کانپ جاتا ہوں کہ ہم قدم بقدم، دانستہ یا نادانستہ اس منصوبے کی تکمیل میں مشغول دکھائی دیتے ہیں۔
پاکستان کی موجودہ سیاسی و معاشی صورتحال دیکھ کر 12جون 2004ء کی لکھی تحریر کی شبیہ ذہن میں ابھر آئی، سوچا اس کے کچھ اقتباسات اپنے قارئین کے ساتھ پھر شیئر کروں۔ عالمی و ملکی سیاست میں دلچسپی رکھنے والے بیشتر قارئین پلان 2025سے بخوبی واقف ہیں، کہ دشمنان اسلام و پاکستان، کے پاکستان سے متعلق عزائم اس پلان کا حصہ ہیں ۔ اس پلان کے مطابق 2025ء تک پاکستان کا وجود دنیا کے نقشے پر مختلف اکائیوں میں منقسم ہے۔ پاکستان دشمن عناصر اپنے مقاصد کی تکمیل میں مسلسل مصروف عمل ہیں اور بظاہر کامیابی ان کے قدم چومتی نظر آتی ہے ( نعوذ باللہ) مگر بلی کو دیکھ کر آنکھیں بند کر لینے سے بلی کی موجودگی ختم نہیں ہوتی، سو یہی حال پاکستان کے ساتھ بھی ہے اگر حکمران یا ہم بلی کو سامنے دیکھتے ہوئے بھی اپنی آنکھیں بند رکھ کر یہ تصور کر لیں کہ بلی موجود نہیں تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ حقیقتاً بھی موجود نہیں بلکہ اس طرح خطرہ مزید بڑھ جاتا ہے۔
پلان 2025پر عملدرآمد میری نظر میں پاکستان کے معرض وجود میں آتے ہی لاشعوری طور پر شروع ہو چکا ہے اور اس کے ایک حصے پر کامیابی سے عملدرآمد 1971میں مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی صورت میں ہو چکا ہے، جس کے بعد دشمنان اسلام اور پاکستان نے اپنے باقی ماندہ پروگرام پر شعوری طور پر زیادہ زور و شور سے عمل شروع کر رکھا ہے۔ ان کے نزدیک پاکستان کے حصے بخرے کرنا اتنا مشکل کام نہیں جتنا وہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی سے قبل تصور کر رہے تھے، کہ وہ قوم جس نے دو قومی نظریے کی بنیاد پر دنیا کی دو عیار ترین اقوام سے اپنا حق حاصل کیا تھا، اتنی آسانی اور اتنی جلدی اپنا ایک بازو کاٹ کر ان کے مقاصد کی تکمیل کی راہ ہموار کر دے گی۔ اب تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے9ستمبر کا واقعہ بھی اسی پلان کی تکمیل کا ایک بنیادی اہم جزو تھا جس کی آڑ لے کر مسلمان ممالک کو نیست و نابود کیا جارہا ہے۔ دوسری طرف ہم ہیں، جو خود کو اسلام کا قلعہ یا نظریاتی ریاست کہلواتے ہیں ، نے ’’ سب سے پہلے پاکستان ‘‘ کا نعرہ بلند کر کے خود ہی اسلامی دنیا میں اپنے آپ کو یکہ و تنہا کرنے کی بنیاد فراہم کر دی، جس کے اثرات اس قوم کو جلد یا بدیر بھگتنے ہوں گے، لامحالہ اس دوران کوئی غیر معمولی واقعہ مسلمانوں کی اور پاکستان کی حفاظت نہیں کرتا یا حکمران طبقے میں کوئی اس نعرے کے اثرات کو زائل کرنے میں کامیاب نہیں ہوتا اور اس کے ساتھ ساتھ صحیح اور مدبر قیادت پاکستان کو میسر نہیں آتی، خطرات پاکستان کی سالمیت پر منڈلاتے رہیں گے۔ فی الوقت حکمران طبقے سے اس کی امید کرنا عبث ہے ماسوائے ایک امید کے، ایک فطرتی اصول کے، جس کے مطابق ہر عروج کو زوال ہے اور اس وقت غیر مسلم ( میری دانست میں) اپنے انتہائی نکتہ عروج کو چھو رہے ہیں، جس کے بعد زوال ہی ہے۔ غیب کا علم بے شک اللہ سبحانہ تعالیٰ کی ذات بہتر جانتی ہے مگر زمینی حقائق کی روشنی میں ناچیز صرف اپنی رائے کا اظہار کر رہا ہے جو غلط بھی ہو سکتی ہے۔ لیکن میں اس صورتحال میں مایوس بھی نہیں ہوں کہ مایوسی گناہ ہے اور ہمیں بحیثیت مسلمان اللہ کی رحمت سے مایوس نہیں ہونا چاہئے اور اپنے طور پر اصلاح احوال کی کوشش جاری رکھنی چاہئے۔ لیکن آج صورتحال حقیقتاً یہ نہیں رہی بلکہ یہ خطہ پراکسی وار کی زد میں بری طرح آ چکا ہے اور یہاں دشمن ممالک کے ساتھ ساتھ ہمسایہ ممالک کی خفیہ ایجنسیاں اور ان کے تربیت یافتہ فوجی و سول افراد پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کے منصوبے پر عمل پیرا ہیں۔ ان کے خلاف آپریشن پاکستان کی بقا کے لئے ضروری تھا مگر افسوس اس بات کا ہے کہ ہماری اشرافیہ اپنا کردار ادا کرنے سے قاصر ہے۔
رجیم چینج آپریشن کے بعد معاملات انتہائی پیچیدہ اور گھمبیر دکھائی دیتے ہیں کہ بیرونی مراسلہ سے متعلق ابتداء میں تحریک انصاف کے مخالفین کی طرف سے یہ کہا گیا کہ ایسا کوئی مراسلہ آیا ہی نہیں اور عمران خان صرف اپنی عوامی مقبولیت کی خاطر ایسی شعبدہ بازی کا مظاہرہ کر رہے ہیں یا اپنی ناکامیوں کو چھپانے کے لئے سارا الزام بیرونی مداخلت پر دھر رہے ہیں۔ بعد ازاں سب نے دیکھا کہ اسی مراسلے کے حوالے سے عمران خان پر نہ صرف مقدمہ بنایا گیا بلکہ اس مقدمے کی کارروائی کو غیر قانونی طریقے سے انتہائی عجلت میں مکمل کرتے ہوئے، اس میں عمران خان اور شاہ محمود قرشی کو سزائیں سنا دی گئی، گو کہ عجلت میں کئے گئے فیصلے میں بے شمار بنیادی قانونی سقم موجود ہیں اور ماہرین قانون کی رائے میں یہ واضح ہے کہ اعلیٰ عدالتیں ان قانونی سقم سے صرف نظر نہیں کر سکتیں، لہذا عمران خان اور شاہ محمود قریشی کی بریت یقینی ہے۔ تاہم یہ رائے قانونی ماہرین کی ہے لیکن دوسری طرف جو انداز اور رفتار عمران خان مخالفین نے اپنا رکھی ہے، اس میں یہ تصور کرنا کہ اتنے قانونی سقم ہونے کے بعد اعلیٰ عدالتیں، عمران خان کو ریلیف دے دیں گی، بظاہر مشکل نظر آتا ہے کہ جب مقصد عمران خان کو پابند سلاسل رکھنا ہو، اسے سیاسی منظر نامے سے دور رکھنا ہو، اقتدار کے ایوانوں سے الگ رکھنا ہو، پھر اعلیٰ عدالتوں کی طرف سے بھی عجلت میں فیصلوں کی توقع کی جا سکتی ہے۔
جس سیاسی قوت کو اقتدار دلانے کی کوششیں جاری ہیں، اس کی طرف سے جو بیانات دئیے جار ہے ہیں، وہ انتہائی معیوب ہونے کے ساتھ ساتھ قوم میں نفاق پیدا کرتے دکھائی دیتے ہیں کہ کوئی بھی سیاسی رہنما ایسے بیانات کے متعلق سوچ بھی نہیں سکتا لیکن یوں محسوس ہوتا ہے کہ اقتدار کا حصول ہی سب سے زیادہ اہم ہے، سیاسی حرکیات سے واقف ہونا یا پورے ملک کے عوام کو متحد رکھنا اولین مقصد نہیں بلکہ خود کو اس عوام اور حصے تک محدود رکھنا کافی ہے جو آپ کو ووٹ دیتے ہوں۔ افسوس تو اس امر کا ہے کہ مذکورہ سیاسی قیادت کا ماضی بھی ایسے لن ترانیوں سے ہی مزین ہے اور قوم کو لسانیت کی بنیاد پر تقسیم کرنے والا نعرہ ’’ جاگ پنجابی جاگ‘‘ بھی اسی سیاسی جماعت کے ماتھے کا جھومر ہے، تب بھی پیپلز پارٹی کو پنجاب سے ’’ جبری بے دخل‘‘ کیا گیا تھا، جس میں نامی گرامی مرحوم جنرل حمید گل کا بڑا کردار تھا اور آج بھی کے پی کے عوام سے متعلق بیان پاکستانی سالمیت پر کاری ضرب سے کم نہیں۔
مذکورہ سیاسی رہنما کی وطن واپسی جن حالات میں ہوئی ہے اور جس طرح وہ اپنی انتخابی مہم چلا رہے ہیں، جو عوامی ردعمل ہے، اس کو دیکھتے ہوئے، ذہن میں 2025کے منصوبہ کی شبیہ ابھر ابھر جاتی ہے کہ ایک طرف پاکستان کی معاشی صورتحال کو انتہائی ابتر کیا جا چکا ہے، جغرافیائی اعتبار سے پاکستان تین اطراف سے کشیدگی کا شکار ہے، رہی سہی کسر اندرونی سیاسی صورتحال سے یوں پوری کی جار ہی ہے کہ پانچوں صوبوں میں مقبولیت اور ملک کو متحد رکھنے والی سیاسی قیادت کو دیوار سے لگایا جا رہاہے، پلان 2025کی کامیابی ( نعوذ باللہ، خاکم بدہن) کے خدشات میں کوئی عنصر باقی تو نہیں بچا، تاہم اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ ہمیں ان اندھیروں سے نکال لے، آمین۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button