ColumnImtiaz Aasi

سائفر کیس اور سزا

امتیاز عاصی

آخر سائفر کیس کا فیصلہ ہو گیا سابق وزیر اعظم عمران خان اور سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کو سزائیں سنا دی گئیں ۔سائفر کیس کا چرچا پوری دنیا میں ہوا گویا اس لحاظ سے عالمی دنیا کی نظریں اس کیس کے فیصلے کی طرف مرکوز تھیں۔ بلاشبہ سائفر ایک سیکرٹ دستاویز ہوتی ہے جو وزارت خارجہ ، وزیراعظم اور آرمی چیف تک محدود ہوتی ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں یہ منفرد کیس تھا جو کسی سابق وزیراعظم اور سابق وزیر خارجہ کے خلاف بنا تھا۔ دراصل عمران خان جلد باز واقع ہوئے ہیں ان کی بڑی کمزوری یہ ہے وہ کسی معاملے میں مشاورت پر یقین نہیں رکھتے بلکہ جو من میں آتا ہے کر گزرتے ہیں۔ آج انہیں جن مشکلات کا سامنا ہے ان میں زیادہ تر ان کی اپنی پیدا کردہ ہیں۔ یہ مسلمہ حقیقت ہے پاکستان کے عوام اور بالخصوص دینی حلقے امریکہ کے لئے اچھی رائے نہیں رکھتے ہیں سائفر کا پرچار کرکے عمران خان نے وقتی طور پر عوام کی ہمدردیاں ضرور حاصل کی ہیں تاہم مجموعی طور پر دیکھا جائے تو انہوں نے سائفر کا پرچار کرکے اپنا سیاسی مستقبل دائو پر لگا دیا ہے۔ سائفر کیس میں جہاں تک عمران خان اور شاہ محمود قریشی کی سزائوں کا تعلق ہے جس عجلت کے ساتھ مقدمہ کا فیصلہ سنایا گیا ہے اس پر تاسف کیا جا سکتا ہے۔ پاکستان کا آئین خواہ کوئی سیاست دان ہو یا عام شہری فیئر ٹرائل کا حق دیتا ہے جس سے کسی کو محروم نہیں کیا جا سکتا۔ گو ماتحت عدلیہ کے فیصلوں میں قانونی سقم رہ جانے کا فائدہ اعلیٰ عدالتوں میں ملزمان کو ہوتا ہے تاہم اس کا مطلب یہ نہیں کسی مقدمہ کا فیصلہ کرنے سے قبل آئین اور قانون نے ملزمان کو جو حق دیا ہے اس سے انہیں یکسر محروم کر دیا جائے۔ سائفر کیس میں یہی کچھ ہوا ہے جس کی توقع کی جا رہی تھی۔ سوال ہے ملزمان کے خلاف مقدمہ کی سماعت تیزی سے ہوتی رہی ہے ہماری عدالتیں عام شہریوں کے مقدمات کے فیصلوں میں کیا یہی طرز عمل اختیار کرتی ہیں؟ سائفر کیس کا فیصلہ آنے کے بعد اس ناچیز نے لاہور ہائیکورٹ کے سابق جج اور میرے مہربان جناب جسٹس عباد الرحمان لودھی سے ان کی رائے جاننے کی کوشش کی تو انہوں نے عدالتی فیصلے کو عوامی اعتماد کو مجروح کرنے کی کوشش قرار دیتے ہوئے کہا ہے ان جیسے قانون کے طالب علم کے لئے لمحہ فکریہ ہے ۔ انہوں نے کہا قانون میں کہیں یہ نہیں لکھا ہے ملزمان کا 342کا بیان ریکارڈ کئے بغیر کیس کا فیصلہ کر دیا جائے۔ مقدمہ میں گواہان کے بیانات ریکارڈ کئے گئے لیکن فریقین کی بحث کب ہوئی۔ انہوں نے کہا شہادتیں ریکارڈ کرنا اور ان کی جانچ پڑتال دو الگ الگ چیزیں ہیں اور ماتحت عدالتوں کے لئے یہ بات لازم ہے پہلے فیصلہ لکھیں پھر دستخط کریں اور پھر فیصلے کا اعلان کریں لیکن سائفر کیس کے فیصلے میں اس پر عمل نہیں ہوا ہے بلکہ آئین کے آرٹیکل دس پر عمل نہیں ہوا ہے اس طرح ملزمان کو فیئر ٹرائل کے حق سے محروم رکھا گیا ہے۔ یہ بات درست ہے انگریزی قانون میں ماتحت عدالتوں کے فیصلوں کے خلاف اپیل کا جو حق دیا گیا ہے اس کا بنیادی مقصد کسی کے ساتھ زیادتی نہ ہونے پائے بلکہ ملزمان کو صفائی کا پورا پورا حق دنیا ہے۔ اعلیٰ عدالتوں کے فیصلوں کی روشنی میں عدالتوں پریہ بات لازم ہے وہ ملزمان کے خلاف شہادتوں کا گہرائی سے جائزہ لینے اور سچ تک پہنچنے کی حتمی المقدور کرشش کرنے کے بعد مقدمات کا فیصلہ کریں۔ خوش آئند پہلو یہ ہے عمران خان اور شاہ محمود قریشی کی سزائوں کے خلاف پی ٹی آئی نے کسی قسم کی ہنگامہ آرائی سے اجتناب کیا ہے بلکہ ان کے وکلاء نے قانونی جنگ لڑنے کا فیصلہ کیا ہے۔ دیکھا جائے تو پی ٹی آئی کے دونوں سنیئر رہنمائوں کے پاس ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے دو فورم موجود ہیں جہاں وہ اپنی سزائوں کے خلاف اپیل دائر کر سکتے ہیں۔ ویسے بھی اعلی ٰ عدالتوں میں شہادتوں کا بڑی گہرائی سے جائزہ Appreciationہو تی ہے ماتحت عدالتوں کے بہت سے مقدمات ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ میں ختم
ہو جاتے ہیں۔ درحقیقت عمران خان کو آنے والے الیکشن سے باہر رکھنا مقصود تھا۔ سائفر کیس میں سزایاب ہونے کے بعد وہ انتخابات میں حصہ لینے سے محروم ہو جائے گا۔ مقدمہ کی جلد سماعت کا مقصد عمران خان کو کامیابی سے روکنا مقصود تھا جس میں اس کے مخالفین کامیابی سے ہمکنار ہوئے ہیں۔ جیساکہ ہم پہلے عرض کر چکے ہیں عمران خان نے بطور وزیراعظم جب حلف اٹھایا تھا جس میں یہ بات واضح تھی وہ ریاستی مفاد کے تحت راز داری کا قائم رکھیں گے نہ جانے کن کو اندیش ساتھیوں نے انہیں سائفر کا پرچار کرنے کا مشورہ دیا۔ اس ملک کا لمحہ یہ ہے وہ اعلیٰ افسران جس کسی وقت وزیراعظم کی کاسہ لیسی کرتے نہیں تھکتے برا وقت آنے پر وہی گواہ بن جاتے ہیں۔ اعظم خان نہ صرف پرنسپل سیکرٹری تھا بالفاظ دیگر ایک طرح سے وزیراعظم تھا جو وزارتوں سے آنے والی تمام سمریاں اسی نے پڑھنی ہوتی تھیں بس وزیراعظم کو زبانی بریف کرنے کے بعد پرنسپل سیکرٹری کے دستخطوں سے سمری واپس بھیجی جاتی ہیں۔ بیوروکریسی کسی کی دوست نہیں ہوتی ماسوائے چند ایک افسران کے جو بعض وزراء اعظم کے ساتھ نہ صرف ابھی تک دوستی نبھا رہے ہیں بلکہ قدم قدم پر ان کے ساتھ ہیں۔ ایسے سیاست دانوں کی کامیابی کا راز اسی میں پنہا ہے وہ مبینہ طور پر کرپشن میں بیوروکریٹس ان کے حصے دار ہوتے ہیں۔ عمران خان کے خلاف مقدمات کی سماعت سے یہ بات واضح ہو گئی ہے جس سیاسی رہنما کو سزا دینا مقصود ہو اس کے مقدمات کی بلاتاخیر سماعت مکمل ہونی چاہیے۔ افسوس اس بات پر ہے کیا یہی فارمولا تمام سیاست دانوں کے مقدمات کی سماعت پر لاگو ہوتا ہے؟ پاکستان کی سیاسی تاریخ ایسے مقدمات سے بھری پڑی ہے جن کی سماعت کو کئی کئی سال لگنے کے باوجود ان کے فیصلے نہیں ہوسکے ہیں۔ جن سیاست دانوں کو چھوڑنا ہو وہ ملک سے باہر ہوں تو بھی انہیں عدالتوں سے ریلیف مل جاتا ہے۔ کیا ایک اسلامی ریاست کا قیام انہی باتوں کے لئے عمل میں لایا گیا تھا ؟۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button