Columnمحمد مبشر انوار

انتخابی نتائج

 

محمد مبشر انوار( ریاض)
اس وقت سب کی نظریں ایک طرف مقدمات کی سماعت پر ہیں تو دوسری طرف متوقع انتخابات اور ان کے نتائج پر پیش گوئیاں جار ی ہیں۔ بظاہر تو یہی دکھائی دیتا ہے کہ حکمران اپنے منصوبے پر کامیاب ہو جائیں گے کہ معتوب جماعت کی صورتحال اس وقت انتہائی مخدوش دکھائی دیتی ہے اور اس کی تمام تر قابل ذکر قیادت بری طرح مقدمات میں الجھی ہوئی ہے، ان کے لئے انتخابی میدان میں اترنا مخدوش ہو چکا ہے، تحریک انصاف کوئی بھی انتخابی سرگرمی اپنی حریف جماعتوں کے مطابق کرنے سے قاصر دکھائی دیتی ہے۔ تاہم تحریک انصاف کی سوشل میڈیا انتخابی مہم بہرطور کامیابی سے جاری ہے اور سوشل میڈیا پر وہ اپنی انتخابی مہم بھرپور انداز میں کرتی دکھائی دیتی ہے لیکن سوشل میڈیا پر چلائی جانے والی مہم انتخابات پر کس قدر اثر انداز ہو پائے گی، اس کے متعلق وثوق سے کچھ کہنا ممکن نہیں ہے۔ اس پس منظر میں بہر حال یہ بات واضح ہے کہ تحریک انصاف اگر ایک طرف کھڑی ہے تو باقی تمام سیاسی جماعتیں اس کے مد مقابل ہیں اور ان سیاسی جماعتوں کو اپنی انتخابی مہم چلانے میں کسی قسم کی کوئی دشواری درپیش نہیں ہے بلکہ بیشتر اوقات انہیں سرکاری سہولیات کے ساتھ اپنی انتخابی مہم جاری رکھنے میں معاونت کی جار ہی ہے۔ یہ بات سچ ہے کہ متوقع انتخابات میں تحریک انصاف کا امیدوار ووٹر کے پاس جانے میں کامیاب نہیں ہو رہا لیکن اس کے ساتھ ساتھ اس مرتبہ یہ بھی دیکھنے اور سننے کو مل رہا ہے کہ ووٹر تحریک انصاف کے امیدوار کی مشکلات کا ادراک کرتے ہوئے، اسے تسلی و تشفی دے رہا ہے اور اسے یقین دلا رہا ہے کہ اسے ووٹر کے پاس آنے کے ضرورت نہیں کہ ووٹ بہرصورت عمران خان کا ہے، جو اسے انتخابات کے دن مل جائے گا، البتہ انتخابات میں کامیاب ہونے کے بعد ،امیدوار اس ووٹ کو امانت سمجھتے ہوئے، عمران خان تک ہی محدود رکھے گا۔ کسی دبائو یا لالچ میں آئے بغیر،ہر صورت اس امانت کو اس کے حقدار تک پہنچائے گا بصورت دیگر عوام اس کا محاسبہ کریں گے،یہ محاسبہ کس صورت ہوگا،سب ہی اس سے واقف ہیں لیکن کیا اس وقت تک پلوں کے نیچے سے معتد بہ پانی گزر نہیں چکا ہوگا؟عمران خان اس وقت ووٹرز میں دلیری کا استعارہ بن چکا ہے اور صرف عمران خان پر ہی کیا موقوف،اس قوم نے ہمیشہ ایسے رہنما کو سر آنکھوں پر بٹھایا ہے ،جس نے حالات کا مردانہ وار مقابلہ کرنے کی ٹھانی ہے،یا ثابت قدم رہا ہے،تاہم یہ حقیقت اپنی جگہ مسلمہ ہے کہ ہنوز ’’ ہزارپا ‘‘ نے پاکستانی سیاست کو اپنے پنجوں میں دبوچ رکھا ہے۔اپنی اس بہادری کا درس عمران خان اپنی قوم،اپنے ووٹرز کو سکھا بھی رہے ہیں اور ان کی شدید خواہش ہے کہ قوم اور ووٹر اس کا عملی مظاہرہ بھی کریں،چونکہ تحریک انصاف کو انتخابی سرگرمیوں کے لئے ،بعینہ اپنے مخالفین کی طرح آزادی نہیں ہے،اس لئے عمران خان نے جیل سے قوم اور اپنے ووٹرز کو پیغام دیا کہ ’’ خوف کے بت توڑ کر‘‘ بروز اتوار سڑکوں پر انتخابی سرگرمیوں کا آغاز کریں۔بروز اتوار ہی مسلم لیگ ن نے راولپنڈی اور سیالکوٹ میں جلسہ رکھا،پیپلز پارٹی نے کراچی،راولپنڈی اور حب میں جلسہ رکھا ،مولانا فضل الرحمن نے بھی اسی دن اپنا انتخابی جلسہ منعقد کیا لیکن انتظامیہ کا دہرا معیار اس وقت آشکار ہو گیاجب تحریک انصاف کی ریلیوں پر انتظامیہ پل پڑی اور اس کی سیاسی سرگرمی کو سختی سے کچل دیا گیا۔کراچی میں ایک طرف آصفہ زرداری اپنا ریلی و جلسہ کر رہی تھی لیکن دوسری طرف تحریک انصاف کی ریلی پر انتظامیہ کی طرف سے کارروائی نے انتظامیہ کی جانبداری کا پردہ بیچ چوراہے چاک کر دیا، افسوس تو اس امر کا ہے کہ انتظامیہ کو اس پر قطعا کوئی ندامت نہیں کہ وہ ریاستی مشینری کی بجائے اس وقت ’’ فرد واحد‘‘ کی ذاتی خواہشات کی تکمیل میں جتے نظر آتے ہیں۔
عمران خان کی ’’ خوف کے بت توڑنے‘‘کی کال پر جتنے لوگ باہر نکلے،وہ پنجاب میں بہرحال توقع سے کہیں کم ہے ماسوائے کے پی میں کہ جہاں انتظامیہ بہرطور پر کسی نہ کسی حد تک روایات کا پاس کر رہی ہے،چادر و چار دیواری کا تقدس پامال کرنے سے گریزاں ہے کہ وہاں عوام نے واضح طور پر کہہ رکھا ہے کہ اگر چادر چاردیواری کا تقدس پامال ہوا تو انتظامیہ کو اس کے نتائج بھگتنا ہوں گے،لہذا وہاں عمران خان کی اس کال کا جواب بہتر نظر آیا جبکہ پنجاب میں جہاں بھی عوام نکلے،ان کی تعداد اتنی نہیں دیکھی گئی کہ جس کی توقع تھی۔اس کی وجہ وہی پنجاب پولیس کا خوف بری طرح طاری نظر آتا ہے اور عوام فی الوقت خوف کا بت توڑنے کے لئے سڑکوں پر نکلتے نظر نہیں آ رہے ہیں کہ بیچارے غریب عوام کی کیا اوقات ہے کہ اس وقت تو تحریک انصاف کے امیدواران کو بھی پنجاب پولیس گرفتار کرنے سے نہیں چوک رہی۔اتوار کو سیالکوٹ میں ہونے والے مسلم لیگی جلسے میں عوام کو جس طرح لایا گیا ،بلکہ تما م جلسوں میں ہی عوام کو اسی طرح لایا جا رہا ہے،بالخصوص تیس سال سے کم عمر ووٹرز کی شرکت اور نوازشریف کا جلسے میں سوال ،بہت کچھ عیاں کر گیا ہے ،مطلب مسلم لیگ ن کے اندیشے بے سبب نہیں ہیں،ان کے پیچھے بہرطور حقیقت موجود ہے۔خواجہ آصف کا جلسے میں اپنی مد مقابل امیدوار ریحانہ ڈار کے حوالے سے انداز یقینی طور پر قابل ستائش ہے لیکن یہ اندازاس وقت منافقت میں تبدیل ہو جاتا ہے جب ریحانہ ڈار کو انتخابی مہم چلانے کی اجازت نہیں دی جاتی،اس طرح کے انتخابات سے کہیں بہتر ہے کہ ایسی مشق لاحاصل سے گریز کیا جائے اور قومی وسائل بچائے جائیں۔تحریک انصاف کے ساتھ جو امتیازی سلوک ا س وقت روا رکھا جار ہاہے اس سے یہ تصور کرنا کہ اس کے ووٹرز واقعی انتخاب کے دن ،گھروں سے نکلیں گے اور عمران خان کو ووٹ دے کر کامیاب کرائیں گے،ایک خواب سا لگتا ہے کہ انتخابی عمل میں کئی اور حقائق بھی مد نظر رکھنا ہوتے ہیں۔
کیا یہ ممکن ہے کہ انتخابی مہم کے دوران تحریک انصاف کے ووٹرز کو گھروں سے نہیں نکلنے دیا جارہا ،اس کے امیدواران کو گرفتار کیا جا رہا ہے،اور انتخاب کے دن ،پولنگ سٹیشن پر عملہ یا انتظامیہ،ان کے ورکرز کو بیٹھنے کی اجازت دے گی،انتخابی عمل کا حصہ بننے دے گی؟ایک لمحہ کو تصور کر لیتے ہیں کہ انتخاب مقررہ وقت پر ہو تے ہیں اور تحریک انصاف کا و وٹر،تمام تر سرویز کے مطابق،گھروں سے نکل آتا ہے،پولنگ سٹیشن تک بھی جیسے تیسے پہنچ جاتا ہے،پولنگ ایجنٹ کے بغیر ووٹ بھی کاسٹ کر لیتا ہے،تو کیا پولنگ ایجنٹ کی غیر موجودگی اس ووٹ کا تحفظ کر پائے گا؟یہ وہ ملین ڈالر سوال ہے کہ جس کا جواب تاحال تحریک انصاف کے پاس نظر نہیں آتا کہ موجودہ صورتحال کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ بعید ازقیاس نہیں کہ تحریک انصاف کے امیدواران کو انتخاب کے دن،پولنگ ایجنٹ ہی میسر نہ ہوں یا ان کو پولنگ سٹیشنز میں بیٹھنے ہی نہ دیا جائے،یا ان کی وفاداریاں خرید لی جائیں یا چادر و چاردیواری کی آڑ میں انہیں خاموش کروا دیا جائے،غرضیکہ موجودہ حالات میں کچھ بھی ممکن ہے ۔ اس صورتحال میں کہ جب تحریک انصاف کے امیدواران ،اپنی حمایت میں کاسٹ کئے جانے ووٹوں کی گنتی ہی نہ کروا پائیں،تو ان کی کامیابی کیسے اور کیونکر ممکن ہو گی؟یوں تمام تر مقبولیت کے باوجود،تحریک انصاف قبول نہ ہونے کی بنا پر اقتدار کے ایوانوں سے دور نظر آئیگی، علاوہ ازیں! منصوبے کا دوسرا حصہ اور بھی زیادہ اہم ہے کہ اگر سلمان اکرم راجہ کی دائر کی گئی پٹیشن پر لاہور ہائیکورٹ ،ان کے حق میں فیصلہ دے دیتی ہے تو تحریک انصاف کے امیدواروان کا متحد اور اپنی پارٹی کے جھنڈے تلے رہنا ممکن دکھائی دیتا ہے کہ اس صورت میں وہ تحریک انصاف کے رکن تصور ہوں گے بصورت دیگروہ آزاد ارکان متصور ہوں گے۔ موخرالذکر صورت میںنو منتخب اراکین کی منڈی لگے گی اور غالب امکان یہی ہے کہ ان میں کئی ایک تحریک انصاف کو چھوڑ جائیں گے خواہ اس کی وجہ دباؤ ہو یا لالچ،اراکین کا وفاداریاں بدلنا قطعا خارج از امکان نہیں۔ ایک افواہ یہ بھی زیر گردش ہے کہ تحریک انصاف کو پینتیس سے چالیس نشستیں ہی دی جائیں گی،خواہ اس کی مقبولیت کتنی ہی زیادہ کیوں نہ ہو،جس کو بہرطور رد نہیں کیا جا سکتا کہ 1997ء میں طاقتوروں نے پیپلز پارٹی کو اپنی تمام تر مقبولیت کے باوجود فقط 14نشستیں دی تھیں لہذا وہی مشق آج بھی دہرائی جا سکتی ہے۔1997ء میں بھی مسلم لیگ ن کی کامیابی ایمپائر کو ساتھ ملانے پر ہوئی تھی اور متوقع انتخابات بھی تقریبا وہی کہانی سناتے نظر آ رہے ہیں کہ اس مرتبہ بھی مسلم لیگ ن وہی حربے استعمال کرتے ہوئے ،اقتدار میں آنے کی تیاری کر رہی ہے ،حقیقت یہ ہی کہ بالعموم پاکستانی اقتدار کا حصول ممکن ہی اسی طرح دکھائی دیتا ہے،لیکن اس وقت یہ افواہیں بھی زیر گردش ہیں اور نواز شریف خود اس کااظہار بھی کر چکے ہیں کہ وہ وزارت عظمی کے امیدوار نہیں ،قرعہ فال ایک بار پھر شہباز شریف کے نام نکلتا دکھائی دیتا ہے۔بظاہر متوقع انتخابات کے نتائج ایسے ہی دکھائی دے رہے ہیں لیکن کیا ایسے انتخابات سے ملک میں استحکام ممکن ہو سکے گا یا مزید عدم استحکام کا شکار ہو جائیگا؟تحریک انصاف کے روئیے کو مد نظر رکھیں تو یہ ممکن نہیں کہ وہ ایسے نتائج پر ٹھنڈی بیٹھ جائے،جیسے بے نظیر بھٹوپارلیمنٹ میں جا بیٹھی تھی،یقینی طور پر تحریک انصاف اس کے خلاف سڑکوں پر نظر آئیگی اور مزید معتوب ہوتی دکھائی دے گی۔ارباب اختیار سے گزارش ہے کہ اگر عالم انتخابات کا ڈول ڈالا جا رہا ہے ،عوامی رائے طلب کی جارہی ہے تو جمہوری پارلیمانی نظام کی روایات کا پاس بھی رکھا جائے ،جمہور کو ووٹ ڈالنے کی اور امیدواران کو آزادانہ انتخابی مہم چلانے کی اجازت بھی دیںیاپھر اس کو پارلیمانی و جمہوری نظام کہنا چھوڑ کر اپنی خواہش کے مطابق،جسے چاہیں مسند اقتدار پر بٹھا دیں۔بہرطور موجودہ انتخابات بالخصوص ان کا یوں انعقادکسی بھی طور ملک کواستحکام نہیں بخشے گا،انتخابات بالعموم ملک وقوم کو متحد کرنے کا سبب بنتے ہیں لیکن ایسی صورتحال میں قوم کو تقسیم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے،جس سے نجانے ’’ کون‘‘ فائدہ اٹھانا چاہتا ہے،ایسے انتخابات اور اس کے نتائج کو قوم تسلیم نہیں کرے گی۔

یہ بھی پڑھیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button