Column

آصف نواز خان

سیدہ عنبرین
سرکار کا اصرار تو یہ ہے کہ پرچار کیا جائے کہ ملک میں اس وقت 2بڑی سیاسی جماعتیں ہیں اور الیکشن انہی کے درمیان ہے، درحقیقت ایسا نہیں، ملک میں اس وقت 3بڑی اور 13چھوٹی ایسی جماعتیں ہیں جن کے امیدوار میدان سیاست میں ہیں، بڑی سیاسی جماعتیں پیپلز پارٹی، مسلم لیگ نواز اور پی ٹی آئی ہیں۔ پیپلز پارٹی 60کی دہائی میں وجود میں آئی، مسلم لیگ نواز 90کی دہائی میں جبکہ پی ٹی آئی بھی 90کی دہائی میں بنی۔
الیکشن کمیشن کے کاغذات میں اور عہدے کے لحاظ سے تو جناب آصف علی زرداری مرد حُر کا مقام کچھ اور ہے لیکن پارٹی کے حقیقی سربراہ وہی ہیں۔ انہوں نے کیڈٹ کالج سے تعلیم حاصل کی۔ بعد ازاں ایک پرائیویٹ امریکی ادارے سے ایک مضمون میں ڈپلومہ حاصل کیا۔ ان کی عمر اب قریباً 72برس ہے، وہ دھیمے مزاج کے سیاستدان ہیں۔ عہد شباب میں مزاج میں تیزی تھی۔ وہ دشمنوں کو دوست بنانے کا فن جانتے ہیں۔ قول کے پکے اور وعدے کرکے نبھانے کی شہرت رکھتے ہیں۔ زندگی میں ایک آدھ بار سیاسی بیان بازی میں کہہ گئے تھے فلاں بات کوئی حدیث تو نہیں۔ پولو کے کھلاڑی ہیں۔ دوستی اور تعلقات میں نفع نقصان کی پرواہ نہیں کرتے، دوستی اور تعلق کو بے حد اہمیت دیتے ہیں۔ ملک کے اعلیٰ ترین منصب تک پہنچے۔ صدر پاکستان بنے لیکن پرانے دوستوں اور تعلقات کو نہیں بھولے۔ اپنے دروازے سب کیلئے کھلے رکھتے ہیں۔ جناب نواز شریف نے اپنی سیاست کا آغاز تو مسلم لیگی پلیٹ فارم سے کیا لیکن بعد ازاں انہوں نے اپنا گروپ علیحدہ کرلیا جس کا نام مسلم لیگ نواز رکھا گیا، نواز شریف صاحب نے گورنمنٹ کالج سے بی اے کیا۔ والد صاحب کے کاروبار میں ہاتھ بٹانے لگے، ابتدائی سیاسی زندگی میں مشہور کیا گیا کہ انہوں نے ایل ایل بی بھی کیا ہے، اس زمانے میں صرف یونیورسٹی لاء کالج تھا، پرائیویٹ لاء کالجز نہیں تھے، قانون کے طالب علم کی حیثیت سے ان کا کوئی ریکارڈ کہیں موجود نہیں ہے۔ کوئی ایسا ان کا جونیئر یا سینئر آج تک نہیں سامنے آیا جو تصدیق کر سکے کہ وہ کبھی لاء کالج میں زیر تعلیم رہے ہیں۔ ان کا گورنمنٹ کالج میں داخلے کا معاملہ بھی نہایت دلچسپ ہے، انہیں میرٹ پر گورنمنٹ کالج لاہور میں داخلہ نہ مل سکتا تھا، میٹرک میں ان کے نمبر بہت اچھے نہ تھے لہٰذا کوشش کی گئی کہ انہیں غیر نصابی سرگرمیوں کے کوٹے پر داخلہ مل جائے، پڑتال پر معلوم ہوا کہ وہ ڈیبیٹر کے طور پر داخلے کے اہل نہیں ہوسکتے کیونکہ تقریر کرنا نہ جانتے تھے۔ وہ کرکٹ، ہاکی، فٹبال، بیڈمنٹن اور دوسری کھیلوں کے بل بوتے پر بھی داخلے کے اہل ثابت نہ ہوتے تھے لہٰذا ان کیلئے ایک خصوصی انتظام کیا گیا، غیر نصابی سرگرمیوں میں ’’کشتی‘‘ کو شامل کیا گیا پھر اس کے کوٹے پر انہیں داخلہ دیا گیا۔ بتایا جاتا ہے کہ اس داخلے کا سہرا ان کے والد محترم میاں شریف کے سر جاتا ہے جو اس دور میں بھی ناممکن کو ممکن بنا لیا کرتے تھے۔ جناب نواز شریف زندگی کے ابتدائی دور میں شرمیلے نوجوان تھے لیکن سیاست میں آنے کے بعد یکسر بدل گئے۔ وہ خوش خوراک و خوش لباس مشہور ہیں، قیمتی گھڑیاں، قیمتی کاریں ہمیشہ سے ان کی کمزوری رہی ہیں۔ ایک زمانے میں وہ فلموں کے ہیرو بننا چاہتے تھے، پھر گلوکاری پر دھیان دیا لیکن دونوں شعبوں میں ناکام رہے، البتہ وہ کامیاب کاروباری بننے میں کامیاب ہوگئے، وہ اپنی خواہشوں کی تکمیل پر قیمت پر چاہتے ہیں، مستقل مزاجی اور حصول ہدف انہوں نی اپنے والد سے سیکھا، وہ سب کی سنتے لیکن اپنی مرضی کرتے ہیں، ان کی عمر 74برس ہوچکی ہے۔ ان کے خاندانی ذرائع کے مطابق وہ بیمار شیمار رہتے ہیں۔
انہیں ریکارڈ بنانے کا شوق ہے اس لئے چوتھی مرتبہ وزیراعظم بننا چاہتے ہیں۔ ان کا خیال ہے اگر وہ چوتھی مرتبہ وزیراعظم بن گئے تو ان کا کم از کم یہ ریکارڈ کوئی نہ توڑ سکے گا۔ بطور وزیراعظم وہ ایک ریکارڈ بہت پہلے حاصل کر چکے ہیں۔ ان کا یہ ریکارڈ بھی کوئی نہ توڑ سکے گا۔ وہ آج سے پہلے 3مرتبہ وزیراعظم بنے لیکن تینوں مرتبہ اپنے اقتدار کی مدت پوری نہ کر سکے۔ ایک انتخاب میں انہیں صرف 18قومی اسمبلی کی نشستیں ملیں جبکہ ایک مرتبہ دو تہائی اکثریت سے وزیراعظم بنے۔ وہ جب بھی اقتدار میں آئے انہیں خلائی مخلوق کی مدد حاصل رہی۔ 72برس کی عمر کو پہنچنے والے تحریک انصاف کے سابق سربراہ عمران خان نے لاہور کے ایچی سن کالج سے ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ وہ 4بہنوں کے اکلوتے بھائی ہیں۔ اس اعتبار سے ماں کے لاڈلے تھے جبکہ والد کی سخت گیر طبیعت اور اپنے کھلنڈرے پن کے باعث وہ والد سے دور ہی رہے۔ ان کے والد چاہتے تھے کہ وہ تعلیم مکمل کریں اور پھر ان کا کاروبار سنبھالیں۔ والدہ نے انہیں لندن بھجوا دیا تاکہ باپ بیٹوں میں اختلافات شدت اختیار نہ کر جائیں۔ یوں وہ لندن اپنی بہن کے پاس پہنچ گئے۔ انہوں نے سپورٹس کی سیٹ پر لندن کے نواحی کالج میں داخلہ لیا، وہاں سے تھرڈ ڈویژن میں گریجوایشن کی، لندن قیام کے دوران وہ کرکٹ کھیلتے رہے۔ بعد ازاں پاکستان کرکٹ ٹیم میں بطور بولر آئے اور ناکام ہوکر گھر بیٹھ گئے۔ پھر کوشش سے دوبارہ آئے اور کامیاب رہے اور ٹیم کے کپتان بنے۔ ان کی قیادت میں پاکستانی ٹیم نے کرکٹ کا ایک ورلڈ کپ جیتا، جس کے بعد انہوں نے اپنی والدہ کے نام پر ہسپتال کی تعمیر شروع کی۔ ملک اور غیر ممالک سے لوگوں نے اربوں روپے انہیں اس کام کیلئے دیئے۔ اس کامیابی کے ساتھ ہی انہوں نے سیاست میں آنے کا فیصلہ کیا۔ بتایا جاتا ہے کہ یہ فیصلہ ملکی اور غیر ملکی خلائی مخلوق کے مشورے سے کیا گیا تھا۔ وہ 26برس کی سیاسی جدوجہد کے بعد قومی اسمبلی کی صرف ایک سیٹ جیت سکے تھے لیکن پھر خلائی مخلوق کے تعاون سے وہ پاکستان کے وزیراعظم بنے لیکن اپنی لاابالی طبیعت، حد سے زیادہ خود اعتمادی اور یہ سوچ کہ ان سے زیادہ عقلمند کوئی نہیں اور ان سے زیادہ مقبول کوئی نہیں۔ اس سوچ کے سبب وہ اپنے ساتھیوں کو اکٹھا نہ رکھ سکے۔ عدم اعتماد کے ذریعے اقتدار کھو بیٹھے۔ وہ زندگی بھر میرٹ میرٹ کی رٹ لگاتے رہے لیکن میرٹ پر کوئی کام نہ کیا۔ ان کی پہچان ایک کرکٹر اور پلے بوائے کی رہی۔ اب وہ سابق وزیراعظم ہیں اور اپنی سیاسی جماعت کے سابق راہنما۔ وہ مقدمات میں گھرے ہیں، سزا سے بچتے نظر نہیں آتے۔ عمران خان نے مذہبی جماعتوں کو اپنے مطلب کیلئے استعمال کیا۔ صوبہ خیبر پختونخوا میں جماعت اسلامی کے ساتھ حکومت بنائی اور نواز شریف حکومت کو اکھاڑنے کیلئے پاکستان عوامی تحریک کو ساتھ لیا لیکن حصول اقتدار کے بعد دونوں جماعتوں سے دور ہوگئے تاکہ اپنے لبرل ہونے کی شناخت برقرار رکھیں۔ آج یہ دونوں جماعتیں ان کے ساتھ نہیں۔ ماضی میں اقتدار میں رہنے والی سیاسی جماعتوں اور ان میں مخصوص چہروں سے اکتائے ہوئے اور دل برداشتہ ووٹرز نے انہیں سر آنکھوں پر بٹھایا، خواتین نے انہیں عددی قوت فراہم کی، وہ کھیل اور کرکٹ ٹیم کے سٹائل میں حکومت اور نظام چلانا چاہتے تھے۔ انہوں نے طویل سیاسی جدوجہد میں ’’کچھ لو، کچھ دو‘‘ کے اصول کو کبھی اہمیت نہ دی، وہ بلاشرکت غیرے سب کچھ چاہتے تھے لیکن حصول اقتدار میں برس ہا برس ناکامی کے بعد الیکٹ ایبلز کو ساتھ ملا کر کامیاب ہوئے۔ الیکٹ ایبلز، جو کبھی کسی کے نہیں ہوتے، وہ صرف اپنے ہوتے ہیں یا اپنے مفادات کے اسیر، لیکن قوم کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کیلئے کہتے ہیں سیاست بطور عبادت کرتے ہیں۔ کون سی عبادت اور کہاں کی عبادت، سب روز روشن کی طرح عیاں ہو چکا۔
سائفر، توشہ خانہ اور عدت میں نکاح کے مقدمات میں سزائیں خان کے تعاقب میں ہیں، اسے ہائیکورٹ و سپریم کورٹ میں اپیل کا حق حاصل ہے، دیکھنا باقی ہے اسے کہیں معافی ملتی ہے یا نواز شریف کا معافی کا ریکارڈ برقرار رہتا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button