ColumnImtiaz Aasi

سیاسی جماعتوں کے فریب

امتیا زعاصی

مارشل لاء کے دوراینے کو نکال دیں تو طویل حکمرانی کا اعزاز پاکستان مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی کو حاصل ہے۔ عمران خان کی حکومت کے خاتمے کے بعد پی ڈی ایم کے دور میں دونوں جماعتیں اقتدار میں رہیں۔ اس سے قبل مسلم لیگ نون کے دور میں پیپلز پارٹی اتحادی کے طور پر مسلم لیگ نون کے ساتھ حکومت کر چکی ہے۔ پی ڈی ایم کے دور میں دونوں جماعتیں شیر و شکر تھیں انتخابات کا مرحلہ آیا ہے تو دونوں ایک دوسرے کے خلاف صف آرا ء ہیں۔ بلاول بھٹو نے تحریک انصاف کو ساتھ دینے کو کہا ہے عمران خان نے کہا ہے وہ پیپلز پارٹی کا ساتھ کیوں دیں؟ ظاہر ہے ایک طرف بلاول کے والد محترم عمران خان کو اقتدار سے ہٹانے کا کریڈٹ لیتے ہیں دوسری طرف آصف علی زرداری کا ہونہار فرزند تحریک انصاف کو ساتھ دینے کو کہہ رہا ہے۔ یہ درست ہے سیاست میں کوئی چیز حرف آخر نہیں ہوتی لیکن کسی کو اقتدار سے ہٹا کر اسے جیل بھیجنے کے بعد اسی کی جماعت سے تعاون کرنے کی درخواست منافقت نہیں تو اور کیا ہے۔ یہ بات عقل تسلیم نہیں کرتی بلاول بھٹو بیان دینے سے پہلے پارٹی قائد سے مشاورت نہیں کرتے ہوں گے۔ عوام کی مقبول جماعت کو اقتدار سے علیحدہ کرنے کے بعد اسی سے تعاون کی توقع رکھنا سمجھ سے بالاتر ہے۔ دراصل سیاسی جماعتوں نے عوام کو بیوقوف بنانے کا اچھا طریقہ اختیار رکھا ہے۔ انتخابات سے قبل ایک دوسرے کے خلاف بیان بازی سے عوام کو ووٹ دینے کی ترغیب دینے کا فن اچھا ہے ۔ چنانچہ اقتدار کا وقت آتا ہے تو یہی جماعتیں ایک دوسرے کی ہم نوالہ ہوں ہوتی ہیں اور عوام ہاتھ ملتے رہ جائیں گے۔ اب جوں جوں الیکشن کے دن قریب آرہے ہیں انہی دو جماعتوں نے عوام کو اپنی طرف راغب کرنے کی خاطر کروڑوں روپے کے اشتہارات دینے کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔ اخبارات اٹھائیں تو مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی کے پہلے صفحات پر اشتہارات دکھائی دیتے ہیں۔ بلاشبہ انہی دو جماعتوں نے اقتدار کے دوران مبینہ طور پر قومی دولت کی لوٹ مار کی اور انہی پیسوں سے اب بڑے بڑے اشتہارات شائع کرائے جا رہے ہیں۔ اس ساری صورت حال میں الیکشن کمیشن تماشائی بنا ہوا ہے۔ ماسوائے تحریک انصاف کے تمام سیاسی جماعتوں کو انتخابی مہم کی کھلی آزادی ہے۔ تحریک انصاف کا کوئی امیدوار جلسہ کرنے کا اعلان کرے تو جلسہ سے قبل سازوسامان پولیس کے جاتی ہے۔ ہم کس ملک میں رہ رہے ہیں دنیا کی نظریں ہمارے الیکشن کی طرف ہیں۔ سانحہ نو مئی کی آڑ میں عوام کی مقبول ترین جماعت کو کھڈے لائن لگانے میں کوئی کسر باقی نہیں رہ گئی ہے۔ سوال ہے موجودہ سیاسی ماحول میں عوام ووٹ ڈالنے کے لئے گھروں سے نکلیں گے؟ تعجب ہے مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی دونوں غریب عوام کو ایک مرتبہ پھر مہنگائی ختم کرنے، نوکریاں اور بجلی مفت فراہم کرنے کا چکمہ دے کر ووٹ لینے کے لئے کوشاں ہیں۔ بھلا سوچنے کی بات ہے نواز شریف اور بلاول بھٹو کے پاس کون سا آلہ دین کا چراغ ہے جو مہنگائی اور مفت بجلی مہیا کر سکیں گے۔ کبھی اشرافیہ کی سبسڈی ختم کرنے اور جنوبی پنجاب کو صوبہ بنانے کے اعلانات کئے جا رہے ہیں۔ حیرت ہے شہباز شریف کئی ماہ تک اقتدار میں رہنے کے باوجود آٹے کی قیمتوں میں کمی کرنے میں بری طرح ناکام رہے حالانکہ کے پی کے میں جلسہ میں انہوں نے اپنے کپڑے بیچ کر عوام کو سستا آٹا فراہم کرنے کا اعلان کیا تھا جو اعلان تک محدود رہا۔ نہ جانے سیاست دانوں کا عوام سے جھوٹ بولنے کا سلسلہ کب ختم ہوگا۔ عمران خان کا اقتدار ختم کرنے کی ابتدا کے سرخیل مولانا فضل الرحمان جلسوں میں عمران خان کے خلاف دل کا غبار ضرور نکال رہے ہیں تاہم انہوں نے ابھی تک اخبارات میں بڑے بڑے اشتہارات شائع نہیں کرائے ہیں۔ مولانا کی سیاست کا انداز منفرد ہے وہ اسی تاک میں رہتے ہیں جو جماعت اقتدار میں آئے اسی کے اتحادی بن جاتے ہیں۔ راولپنڈی میں مسلم لیگ نون کے جلسہ کو کامیاب کرانے کے لئے ضلعی انتظامیہ نے شب روز ایک کئے رکھا۔ سڑکوں پر کنٹنیر لگا کر بند رکھا گیا۔ اپنے خلاف کرپشن کے مقدمات ختم کرانے کے بعد نیب قوانین میں ایسی ایسی ترامیم ہوئیں ہیں کیا یہ ترامیم پہلے نہیں ہو سکتیں تھیں ؟ سیاسی جماعتوں نے ملک اور عوام سے ایک طویل عرصے تک کھلواڑ جاری رکھا جس کے خاتمے کا وقت آگیا ہے۔ درحقیقت عوام تبدیلی کے خواہاں ہیں انہیں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون پر اعتماد نہیں رہا ہے۔ پی ڈی ایم دور کے وزیراعظم شہباز شریف راولپنڈی میں ووٹ بنک بنانے کی خاطر جاتے جاتے اربوں روپے کے فنڈ ز جاری کر گئے جن سے پہلے سے تعمیر کردہ سڑکوں اکھیڑ کر دوبارہ بنایا جا رہا ہے جس کا مقصد عوام سے ووٹ کا حصول ہے حالانکہ سڑکیں اور گلیوں کی تعمیر سے ووٹ دینے کا وقت گزر چکا ہے۔ عوام میں بہت بڑی تبدیلی آچکی ہے عمران خان نے اور کچھ نہیں کیا کم از کم لوگوں کو باشعور کر دیا ہے جس سے لوگوں سے محض نعروں سے ووٹ لینا ممکن نہیں رہا ہے بلکہ عوام عملی طور پر ملک کو ترقی دینے والوں کو ووٹ دیں گے۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون کی طرف سے اشتہارات کی اشاعت پر اربوں روپے کہاں سے آئے ہیں کیا الیکشن کمیشن سیاسی جماعتوں سے باز پرس کرے گا؟ جہاں تک عوام کو تین سو یونٹ مفت بجلی فراہم کرنے کی بات ہے دونوں جماعتیں ووٹ کی خاطر لوگوں کو دھوکہ دے رہی ہیں۔ ہم بھاشا اور داسو ڈیم تعمیر کر لیں تو بھی بجلی کی ملکی ضروریات پوری نہیں ہو سکتیں۔ دونوں ڈیموں کی تعمیر کے لئے کھربوں ڈالرز کی ضرورت ہے وہ کہاں سے آئیں گے؟ دونوں جماعتیں اقتدار کے دوران شمسی توانائی کے فروغ کے لئے کوشش کرتیں تو کچھ نہ کچھ مسائل میں کمی آسکتی تھی۔ بدقسمتی سے دونوں جماعتوں کے قائدین نے ملک اور عوام کے مسائل کی طرف توجہ دینے کی بجائے بیرون ملک جائیدادیں بنانے پر توجہ مرکوز رکھی جس سے ہمارا ملک ترقی کی بجائے تنزلی اور عوام مشکلات میں گھیرے رہے لہذا دونوں جماعتوں کو عوام کو مہنگائی ختم کرنے، تین سو یونٹ بجلی مفت فراہم کرنے اور کروڑوں نوکریوں کا اعلان محض فریب ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button