ColumnTajamul Hussain Hashmi

پارٹیوں کے منشور کتنے موثر ہیں ؟

تجمل حسین ہاشمی

گزشتہ کئی دہائیوں سے منشور کے نام پر لوگوں کو خواب دکھائے جاتے رہے، لیکن معاشی صورتحال مزید خراب سے خراب ہوتی رہی۔ مسائل کے حل کے لیے سیاسی پارٹیوں کے قائدین نے قوم کے ساتھ ہر بار دھوکہ دہی کی اسی وجہ سے ملکی معیشت کمزور ہوتی چلی گئی۔ جمہوری اور آمریت کے ادوار میں برآمدات کم اور درآمدات بڑھتی رہیں۔ بجلی کے مہنگے پراجیکٹس کے معاہدے اور اوپر سے لوٹ مار، خوشحالی کے دعوے لیکن بے روزگاری میں مسلسل اضافہ، یہ جھوٹے دعوے قوم سنتی رہی اور لوگ بھی جذباتی ہو کر یقین کر لیتے ہیں مگر بدلا کچھ نہیں۔ وہی پرانے خواب وہی چہرے۔ نظام میں بہتری کیسے ممکن ہوسکتی ہے؟ اس وقت ملک میں کوئی بحران حل نہیں ہو رہا بلکہ بحران بچے دے رہا۔ انگلش اخبار کے ایگزیکٹو ایڈیٹر اور کراچی ایڈیٹر کلب کے سیکرٹری جنرل منظر نقوی کا کہنا تھا کہ ’’ 1970ء سے سیاسی پارٹیوں کا منشور دیکھتے آ رہے ہیں۔ ایک لاکھ نوکریاں، 50ہزار گھر ، روٹی کپڑا اور مکان، ووٹ کو عزت دو، منشور صرف عوام کو بیوقوف بنانے کے لیے بیان کئے جاتے رہے۔ سیاسی پارٹیاں اپنے منشور پر قائم نہیں رہتیں بلکہ اپنے مفادات کو پروان چڑھاتی رہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ووٹ ڈالنا قومی فرض ہے ہر فرد کو قومی فریضہ ادا کرنا چاہئے اور اپنے حلقوں میں اچھے امیدوار کو منتخب کرنا چاہئے جو اپ کے مسائل کو حل کرے اور اس تک آپ کی رسائی ممکن ہو ‘‘۔
ایک کروڑ نوکریاں دینے کا وعدہ عمران خان نے بھی کیا، اب نواز شریف کر رہے ہیں، بلاول نے بھی نوکریاں دینے کا اعلان کیا لیکن جب ان قائدین کی حکومتیں تھیں تب کیوں روزگار کے مواقع پیدا نہیں ہوئے یہ کوئی نہیں بتاتا۔ جب سچ قوم کی سمجھ میں آئے گا تو کافی دیر ہو چکی ہو گی۔ ملک کی معاشی صورتحال اتنی خراب ہے کہ آگے تین سال میں بیرونی فنانسنگ کے لیے 75ارب ڈالر کی ضرورت ہو گی اور رواں سال میں 75ارب درکار ہیں۔ انٹرنیشنل مانیٹرنگ فنڈ (IMF)کی حالیہ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا۔
پیپلز پارٹی، ن لیگ یا پی ٹی آئی تینوں جماعتوں نے منشور کا اعلان تو کر دیا، لیکن یہ نہیں بتایا کہ اس پر عمل درآمد کس طرح کریں گے۔ کوئی صحت کارڈ، کوئی انکم سپورٹ کارڈ کا اعلان کر کے کارڈ کارڈ کھیل رہا ہے۔ کوئی مفت بجلی اور روزگار کے وعدے کر رہا ہے، یہ کوئی نہیں بتاتا کہ پہلے حکومت ملنے پر وہ یہ سب کیوں نہیں کر سکے۔ اس کا جواب کسی لیڈر کے پاس موجود نہیں ۔ ’’ سادی گل ہو گئی ہے ‘‘ گل کرنے والے کو جھوٹ پر مبنی بیانوں پر کوئی بھی تشویش نہیں رہی۔ ملک کی ترقی میں اداروں کی مضبوطی کے ساتھ روزگار کا حصول انتہائی ضروری ہے ۔ جب ریٹائر ہونے والے دوبارہ سرکاری سیٹوں پر بیٹھ جائیں گے تو پھر نوجوان کو روزگار کون دے گا۔ ان کے حقوق کیسے پورے ہوں گے۔ ریٹائرمنٹ کے سیاسی پلیٹ فارم استعمال کر کے غریبوں کے حقوق کو لوٹنا شروع کرتے ہیں۔
دراصل عوام کو سہولیات دینے، مسائل حل کرنے کے اقدامات سے ان کے ساتھ موجود ان لوگوں کے مفادات کو ٹھیس پہنچتی ہے جو خیر خواہ نہیں۔ ہر شعبے میں وہی لوگ گھسے ہیں جو سیاسی جماعتوں میں بڑے بڑے عہدوں پر موجود ہیں۔ الیکشن جیت کر سب اپنے کاروبار کو فروغ دیتے ہیں اور اسی عوام کو لوٹتے ہیں جن سے ووٹ لے کر سرکاری عہدوں تک پہنچتے ہیں۔
کوئی سیاسی لیڈر سرکاری اخراجات میں کمی ، بے جا پروٹوکول کا خاتمہ، کفایت شعاری تک پر عمل کرنے کو تیار نہیں ہوتا تو لوگوں کو مشکل سے کیا نکالیں گے۔ دوسری جانب سینئر صحافی و مصنف سجاد اظہر کہتے ہیں کہ ’’ تمام سیاسی جماعت کے روایتی منشور ہیں ۔ پاکستان کو ترقی یافتہ لسٹ میں کیسے شامل کرنا ہے کسی جماعت کے پاس ملک کی بہتری ، ترقی کے لیے کچھ نہیں ہے ۔ دنیا بری تیزی سے تبدیل ہو رہی ہے ارٹیفیشل انٹیلیجنس ہر شعبہ زندگی کو متاثر کر رہی ہے۔ پاکستان کی سیاسی قیادت کیسے اپنی قوم کے معیار کو بہتر کرے گی، جہاں ابھی تک تعلیمی نظام غیر مساوی ہے۔ زرعی اکانومی ہونے کے بعد بھی ہر سال دس ارب روپے کی اجناس امپورٹ کرتے ہیں ۔ اپنی زرعی زمینوں پر ہائوسنگ سوسائٹیز بنا رہے ہیں۔ تیزی سے بدلتی دنیا کے آگے ہماری سیاسی جماعتوں کے منشور ناکام ہیں‘‘، قوم کو آج بھی روٹی کپڑا اور مکان ، ووٹ کو عزت دو کے چکر پھنسی ہوئی ہے ۔ سیاسی جماعتیں عملی طور پر کام نہیں کر سکتیں اور نہ یہ اپنے منشوروں پر الیکشن لڑ سکتی ہیں۔ ان کو کہیں ذاتی مفادات آڑے آجاتے ہیں، کہیں نظام کی خرابیاں رکاوٹ بنتی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ہمارا نظام ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ سیاسی لوگ ہوں، بیوروکریسی ہو یا ادارے، کوئی ترقی کے فارمولے کو کامیاب نہیں ہونے دیتا۔ جس طرح انڈیا، ویت نام، چین نے نظام میں بنیادی ریفارمز کیں، رکاوٹیں دور کیں، کاروباری حالات سازگار کیے، غیر ملکی درآمدات کی بجائے برآمدات کی طرف توجہ دی وہ یہاں ہونا ممکن نہیں۔ کوئی بھی سیاسی حکومت اس وقت نہ کسی منشور پر عمل کر سکتی ہے نہ ہی نظام بہتر کر سکتی ہے۔ جب تک تمام مرکزی عہدیدار مل کر ملکی مفاد کے لیے اکٹھے نہیں ہوتے۔ کوئی کام کرنے لگتا ہے تو اسے نظام کے اندر موجود طاقتیں ہی روک لیتی ہیں۔ نئے نئے تجربات سے بنیادی ڈھانچہ ہی مضبوط نہیں ہو پاتا ۔ جب تک سب مل کر اپنے ملکی وسائل میں رہتے ہوئے ترقی کا فارمولا بنا کر اسے کامیاب نہیں کرائیں گے بہتری کے امکانات پیدا نہیں ہوں گے۔ سینئر تجزیہ نگار سلمان غنی نے نواز شریف سے پوچھا منشور پر عملدرآمد کے حوالے سے پوچھا کہ اس کے لیے وسائل کہاں سے آئیں گے؟ تو انہوں نے انگلی آسمان پر اٹھا کر جواب دیا اللہ کی مدد سے عمل کریں گے۔ نواز شریف کو یہ غصہ ہے کہ ان کی 2017ء میں حکومت ختم نہ کی جاتی تو آج حالات بہت بہتر ہوتے۔ مسلم لیگ ن کے منشور میں بنیادی طور پر مہنگائی ایک سال میں دس فیصد جبکہ پانچ سال میں چار سے چھ فیصد پر لانے کا دعویٰ کیا گیا ہے۔ مسلم لیگ ن نے اپنے منشور میں انتخابات جیتنے کی صورت میں فی کس آمدنی کا پانچ سال میں ہدف دو ہزار ڈالر، بیروزگاری میں پانچ فیصد جبکہ غربت میں 25فیصد کمی کا اعلان کیا گیا ہے۔ اسی طرح پانچ سال میں ایک کروڑ سے زائد نوکریاں دینے، تنخواہیں مہنگائی کے تناسب سے بڑھانے، افرادی قوت کی سالانہ ترسیلات زر 40ارب ڈالر تک پہنچانے کا وعدہ بھی کیا گیا ہے۔ پیپلز پارٹی چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے عوامی معاہدے کے نام سے انتخابی منشور پیش کیا اور آزاد نمائندوں کی مدد سے حکومت بنانے کا علان کیا، چیئرمین بلاول بھٹو نے اپنے عوامی معاہدہ میں اجرت دگنی، گریجویٹس کو وظیفہ ، غریبوں کو گھر، مزدوروں کو کسان کارڈ اور بھوک مٹائو، پروگرام سکول کے بچوں کو مفت کھانے اور مزدوروں کارڈ سے بچوں کی فیس کی ادائیگی کے وعدے کئے گے۔ تاہم پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن نے اپنے منشور میں معاشی پلان دیا ہے وہ صرف خواہشات پر مشتمل ہے ۔ ماضی میں تبدیلی سرکار نے 2013ء سے 2018 ء تک اسی طرز کا منشور دیا ۔ جس جوش سے مسلم لیگ ن الیکشن سے پہلے ہی حکومت بنانے کے دعوے کر رہی ہے ان کے منشور کا حقیقت سے کا کوئی تعلق نہیں کیونکہ انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ اس بدترین معاشی بحران سے ملک کو نکال کر اہداف پورے کرنے کا طریقہ کیا ہوگا، حالات کو اب اس سطح پر لانے کے لیے بھی کئی دشواریاں ہیں جہاں سے وہ چھوڑ کر گئے تھے ۔ دونوں بڑی جماعتوں خوب جانتی ہیں کہ کرونا کے 2سال کے بعد دنیا کو مہنگائی اور موسمی تبدیلیوں کا سامنا ہے۔ البتہ سوال تو یہ بھی کھڑا ہے کہ نواز شریف کے بھائی شہباز شریف کی اتحادی حکومت کے ڈیڑھ سالہ دور میں معاشی صورتحال نہیں سنبھل سکی اور مہنگائی بھی ناقابل برداشت حد تک پہنچی تو اب کیسے فوری بہتری آئے گی؟ قوم کو منشور نہیں اپنی سمجھ سے فیصلہ کرنا ہو گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button