ColumnM Riaz Advocate

انتخابی تنازعات اور تصفیے

 

محمد ریاض ایڈووکیٹ
الیکشن ایکٹ 2017انتخابات کے ضابطوں کے حوالہ سے مکمل مجموعہ ہے۔ جس میں الیکشن کمیشن کی ذمہ داریاں ، اختیارات ، حلقہ بندیوں، انتخابی فہرستوں کی ترتیب، انتخابی مراحل کے دوران ہونے والے جرائم و سزائوں کی تفصیل کے ساتھ ساتھ انتخابات کے لئے انتظامات کے لئے مکمل رہنمائی موجود ہے۔ اسی طرح انتخابات کے دوران ہونے والی بے قاعدگیوں، غیر قانونی اقدامات کی بدولت پیدا ہونے والے انتخابی تنازعات اور ان کے تصفیے کے لئے الیکشن ایکٹ2017کے باب نمبر 9میں عدالتی فورمز بارے تفصیلات موجود ہیں۔ الیکشن ایکٹ کے سیکشن 139کے مطابق انتخابات میں حصہ لینے والے کسی امیدوار کی طرف سے دائر کردہ انتخابی پٹیشن کے علاوہ انتخابات کو زیر بحث یا چیلنج نہیں کیا جاسکتا۔
الیکشن ٹربیونل کا تقرر:
سیکشن 140کے تحت انتخابی درخواستوں کی سماعت کے لیے، الیکشن کمیشن زیادہ سے زیادہ الیکشن ٹربیونلز کا تقرر کرے گا۔ لوکل/بلدیاتی انتخاب کے تنازعات کے تصفیے کیلئے الیکشن ٹربیونل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن /ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج پر مشتمل ہوگا۔ جبکہ پارلیمنٹ /صوبائی اسمبلی انتخابی تنازعات کے لئے ہائیکورٹ کا جج ہوگا۔ سیکشن 141کے مطابق الیکشن ٹربیونل کے پاس مجموعہ ضابطہ دیوانی 1908کے تحت مقدمات کی سول عدالت کی سماعت کا اختیار حاصل ہوتا ہے۔ سیکشن 142کے مطابق انتخابات میں جیتنے والے امیدوار کے نام کی سرکاری گزٹ میں اشاعت کے پینتالیس دن کے اندر انتخابی پٹیشن الیکشن ٹریبونل میں دائر کی جاسکتی ہے۔ سیکشن 143کے تحت درخواست دہندہ مخالف امیدواروں کو پارٹی بنا سکتا ہے اسی طرح الیکشن ٹریبونل درخواست گزار کو ہدایت دے سکتا ہے کہ وہ کسی دوسرے شخص کو مدعا علیہ کے طور پر شامل کرے جس کے خلاف اس ایکٹ کی خلاف ورزی کا کوئی خاص الزام لگایا گیا ہو۔ سیکشن 144کے تحت درخواست دہندہ کو اپنی درخواست میں انتخابی عمل کے دوران کسی بھی بدعنوانی یا غیر قانونی عمل کی مکمل تفصیلات کا تذکرہ کرنا ہوگا ، بشمول ان جماعتوں کے نام جن پر الزام ہے کہ انہوں نے اس طرح کی بدعنوانی یا غیر قانونی عمل یا غیر قانونی عمل کا ارتکاب کیا ہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ درخواست گزار کی طرف سے الزامات کو ثابت کرنے کے لئے دستاویزی ثبوت بھی پیش کرنا لازم ہے۔ الیکشن ایکٹ کے سیکشن 145اور 146میں الیکشن ٹریبونل کے کام کے طریقہ کار کا اندراج ہے۔ یاد رہے سیکشن 142،143اور 144میں درج ہدایات پر عمل پیرا نہ ہونے کی صورت میں ٹریبونل کے پاس الیکشن پٹیشن کو مسترد کرنے کا اختیار حاصل ہے۔ سیکشن 148کے مطابق ٹریبونل میں دائر درخواست کے ٹرائل کے مراحل کا تفصیلی طریقہ کار مذکور ہے ۔ اسی طرح اس سیکشن میں درج ہے کہ اگر ٹریبونل 180دن میں فیصلہ نہ کرسکے تو مزید کاروائی کے لئے درکار مدت میں توسیع کیلئے ٹریبونل بااختیار ہے۔ سیکشن 151کے تحت صوبے کا ایڈووکیٹ جنرل، اگر الیکشن ٹریبونل کو ضرورت ہو تو، انتخابی پٹیشن کی سماعت میں ٹربیونل کی اس طریقے سے مدد کرے گا۔ سیکشن 154کے تحت الیکشن ٹربیونل انتخابی پٹیشن کی سماعت کے اختتام پر درج ذیل احکامات صادر کر سکتا ہے: جیسا کہ پٹیشن کو خارج کرنے کا حکم دے سکتا ہے یا جیتنے والے امیدوار کے انتخاب کو کالعدم قرار دے سکتا ہے اور ہدایت دے سکتا ہے کہ ایک یا ایک سے زیادہ پولنگ سٹیشنوں میں نئے سرے سے پولنگ کرائی جائے یا جیتنے والے امیدوار کا انتخاب کالعدم قرار دیا جائے اور درخواست گزار یا کسی دوسرے مدمقابل امیدوار کی جیت کا اعلان کر دیا جائے یا مجموعی طور پر الیکشن کو کالعدم قرار دیا جائے اور پورے حلقے میں نئے انتخابات کرانے کی ہدایت کی جائے۔ سیکشن 155کے مطابق قومی اسمبلی یا صوبائی اسمبلی یا سینیٹ کے انتخابات کو چیلنج کرنے والی انتخابی پٹیشن کے سلسلے میں الیکشن ٹربیونل کے حتمی فیصلے سے متاثرہ شخص، ٹریبونل کے فیصلے کی تاریخ کے تیس دنوں کے اندر سپریم کورٹ جبکہ لوکل باڈی انتخابات کی صورت میں ٹریبونل کے فیصلہ کے خلاف ہائیکورٹ میں اپیل کر سکتا ہے۔ سپریم کورٹ یا ہائیکورٹ 180دن میں اپیل کا فیصلہ کرے گی۔
انتخابات کالعدم قرار دینے کی بنیادیں:
سیکشن 156تا 158میں ایسی تمام وجوہات کا تذکرہ موجود ہے جس بناء پر انتخابات میں جیتنے والے امیدوار کی جیت یا پھر پورے انتخابات کو ہی کالعدم قرار دیا جاسکتا ہے۔ جیسے اگر یہ ثابت ہوجائے کہ : جیتنے والے امیدوار کی نامزدگی غلط تھی۔ جیتنے والا امیدوار، نامزدگی کے دن، رکن اسمبلی کے طور پر منتخب ہونے کے لیے اہل نہیں تھا، یا اسے نااہل قرار دیا گیا تھا۔ جیتنے والے امیدوار کا انتخاب کسی بدعنوان یا غیر قانونی عمل سے حاصل کیا گیا ہے یا اس کی حوصلہ افزائی کی گئی ہے۔ کسی بدعنوانی یا غیر قانونی عمل کا ارتکاب جیتنے والے امیدوار یا اس کے انتخابی ایجنٹ یا کسی دوسرے شخص نے امیدوار یا اس کے انتخابی ایجنٹ کی رضامندی یا ملی بھگت سے کیا ہو۔ الیکشن ٹربیونل انتخابات کو مکمل طور پر کالعدم قرار دے گا اگر وہ مطمئن ہو کہ جیتنے والے امیدوار کے ساتھ ملی بھگت کے تحت انتخابی عملہ نے الیکشن ایکٹ یا قواعد کی دفعات کی مکمل تعمیل نہ کی ہو۔
ووٹوں کی برابری کی صورت میں فیصلہ:
سیکشن 159کے تحت اگر دو مد مقابل امیدواروں کے درمیان ووٹوں کی برابری کا تنازعہ ٹریبونل میں پہنچے تو ٹرائل کے بعد ٹریبونل اس نتیجہ پر پہنچے کے دونوں امیدواروں کے ووٹ برابر ہیں تو ٹریبونل دونوں امیدواروں کی جیت کا اعلان کرے گا۔ اور ان میں سے ہر ایک کو نصف عرصہ کے لیے متعلقہ اسمبلی میں اپنے حلقے کی نمائندگی کرنے کا حق ملے گا ۔ اور اس بات کا تعین کرنے کہ کون اس کے عہدے کی مدت کے پہلے نصف عرصہ تک ممبر اسمبلی کے طور پر کام کرے گا، ٹریبونل امیدواروں اور انکے الیکشن ایجنٹ کی موجودگی میں قرعہ اندازی کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button