Ali HassanColumn

خائن افراد اور سیاست

علی حسن
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے بلوچستان کے سیاست داں خالد لانگو کے عام انتخابات میں حصہ لینے کے کیس میں برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان سے ایسے لوگوں کو انتخابات لڑنے سے دور رکھنا چاہیے اور ایسے لوگوں کو تو جیل کے دروازے کی طرف جانا چاہیے۔ خالد لانگو حکومت بلوچستان کے سابق مشیر خزانہ تھے جب قومی احتساب بیورو نے بلوچستان کے سیکرٹری خزانہ مشتاق رئیسانی کے گھر پر چھاپہ مار کر 2016ء میں اربوں روپے کی خطیر رقم برآمد کی تھی۔ جس کے بعد مشتاق کی گرفتاری عمل میں آئی تھی۔ ان پر بلدیاتی اداروں کے ترقیاتی فنڈ میں خرد برد کرنے کا الزام تھا۔ کراچی اور دیگر شہروں میں ان کی جائیدادوں کو بھی ضبط کیا گیا تھا۔ رئیسانی بلوچستان کے ایک بااثر اعلیٰ سرکاری ملازم سمجھے جاتے تھے۔ رئیسانی کے بعد خالد لانگو کی گرفتاری عمل میں آئی تھی۔ ان کے گھر سے بھی اربوں روپے بر آمد ہوئے تھے۔ دونوں حضرات نے نیب کو رقم رضا کارانہ طور پر واپس کرنے کی پیشکش کی تھی جسے بعد میں سپریم کورٹ نے نیب کو روک دیا تھا۔ احتساب عدالت نے ریئسانی کو دس سال قید اور لانگو کو 26ماہ قید کی سزا سنائی تھی۔
خالد لانگو کے عام انتخابات میں حصہ لینے کے کیس کی سماعت کی جس میں درخواست گزار کے وکیل نے عدالت میں موقف اپنایا کہ خالد لانگو عام انتخابات میں حصہ لینا چاہتے ہیں، ان کے خلاف فیصلہ معطل کیا جائے۔ اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ جب تک سزا کا فیصلہ معطل نہ ہو اس وقت تک امیدوار الیکشن نہیں لڑسکتا۔ عدالت میں کہا گیا کہ خالد لانگو کے گھر سے ٹرکوں کے حساب سے پیسے پکڑے گئے، ان کے گھر سے 2ارب24کروڑ 91لاکھ روپے برآمد ہوئے اور صرف 26ماہ کی کم سزا کیوں دی گئی۔ پاکستان میں درجنوں ایسے خالد لانگو دندناتے پھر رہے ہیں جنہوں نے سرکاری ملازمت سمیت مختلف ذرائع سے سرکاری رقم خورد برد کے ذریعہ حاصل کی ۔ اس رقم کو مختلف منافع بخش کاروبار میں لگایا اور خود سیاست میں سرگرم ہو گئے۔ ان سے کسی نے نہیں پوچھا کہ سرکاری ملازمت میں شامل ہونے سے قبل تو ان کی جو حیثیت تھی اس سے ان کے گھر والے، رشتہ دار اور جن علاقوں میں وہ رہائش رکھتے تھے، بہت اچھی طرح واقف تھے۔ لیکن پاکستان میں جس کے پاس جتنا زیادہ پیسہ ہوتا ہے، تمام ادارے اور لوگ اس کی اتنی ہی زیادہ عزت کرتے ہیں۔ یہ ایک ایسا المیہ ہے جس کی روک تھام کے لئے سرکار کبھی کامیاب نہیں ہو سکی۔ مختلف طریقوں سے ایسے خائن افراد نے عدالتوں سے سہولت حاصل کر لی۔ ایک زمانے میں تو نیب نے قصور تسلیم کرنے کے بعد خورد برد کی گئی سرکاری رقم کی واپسی کے بعد ایسی لوگوں کو معافیاں بھی دے دی تھیں۔ نیب ایسی واپسی کو رضاکارانہ واپسی کا نام دیتا تھا۔ چوری کی گئی رقموں کی واپسی کے بعد تو قصور تسلیم کرنے والے لوگ اپنی ملازمتوں پر بھی بحال کر دئے گئے تھے۔
جس طرح چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے ’’ خالد لانگو کے عام انتخابات میں حصہ لینے کے کیس میں برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان سے ایسی لوگوں کو انتخابات لڑنے سے دور رکھنا چاہیے اور ایسے لوگوں کو تو جیل کے دروازے کی طرف جانا چاہیے ‘‘۔ بلوچستان کے عوام اسپتال اور تعلیم کے لئے ترس رہے ہیں ان کے شدت کے ساتھ احساس محرومی گھر کر گیا ہے، اور کیوں نہ ہو پینے کے لئے اپنے گھر کا پانی لڑکیاں گھروں سے بہت دور سے اپنے سروں پر لاد کر لاتی ہیں۔ ان کے پائوں میں گرمی ہو یا سردی کا موسم، چپل تک نہیں ہوتی ہے۔ بلوچستان کے ان علاقوں جو پڑوسی ملک سے ملتے ہیں، میں رہائش رکھنے والے سمگلنگ پر گزارہ کرتے ہیں۔ پاکستان کے تمام اعلیٰ حکام اور طاقتور حلقوں کو علم میں ہے کہ ان علاقوں کے لوگوں کو ذریعہ معاش کیا ہے۔ ان لوگوں کو تو بس دو وقت کی روٹی سے غرض ہوتی ہے، ان کی اس غربت کی ذمہ داری اسلام آباد پر عائد کی جاتی ہے۔ انہوں نے تو اس عیش و عشرت کی زندگی کو دیکھا ہی نہیں ہے جو بلوچستان کے سردار، اعلیٰ سرکاری ملازمین گزارتے ہیں۔ اسی چمک دمک کا شکار مشتاق رئیسانی اور خالد لانگو بھی ہوئے۔ انتخابات میں حصہ لینا اور کامیابی حاصل کرنا ایسے عناصر کو اس لئے بہتر لگتی ہے کہ وہ ان کے تمام سیاسی کرتوتوں پر پردہ ڈال دیتی ہے۔ پاکستان میں تو ایسے سیاسی کردار شہر شہر موجود ہیں۔ نیب کا ریکارڈ دیکھا جائے تو تکلیف اور ندامت ہوتی ہے کہ ان لوگوں نے وسائل سے مالا مال اس ملک کو کس بے دردی سے لوٹا ہے تاکہ وہ اپنی انفرادی زندگی بہترین طریقے سے گزار سکیں۔ انہیں کون سمجھائے کہ کسی بھی معاشرے کی اجتماعی ترقی سے پورا معاشرہ فائدہ حاصل کرتا ہی، جو انفرادی طور پر بھی لوگوں کے لئے فائدہ مند ہوتا ہے۔ جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق درست ہی کہتے ہیں کہ آئین کے آرٹیکل 62اور 63پر عمل ہو تو سیاست کرپشن سے پاک ہوسکتی ہے۔ سیاسی گھٹن اور دھند کا موسم آئین کی بالادستی سے ہی نکھر سکتا ہے۔ سیاست اہلیت کی بجائے این آر او کی بنیاد پر چل رہی ہے۔ جمہوری ممالک میں کرپٹ افراد کو عوامی عہدوں پر برداشت نہیں کیا جاتا۔ سابق حکمراں پارٹیوں نے سیاست میں گالم گلوچ کو پروان چڑھایا۔ عوام کے پاس ووٹ کے لئے جماعت اسلامی بہترین آپشن ہے۔ یہاں کوئی بتانے کو تیار نہیں ہے کہ آف شور کمپنیوں میں لگا ہوا پیسہ کہاں سے آیا تھا یا آتا ہے۔ اور بھی درجنوں سوالات ہیں جن کا کوئی جواب نہیں دیتا ہے۔ اس تماش گاہ کی اندھیر نگری چوپٹ راج کی آنکھیں کھول دینے والی ایک مثال یہ بھی ہے کہ معطل سیشن جج سکندر لاشاری، سیشن جج خالد شاہانی کے بیٹے کے قتل کے الزام میں 2014ء میں گرفتار ہوا تھا۔ اے ٹی سی نے 2018ء میں جرم ثابت ہونے پر انہیں سزائے موت کا حکم سنایا تھا۔ 2020ء میں سندھ ہائیکورٹ نے اس کی اور شریکِ جرم کی سزائے موت برقرار رکھی تھی۔ مجرم جج سکندر لاشاری کے خلاف سندھ ہائیکورٹ نے تاحال کوئی محکمہ جاتی کارروائی نہیں کی ہے، معطل جج تاحال ہائیکورٹ کے ریکارڈ میں سینیارٹی لسٹ میں تیسرے نمبر پر ہے۔ قیدی معطل جج گرفتاری کے دن سے تاحال تمام مراعات سمیت مکمل تنخواہ لے رہا ہے، اس نے گزشتہ ماہ دسمبر 2023ء کی تنخواہ 5لاکھ 41ہزار روپے وصول کی۔ ان کے اہلخانہ تاحال عدالت کی سرکاری گاڑی بھی استعمال کر رہے ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button