ColumnImtiaz Aasi

جیلوں میں قیدیوں کی ہلاکت؟

امتیاز عاصی
گزشتہ چند سالوں کے دوران جیلوں میں قیدیوں اور حوالاتیوں کی اموات محکمہ جیل خانہ جات کے لئے لمحہ فکریہ ہے۔ یہ بھی مسلمہ حقیقت ہے جہاں جرائم پیشہ افراد کی بہت بڑی تعداد پابند سلاسل ہو وہاں جرائم کا سرزد ہونا قدرتی امر ہے۔ تاہم اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں انگریز دور کے جیل مینوئل پر پوری طرح عمل درآمد ہو تو جرائم میں کمی واقع ہو سکتی ہے۔ باوجود اس کے جیل مینوئل میں قیدیوں اور حوالاتیوں کے لئے بہت سی چیزوں کی پابندی ہے غیر قانونی اشیاء کا جیلوں کے اندر جانا حیران کن ہے۔ ہم یہ تو نہیں کہتے اس کام میں جیل سپرنٹنڈنٹ یا کوئی اور افسر ملوث ہوتا ہے البتہ یہ کام جیل ملازمین میں سے کوئی تو کرتا ہوگا ورنہ جیلوں میں چھوٹی سی چھوٹی اشیا کا اندر جانے کا تصور نہیں کیا جا سکتا۔ جیلوں میں سیکنگ مشینوں کی موجودگی اور قیدیوں اور حوالاتیوں کے ملاقاتیوں کی جامہ تلاشی کے رائج طریقہ کار کے باوجود قیدیوں کے پاس آزار بند اور بوٹوں کے تسمے، کانچ کے گلاس اور سٹیل کے برتنوں کا ہونا قیدیوں اور حوالاتیوں کی اموات جیسے سنگین جرائم کا پیش خیمہ ثابت ہوتے ہیں۔ مشاہدہ گیا گیا ہے جیلوں میں بہت سی غیر قانونی اشیا سرکاری کنٹین کے اندر آنے والے سامان میں آجاتی ہیں جس میں کنٹین کنٹریکٹر پوری طرح ملوث ہوتے ہیں۔ عام طور پر کنٹین سے اندر آنے والے سامان کی جانچ پڑتال اس طرح نہیں ہوتی جیسا کہ قیدیوں کے ملاقاتیوں کے سامان کی ہوتی ہے۔ قیدیوں کے لئے کچا گوشت منگوانے کی پابندی ہے مگر گوشت کیا پورے کے پورے بکرے اندر آجاتے ہیں۔ اب آہستہ آہستہ کنٹین کے نظام کی بجائے یوٹیلیٹی سٹورز بنائے جا رہے ہیں، ہو سکتا ہے یہ کام مکمل طور پر ختم ہو جائے۔ جہاں تک جیل مینوئل کی بات ہے وہ جیل ملازمین کو پابند کرتا ہے گنتی بند ہونی سے قبل تمام قیدیوں اور حوالاتیوں کی باقاعدہ سرچ کرنے کے بعد انہیں بیرکس میں بند کیا جائے۔ عام طور پر جیلوں میں قیدیوں کی تلاشی اتوار کے روز ہوتی ہے جس میں تمام جیل ملازمین پوری جیل کی سرچ کرتے ہیں۔ پھر گاہے گاہے اتوار کو پنجاب کی دوسری جیلوں سے نفری اپنے افسران کی نگرانی میں بیرکس اور سیلوں کی باقاعدہ تلاشی کرتے ہیں۔ جب سے پی سی او نصب ہوئے ہیں موبائل فونز ختم تو نہیں ہوئے ہیں البتہ ان میں بہت حد تک کمی واقع ہو گئی ہے ورنہ موبائل فونز آمدن کا بہت بڑا ذریعہ تھا۔ انگریز سرکار نے جیل مینوئل بناتے وقت ہر پہلو پر غور و غوض کے بعد اس کی تیاری کی تاکہ قید خانوں کا کوئی گوشہ سرچ سے خالی نہ رہ جائے ۔ گزشتہ چند سال سے صوبے کی جیلوں میں قیدیوں کی ہلاکت کے واقعات سے ظاہر ہوتا ہے جیلوں میں تلاشی کا نظام ناکام ہو گیا ہے ورنہ سزائے موت کے قیدیوں کے پاس آزار بند اور رسیوں جیسی ممنوع چیزوں کا ہونا بذات خود جیل حکام کے لئے سوالیہ نشان ہے؟۔ چند سال کے دوران سینٹرل جیل ساہیوال اور سینٹرل جیل راولپنڈی کے علاوہ لاہور کی جیلوں میں قیدیوں کی ہلاکت ایسے واقعات پر شان کن ہیں۔ چند سال پہلے سزائے موت کے ایک قیدی نے آزار بند سے پھندا ڈال کر راولپنڈی جیل میں خودکشی کر لی۔ ساہیوال جیل میں ایسا ہی واقع پیش آیا اسی طرح لاہور کی جیلوں میں پے درپے واقعات اور تازہ ترین سنٹرل جیل راولپنڈی کی ہائی سیکورٹی جیل میں مقیدایڈز کے قیدی کی ہلاکت حیران کن ہے۔ہائی سیکورٹی جیل میں ویسے اتنی سختی ہوتی ہے ماسوائے لنگر لانے والے قیدیوں کے علاوہ کسی حوالاتی یا قیدی کو اس طرف جانے کی اجازت نہیں ہوتی۔ حال ہی میں ہائی سکیورٹی جیل اڈیالہ میں منشیات کے جرم میں بند قیدی کی ہلاکت اس بات کی غماز ہے ہائی سیکورٹی جیل میں واچ اینڈ وارڈ کے نظام میں کوئی نہ کوئی کمزوری ضرور ہے۔ گو ڈپٹی انسپکٹر جنرل جیل خانہ جات رانا عبدالرئوف نے ہائی سیکورٹی جیل کے انچارج اسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ اور دیگر وارڈرز کو ملازمت سے فوری طور پر معطل کر دیا ہے اور جن قیدیوں نے مقتول کو جنسی تشدد کا نشانہ بنانے کے بعد قتل کیا ہے کے خلاف مقدمہ قتل درج کر ا دیا ہے۔ ملزمان نے مقتول پر تشدد کیا آخر کچھ نہ کچھ شور غوغا تو ہوا گا۔ ڈیوٹی پر متعین ملازمین یا سو رہے تھے یا ڈیوٹی سے غیر حاضر ہوں گے ورنہ وہ موقع پر پہنچ کر سیل کھول کر مقتول کی جان بچا سکتے تھے۔ تعجب ہے اگلی صبح لنگر لانے والے قیدی نے مقتول قیدی کی ہلاکت کی اطلاع دی۔ عجیب تماشا ہے ایک ہی سیل میں نو سے دس قیدیوں کی موجودگی میں قیدی کی ہلاکت کی کسی کو کانوں کان خبر نہ ہو سکی؟ بنیادی بات یہ ہے قیدیوں اور حوالاتیوں کی تلاشی درست طریقہ سے ہوتی رہے تو شائد اس طرح کے واقعات میں کمی واقع ہو سکتی ہے۔ قانونی طور پر سزائے موت کے قیدی آزار بند نہیں باندھ سکتے بلکہ لاسٹک قیدی کپڑوں میں ڈال سکتے ہیں۔ کسی جیل میں جا کر دیکھ لیں سزائے موت کے کسی ایک قیدی کے کپڑوں میں لاسٹک کی بجائے آزار بند ہوگا۔ اگرچہ ملزمان کے خلاف مقدمہ درج ہو گیا ہے لیکن کوئی قیدی ملزم کے خلاف شہادت دینے کو تیار نہیں ہوگا بلکہ سیل میں موجودہ تمام کے تمام قیدیوں کا ایک بیان ہوگا وہ تو سو رہے تھے انہیں کسی بات کا علم نہیں ہے۔ حالانکہ یہ بات ممکن نہیں مقتول نے کوئی شور غوغا نہ کیا ہو اور سیل میں بند دیگر قیدیوں کو اس کی چیخ و پکار کا علم نہ ہو سکا ہو؟ حیرت ہے ایک سیل میں دس بارہ قیدیوں کو رکھا گیا ہے حالانکہ ہائی سیکورٹی جیل خاصی بڑی ہے۔ ہائی سکیورٹی کی تعمیر دہشت گردوں کو رکھنے کے لئے کی گئی لیکن بعد ازاں سکیورٹی اداروں نے ہائی سیکورٹی جیل کی پشت میں واقع پہاڑی کے سبب اس جیل کو دہشت گردوں کو رکھنے کے لئے ان فٹ قرار دے دیا تھا۔ آج ہائی سکیورٹی جیل میں حفاظتی قیدیوں اور حوالاتیوں کو رکھا جاتا ہے۔ دہشت گردوں کو رکھنے کے لئے ساہیوال اور میانوانی میں دہ نئی جیلیں تعمیر کی گئی ہیں۔ ساہیوال کی ہائی سکیورٹی جیل میں چاروں صوبوں سے گرفتار دہشت گردوں کو رکھا گیا ہے جبکہ میانوالی کی نو تعمیر ہائی سکیورٹی جیل ابھی تک خالی ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button