Ali HassanColumn

سیاسی جماعتیں اور منشور

علی حسن
مسلم لیگ ( ن) کے صد اور سابق وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ عوام نتیجہ خیز منشور کی تیاری میں ہماری مدد کریں۔ اپنے ایک بیان میں انہوں نے کہا ہے کہ ن لیگ عام انتخابات 2024ء کے لیے منشور تیار کر رہی ہے۔ منشور کی تیاری میں عوام بنیادی مسائل کی نشاندہی کریں اور ان کا قابل عمل حل تجویز کریں اور اس حوالے سے عوام ہماری مدد کریں۔ عوام ایسی تجاویز دیں، جو پاکستان کو آگے لے جانے میں ہماری مدد گار بنیں۔ ن لیگ کے چاہئے کہ اپنے ماضی کے منشور نکال کر جائزہ لے کہ کیا وعدے کئے گئے تھے اور ان پر کتنا عمل کیا جا سکا تھا۔ شہباز شریف ایک سے زائد بار پنجاب کے وزیر اعلیٰ بھی رہ چکے ہیں۔ سارے سیاست دانوں کے مقابلہ میں انہیں بہتر آگاہی ہونا چاہئے کہ اس ملک کے عوام کی فلاح و بہبود کی ترجیحات کیا ہونا چاہئے۔
پیپلز پارٹی کے سربراہ بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ دیگر سیاسی جماعتوں کے قائدین ماضی کے سیاست دان ہیں، پرانی سیاست کرتے ہیں، مستقبل نوجوانوں کا ہے۔ ملک میں وفاق کو بچانے والی واحد جماعت پاکستان پیپلز پارٹی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اٹھارہ مہینے جن کے ساتھ اتحادی حکومت میں رہے، انہیں معیشت، دہشتگردی اور جمہوریت سے دلچسپی نہیں تھی۔ مہنگائی، بیروزگاری، غربت اور دہشتگردی کے مقابلے کے لیے آپس کی لڑائیاں چھوڑنا پڑیں گی۔ بلاول بھٹو زرداری نے مزید کہا کہ عوام، مہنگائی، غربت، بیروزگاری کا خاتمہ چاہتے ہیں۔ چیئرمین پی پی نے اپنی ترجیحات بتاتے ہوئے کہا کہ عوام نے پیپلز پارٹی کو موقع دیا، تو 10کام ترجیحی بنیادوں پر کروں گا۔ حکومت بنائی تو پہلی ترجیح لوگوں کی تنخواہیں دگنی کرنا ہوگی۔300یونٹ تک بجلی مفت کر دیں گے۔ ہر بچے کی تعلیم تک رسائی یقینی بنائیں گے۔ ملک بھر میں مفت علاج کا نظام بنائیں گے۔ غریبوں کو 30لاکھ گھر بنا کر دیں گے۔ غربت مٹانے کیلئے بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کو بڑھائیں گے۔ ( بے نظیر انکم سپورٹ میں جو پیسہ مسلسل لگایا جارہا ہے اس رقم سے دیہاتوں میں صنعتیں کیوں نہیں ڈالی جاتی ہیں ) وغیرہ، وغیرہ ۔ بینظیر انکم سپورٹ کی طرح کسانوں کیلئے ’’ ہاری کارڈ‘‘ بنا کر دیں گے۔ مزدوروں کو ’’بینظیر مزدور کارڈ‘‘ بنا کر دیں گے۔ حکومت بنائی تو نوجوانوں کے لیے ’’ یوتھ کارڈ‘‘ کے ذریعے مالی مدد فراہم کریں گے۔ پاکستان پیپلز پارٹی ’’ بھوک مٹائو پروگرام‘‘ شروع کرے گی۔ پی پی چیئرمین نے مزید کہا کہ پانچ سال میں ملازمین کی تنخواہوں کو دوگنا کیا جائے گا۔ غریب ترین افراد کو 300یونٹ تک کا سولر یونٹ حکومت فراہم کرے گی۔ ہر ضلع میں گرین انرجی پارکس بنائیں گے۔ ہر ضلع کو کم قیمت پر بجلی ملے گی۔انہوں نے کہا کہ بینظیر انکم سپورٹ پروگرام شروع کیا تو مخالفین مذاق اڑاتے تھے۔ پوری دنیا مانتی ہے بینظیر انکم سپورٹ پروگرام انقلابی پروگرام ہے۔ بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کو بڑھائیں گے۔ ہاری کارڈ، کسان کارڈ دیں گے، بڑے مل مالکان کی بجائے کسانوں کو براہِ راست سبسڈی دیں گے۔
بلاول بھٹو نے یہ بھی کہا کہ تمام مزدوروں کو بینظیر مزدور کارڈ میں رجسٹرڈ کرائیں گے۔ صنعتوں میں کام کرنے والے، گھروں اور دکانوں میں کام کرنے والے افراد بھی مزدور کارڈ میں شامل ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ مزدور کارڈ کے ذریعے سوشل سکیورٹی فراہم کریں گے، پینشن دیں گے، بچوں کو تعلیم دیں گے، یوتھ کارڈز کے ذریعے نوجوانوں کو ایک سال کے لیے مالی مدد فراہم کریں گے۔ نوجوانوں کے لیے یوتھ سینٹر بنائیں گے۔ یوتھ سینٹرز میں لائبریری، سپورٹس اور کلچرل سہولتیں بھی ہوں گی، بھوک مٹائو پروگرام کے ذریعے مہنگائی کا مقابلہ کریں گے۔ انہوں نے یہ وضاحت نہیں کی کہ یہ سب کچھ کرنے کے لئے اس ملک کے ڈولتی ہوئی معیشت کتنی جان ہے۔ کیوں نہیں یہ وعدہ کیا جاتا ہے کہ جن لوگوں پر اس ملک کا پیسہ بیرون ملک بھیجنے کا الزام ہے وہ پیسہ کیسے واپس آئے گا۔ یہ وعدہ کیوں نہیں کیا جاتا ہے کہ اس ملک پر جو بھی قرضے ہیں ان کی ادائیگی کس طرح ممکن ہوگیا۔ سابق صدر آصف علی زرداری کا کہنا ہے کہ پاکستان غریب ملک نہیں صرف اسلام آباد بہت غریب ہے۔ مسئلہ اسلام آباد میں بیٹھے لوگوں کی سوچ کا ہے۔ گڑھی خدا بخش میں جلسے سے خطاب کرتے ہوئے زرداری نے کہا کہ انہیں نظر نہیں آتا کہ غریب کا کیا مسئلہ ہے۔ یہ ساری چیزیں سیاستدانوں کو نظر آتی ہے۔ پاکستان مسلم لیگ ( ن) سندھ کے صدر بشیر میمن نے کہا کہ بلاول بھٹو کی گڑھی خدا بخش میں تقریر مایوس کن تھی۔ ان کو دعویٰ ہے کہ ملک کو معاشی بحران سے نواز شریف ہی نکال سکتے ہیں۔ پی پی چیئرمین کے پاس پاکستان کو آگے بڑھانے کا کوئی منشور نہیں ہی۔ بلاول بھٹو تو کبھی سندھ تو کبھی پنجاب سے پیپلز پارٹی کے لیے ووٹ کی بھیک مانگ رہے ہیں۔ سندھ کے عوام باشعور ہیں۔ سیلاب فنڈز، موٹر وے میں کرپشن کرنے والوں کو ووٹ نہیں دیں گے۔
پاکستان میں سیاسی جماعتوں کا رواج ہے کہ عام انتخابات کے موقع پر عوام کو خوش کرنے کے لئے منشور کی کتابیں تیار کراتے ہیں اور اس میں ایسے ایسے وعدے کئے جاتے ہیں جنہیں انتخابات کے بعد منشور تیار کرنے والے لوگ خود دیکھتے بھی نہیں ہیں۔ منشور کسی بھی سیاسی جماعت کی وہ دستاویز ہوتی ہے جو وہ انتخابات کے موقع پر کچھ کرنے یا بہت کچھ کرنے کے وعدے کرتی ہے۔ منشور ایک رہنما دستاویز ہوتی ہے جسے سیاسی جماعتوں کو اقتدار یا بغیر اقتدار بار بار دیکھنا، پڑھنا اور جائزہ لینا چاہئے کہ اس ملک کے عوام کا مستقبل کو کسی طرح سنوارا جا سکتا ہے۔ لیکن دولت مند سیاست دانوں کو اس بات سے کوئی غرض نہیں ہوتی ہے ان کے ووٹر کے پیٹ میں روٹی ہے یا نہیں، جسم پر کپڑے ہیں یا نہیں، پائوں میں جوتے ہیں یا نہیں، وغیرہ۔ خود لاکھوں روپے کی مالیت کے جوتے پہنتے ہیں۔ پیپلز پارٹی نے اپنے قائم کے وقت منشور کے نام پر جو وعدے کئے تھے ان پر ٓج تک عمل در آمد نہیں ہو سکا۔ روٹی کپڑا اور مکان کا پر فریب نعرہ کانوں میں رس ضرور گھولتا ہے لیکن عمل در آمد کتنا ہوا۔ پارٹی نے قومیانے کی جس پالیسی پر عمل کیا ، اس پر بھی حکومت میں آنے کے بعد دوبارہ غور نہیں کیا گیا تھا بلکہ قومیانے کے نام پر وہ کچھ کر دیا تھا جس کا تصور نہیں تھا۔ دم پکڑتی صنعتوں کو قومیانہ اس انداز میں نہیں تھا کہ بینکوں، مالی اداروں، تعلیمی اداروں کو بھی قومی ملکیت کا حصہ بنا کر حامیوں کی بھرتی کی جائے۔ قومی ملکیت میں لینے کے سلسلے میں کابینہ کے اجلاسوں میں شدید اختلاف پایا جاتا تھا۔ زرعی اصلاحات کی اس ملک میں شدت کے ساتھ کل بھی ضرورت تھی اور آج بھی ہے لیکن زرعی اصلاحات نہایت بھونڈے انداز میں کی گئیں جس کا کوئی خاطر خواہ نتیجہ نہیں نکلا۔ سیاسی جماعتوں کو علم ہے کہ اگر اقتدار میں آگئے تو پوچھنے والا کون ہوگا کہ منشور پر کتنا عمل ہوا یا کس طرح عمل ہوگا۔ اگر اقتدار نہیں ملا تو احتجاج کے لئے نعرہ تو موجود ہوگا۔ ن لیگ تین بار وفاق میں اقتدار میں آئی، لیکن اس نے کبھی اپنا منشور کھول کر دیکھا تک نہیں۔ اب کون سی دودھ اور شہد کی نہریں بہا دیں گے۔ کیا سیاسی رہنما لا علم ہیں کہ اس ملک کے عوام کی اولین ترجیح انہیں تین وقت کی روٹی کا با عزت طریقہ سے ملنا ہے۔ اس ملک کے عوام کی اکثریت کو رہائش کا مسئلہ درپیش ہے۔ حکومت مکانات تعمیر کرکے دینے کے دعوے کے برعکس انہیں رہائش کے لئے شہروں سے قریب زمین فراہم کرے اور اس کے ساتھ ساتھ مرحلہ وار قرضہ برائے تعمیر ادا کرے۔ یہ کہنا کہ حکومت مکانات تعمیر کرا کے دے گی، سراب ہے۔ سرکاری اہلکار ساری رقم کرپشن کی نظر کر دیتے ہیں۔ سیاسی جماعتیں عوام کو اپنی طرف مائل کرنے کے لئے بڑے بڑے وعدے کرتی ہیں جن کا نتیجہ کوئی نہیں نکلتا ہے۔ تحریک انصاف کے قائد نے مکانات، روز گار وغیرہ وغیرہ کے بارے میں جو بھی وعدے کئے ان میں سے ایک بھی وفا نہیں ہو سکا۔ سیاسی جماعتوں کے منشور اور ان پر عملدرآمد کے بارے میں الیکشن کمیشن کو اپ ڈیٹ رکھنا چاہئے تاکہ آنے والے انتخابات کے وقت کمیشن عوام کو بتا سکے کہ جو پارٹی اقتدار میں تھی اس نے منشور پر کس حد تک عمل کیا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button