ColumnM Riaz Advocate

الیکشن ایکٹ 2017کے تحت الیکشن کمیشن کے افعال

محمد ریاض ایڈووکیٹ
انتخابی سسٹم میں پائے جانے والے نقائص کے سدباب کے لئے حکومت وقت نے جولائی 2014میں وزیر خزانہ سینیٹر اسحاق ڈار کی سربراہی میں پارلیمانی انتخابی اصلاحات کمیٹی تشکیل دی گئی، جس کے ممبران کی تعداد 33تھی۔ اس کمیٹی میں پارلیمنٹ میں موجود تمام سیاسی جماعتوں کو نمائندگی دی گئی۔ انتخابی اصلاحات کمیٹی کو چار ہزار صفحات پر 1200سفارشات موصول ہوئیں۔ تین سالوں میں پارلیمانی کمیٹی کے 70اجلاس ہوئے۔ پارلیمانی کمیٹی کے تین سالہ غوروخوض و ترامیم اور سفارشات کے بعد بالآخر الیکشن ایکٹ، 2017کی پارلیمنٹ سے منظوری حاصل کی گئی۔25باب اور241سیکشن پر مشتمل الیکشن ایکٹ 2اکتوبر 2017صدر مملکت کی منظوری کے بعد باقاعدہ قانون کی شکل اختیار کر گیا۔ الیکشن ایکٹ 2017منظوری کے بعد سابقہ قوانین جیسا کہ انتخابی فہرست ایکٹ، 1974، حلقہ بندی ایکٹ، 1974، سینیٹ ( الیکشن) ایکٹ، 1975، عوامی نمائندگی ایکٹ، 1976، الیکشن کمیشن آرڈر، 2002، کنڈکٹ آف جنرل الیکشنز آرڈر، 2002، پولیٹیکل پارٹیز آرڈر، 2002، انتخابی نشان آرڈر کی تقسیم،2002 منسوخ قرار پائے۔ الیکشن ایکٹ 2017کے پہلے باب میں ابتدائیہ اور تعریفات کا اندراج ہے۔ باب دوم میں سیکشن 3کے تحت الیکشن کمیشن کو اپنے افعال کو سرانجام دینے کے لئے معیاری طریقہ کار اپنانے کا اختیار دیا گیا۔ سیکشن 4میں الیکشن کمیشن کو وفاقی و صوبائی انتظامیہ کو ہدایات جاری کرنے کے اختیارات دیئے گئے ہیں، الیکشن کمیشن کی جانب سے کوئی بھی ہدایت یا حکم پوری پاکستان میں نافذ العمل ہوگا اور اس پر عمل درآمد اسی طرح کیا جائے گا جیسے یہ حکم نامہ ہائی کورٹ نے جاری کیا ہو۔ سیکشن 5کے مطابق وفاق اور صوبوں میں تمام انتظامی حکام کا فرض ہو گا کہ وہ کمشنر اور کمیشن کو اپنے کاموں کی انجام دہی میں اس طرح کی مدد فراہم کریں جیسا کہ کمشنر یا کمیشن کو ضرورت ہو۔ اسکے ساتھ جہاں کمیشن حاضر سروس عدالتی افسران کی خدمات کو بروئے کار لانے کا فیصلہ کرتا ہے، وہ متعلقہ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کی مشاورت سے ایسا کر سکتا ہے۔ سیکشن 6کے مطابق الیکشن کمشنر اس ایکٹ کے تحت اس کے سامنے دائر کی گئی شکایات، درخواستوں، درخواستوں یا اپیلوں کی سماعت اور فیصلہ کرنے کے لیے کمیشن کے دو یا زیادہ اراکین پر مشتمل بنچ تشکیل دے سکتا ہے۔ سیکشن 7کے مطابق الیکشن ڈیوٹی کی بابت پولنگ اسٹیشن بیلٹ بکس یا دیگر انتخابی مواد یا تعینات شدہ کسی فرد کو لانے لے جانے کے لئے الیکشن کمیشن صوبائی حکومتی انتظامیہ کو ضرورت کے تحت گاڑی، جہاز اور نقل و حمل کے دیگر ذرائع کے حصول کے لئے درخواست کر سکتا ہے۔ اور انتظامیہ کے لئے الیکشن کمیشن کی درخواست پر عمل پیرا ہونا لازم ہوگا۔ الیکشن ایکٹ کے سیکشن 8میں منصفانہ انتخابات کو یقینی بنانے کے لیے کمیشن کے اختیارات مذکور ہیں، جیسا کہ بڑے پیمانے پر ہونے والی بدعنوانیوں کی وجہ سے انتخابات کے منصفانہ اور قانون کے مطابق انعقاد یقینی نہ ہوسکے تو الیکشن کمیشن انتخابات کے کسی بھی مرحلے پر ایک یا ایک سے زیادہ پولنگ اسٹیشنوں پر پولنگ کو روک سکتا ہے۔ سیکشن 9کے تحت پولنگ سٹیشنوں یا پورے حلقے میں سنگین غیر قانونی حرکات یا الیکشن ایکٹ 2017کے قواعد کی سنگین خلاف ورزیوں کی صورت میں الیکشن کمیشن کے پاس کسی حلقہ کے انتخابات کو کالعدم قرار دینے کا اختیار حاصل ہے۔ سیکشن 10کے تحت توہین عدالت آرڈیننس 2003یا کسی اور توہین عدالت کے متعلق رائج قوانین کے تحت الیکشن کمیشن ، چیف الیکشن کمشنر یا ممبر الیکشن کمیشن کی توہین کی صورت میں کسی شخص کو سزا دینے کے لیے ہائی کورٹ جیسے اختیارات کا استعمال کر سکتا ہے۔ اور اس کاروائی کے اثرات بالکل ایسے ہی تصور کئے جائیں گے جیسا کہ عدالت یا جج کی توہین پر توہین عدالت کی کاروائی کی جاتی ہے۔ سیکشن 11کے مطابق الیکشن کمیشن کے تمام انتظامی اخراجات اور دیگر اخراجات آئین پاکستان کے آرٹیکل 81کے معنی کے تحت فیڈرل کنسولیڈیٹڈ فنڈ سے وصول کیے جائیں گے۔ سیکشن 12میں الیکشن کمیشن انتخابات کے حوالہ سے سرکاری ، کلی و نیم خودمختار کارپوریشنز اداروں کے افسران کی ٹریننگ کا انعقاد کروانا ، پبلک اتھارٹیز، تعلیمی اداروں کو انتخابی قوانین بارے آگاہی کے لئے ہدایات جاری کرنا۔ عوام الناس کو انتخابی عمل بارے رہنمائی پروگرامز کو ترتیب دینا تاکہ زیادہ سے زیادہ افراد انتخابی فہرستوں میں شامل ہوسکیں، انتخابی نظام میں شفافیت اور بدعنوانی کے خاتمہ کے لئے ان قوانین، قواعد و ضوابط کا جائزہ لینا جو انتخابات کے انعقاد سے متعلق ہوں اور وفاقی حکومت کو ایسے قوانین، قواعد و ضوابط میں ترمیم کی سفارش کرے گا۔ سیکشن 13کے تحت الیکشن کمیشن کے پاس اختیار حاصل ہوگا کہ کمیشن سرکاری گزٹ اور کمیشن کی ویب سائٹ پر نتائج کی تیز رفتار گنتی، ترتیب، ترسیل، تقسیم اور اشاعت کے لیے شفاف نتائج کے انتظام کا نظام قائم کرے ۔ سیکشن 14کے تابع کمیشن، اسمبلی کی میعاد ختم ہونے پر عام انتخابات کے انعقاد سے کم از کم چار ماہ قبل، ایک جامع ایکشن پلان تیار کرے گا جس میں تمام قانونی اور انتظامی اقدامات کی وضاحت کی جائے گی جیسا کہ حلقہ بندیاں، انتخابی فہرستوں پر نظر ثانی، سیاسی جماعتوں کی فہرست سازی، انتخابی نشانوں کی تقسیم، ریٹرننگ افسران کی تقرری، پولنگ سٹیشنوں کی فہرست کو مرتب کرنا، بیلٹ پیپرز کی مطلوبہ تعداد کا تعین اور چھپائی اور پرنٹنگ پریس کا تقرر، انتخابی نتائج کے لیے شفاف رزلٹ مینجمنٹ سسٹم کا قیام، کسی بھی نئی ٹیکنالوجی کا تعارف، انتخابی مبصرین کے لیے انتظامات، اپیلٹ اور الیکشن ٹربیونلز کی تقرری، حفاظتی اقدامات اور مانیٹرنگ کے طریقہ کار، ایکشن پلان کے عملدرآمد کے حوالے سے پیش رفت کی اطلاع دینا۔ سیکشن 15کے تحت الیکشن کمیشن کے فیصلوں سے متاثرہ شخص کے پاس کمیشن کو شکایت لگانے کا حق حاصل ہے۔ کمیشن انکوائری کے بعد متاثرہ شخص کی تلافی کرے گا۔ سیکشن 16کے مطابق کمیشن، ہر کیلنڈر سال کے اختتام کے بعد نوے دنوں کے اندر، سال کے لیے اپنی سرگرمیوں کی رپورٹ شائع کرے گا اور رپورٹ وفاقی حکومت اور ہر صوبائی حکومت کو بھیجے گا۔ وفاقی حکومت اور ہر صوبائی حکومت کمیشن سے سالانہ رپورٹ کی وصولی کے ساٹھ دنوں کے اندر سالانہ رپورٹ مجلس شوریٰ پارلیمنٹ کے ہر ایوان اور ہر صوبائی اسمبلی میں پیش کرے گی ۔ پارلیمنٹ کے کسی بھی ایوان میں سالانہ رپورٹ پیش کرنے کے فوراً بعد، کمیشن اپنی ویب سائٹ پر سالانہ رپورٹ شائع کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button