Ali HassanColumn

بلوچستان، رستا ہوا زخم

علی حسن
یہ کس کا حکم ہوگا کہ بلوچ خواتین کے لانگ مارچ کی شرکا پر سردی کی رات میں ٹھنڈا پانی پھینکا جائے۔ یہ کس نے کہا ہوگا کہ گرفتاریوں کے باوجود خواتین کو گاڑی پر بٹھاتے وقت ان کے جسم پر تھپڑ مارا جائے۔ بلوچستان سے یہ قافلہ کوئی چوری چھپے تو اسلام آباد میں داخل نہیں ہوا ہوگا۔ بلوچستان حکومت با خبر تھی کہ گمشدہ لوگوں کی تلاش یا رہائی کے سلسلے میں خواتین کا یہ قافلہ جارہا ہے۔ اسلام آباد میں بھی حکام کو بے خبر نہیں ہونا چاہئے تھا کہ یہ قافلہ اپنے پیاروں کی تلاش میں نکلا ہے۔ اس کے باوجود خواتین کے ساتھ دشمن جیسا غیر انسانی سلوک کیا معنی رکھتا تھا۔ جو دنیا بھر میں جگ ہنسائی ہو گئی تو نگران وزیر اعظم نے نگران وفاقی وزراء پر مشتمل کمیٹی قائم کی جس کی ذمہ داری یہ بتائی گئی کہ کمیٹی مظاہرین سے گفت و شنید کرے گی۔ کیا یہ کمیٹی ان کی آمد کے فوری بعد ہی قائم نہیں کی جاسکتی تھی۔ کیا ان کے ساتھ عزت و احترام سے پیش نہیں آیا جا سکتا تھا۔ ملک کے معروف صحافی حامد میر نے اسلام آباد ہائیکورٹ کو اپنی طلبی پر بتایا کہ انہوں نے دیکھا کہ پولس کا رویہ گرفتار شدہ خواتین کے ساتھ غیر انسانی تھا۔ حامد میر کا کہنا ہے کہ انہوں نے اشفاق وڑائچ نامی ایک پولس اہلکار کو ان خواتین کو مارتے ہوئے بھی دیکھا ہے جس پر انہوں نے اشفاق وڑائچ کو تنبیہ کی کہ وہ ایسا کیوں کر رہا ہے۔ کیا اسلام آباد پولس نے سربراہ اکبر ناصر نے اپنی ماتحت پولس اہلکاروں سے سوال کیا کہ انہیں نے بلوچ خواتین کے ساتھ دشمنوں جیسا رویہ کیوں اختیار کیا ۔ انہیں کس نے ایسا کرنے کا حکم دیا تھا۔ اگر کسی کا یہ خیال ہے کہ اس طرح کے ہتھکنڈوں سے عوام کو احتجاج کرنے، لانگ مارچ کرنے، مظاہرہ کرنے سے روکا رکھا جا سکتا ہے تو یہ خام خیالی ہے۔ پاکستان کی تاریخ بتاتی ہے لوگ ہر پابندی کے خلاف راستہ نکال لیتے ہیں۔
پاکستان کا یہ المیہ رہا ہے کہ یہاں مظاہرین، سیاسی کارکنان، خواتین، طلبا اور طالبات کے ساتھ دشمنوں جیسا رویہ اختیار کیا جاتا ہے۔ ہم وطنوں اور غیر ملکی دشمنوں کے ساتھ پیش آنے کا طریقہ سرے سے مختلف ہونا چاہئے۔ مظاہرہ کرنے والی خواتین کے ساتھ سلوک کی نگرانی پولس نے کسی ذمہ دار افسر کو کرنا چاہئے تھی۔ یہاں پولس ہو یا رینجرز یا سب سے زیادہ طاقتور ادارے سے تعلق رکھنے والے لوگ، وہ دوران ڈیوٹی اپنے ہم وطنوں سے ساتھ محبت، روا داری یا در گزر کے ساتھ پیش آنے کی بجائے ایسا رویہ اختیار کرتے ہیں جیسے یہ لوگ غیر ملکی ہوں اور دشمن ملک سے تعلق رکھتے ہوں۔ اس کی بظاہر وجہ یہ نظر آتی ہے کہ ان کی تربیت ہی دشمن کے ساتھ پیش آنے کی کئی گئی ہے۔ ان کا خیال ہوتا ہے کہ اگر وہ مسکرا کر پیش آجائیں گے تو پہاڑ ٹوٹ گرے گا۔ قیامت ٹوٹ پڑے گی۔ شاہی قلعہ لاہور میں قائم عقوبت خانہ میں قیدیوں کے ساتھ روا رکھے گئے رویوں کی کہانیاں رونگٹے کھڑے کر دیتی ہیں۔
کوئٹہ سے شائع ہونے والے روز نامہ آزادی کا اداریہ ہے کہ بلوچستان میں لاپتہ افراد سمیت انسانی حقوق کی پامالی کی خلاف اسلام آباد میں بلوچ یکجہتی کمیٹی کے فورم کے ذریعے لواحقین کا احتجاج جاری ہے۔ تربت سے لانگ مارچ کا پڑائو جب اسلام آباد میں پڑا تو مظاہرین کی گرفتاری اور ان پر تشدد نے حالات کو مزید خراب کرکے رکھ دیا۔ پولیس نے کس کی ہدایات پر تشدد اور گرفتاریاں کی جن میں خواتین، بزرگ چھوٹے بچے شامل تھے اس کی تحقیقات ضرور ہونی چاہئے اور پولیس کے اس عمل کے خلاف سختی سے بھی نوٹس لینا چاہئے کہ عدالت کے سامنے یہ بتایا گیا کہ گرفتار افراد کو رہا کر دیا گیا ہے مگر انہیں رہا نہیں کیا گیا اس کی بھی باز پرس ہونی چاہئے۔ نگران وزیراعظم اور صدر مملکت نے بھی اس عمل کی شدید مذمت کی۔ نگراں حکومت کی یہ مکمل ذمہ داری بنتی ہے کہ تمام پہلوئوں کا جائزہ لیتے ہوئے انصاف کے تقاضوں کو پورا کیا جائے۔ اسلام آباد میں بلوچستان کے مظاہرین پر تشدد کے حوالے سے انتہائی منفی پیغام گیا ہے کہ بلوچستان کی ساتھ اسلام آباد کا رویہ ناروا ہے اس تاثر کو مزید اب شے بھی ملی جب تشدد کا راستہ پْرامن مظاہرین پر اپنایا گیا خود اس بات کا اعتراف نگراں وزرا کر رہے ہیں کہ بلوچ مظاہرین نہتے تھے مگر چند نقب پوش افراد جن کا تعلق اسلام آباد سے ہی تھا حالات خراب کرنے کی کوشش کرنا چاہتے تھے جس کی وجہ سے مظاہرین کو آگے بڑھنے سے روکا گیا حالانکہ گزشتہ کئی دنوں سے لاپتہ افراد کے اہلخانہ اسلام آباد پریس کلب کے سامنے احتجاج کر رہے ہیں اس دوران کوئی بھی تشدد اور گرفتاری کا معاملہ سامنے نہیں آیا مگر حالات کو کس نے خراب کیا اس کی وجوہات کیا تھی ان تمام تر پہلوئوں کا شفاف طریقے سے تحقیقات ضروری ہے جبکہ مشکوک افراد جو تھے ا ن کے خلاف ایکشن ہونی چاہئے ۔ امید ہے کہ بلوچستان کے اہم ترین مسئلے لاپتہ افراد کے معاملے کو جلد حل کرنے کے حوالے سے ریاست اپنا کردار ادا کرے گی تاکہ آئین کی بالادستی برقرار رہ سکے اور لوگوں میں موجود اس حوالے سے غم وغصے میں کمی آئے۔
بلوچ یکجہتی کمیٹی کے لانگ مارچ کے شرکا پر اسلام آباد پولیس کی جانب سے آنسو گیس کی شیلنگ، تشدد اور گرفتاریوں کے خلاف بلوچستان بھر میں احتجاج ہوئے ہیں اور بلوچستان اسمبلی کے سامنے احتجاجی دھرنے دیئے گئے۔ لانگ مارچ کی قیادت کرنے والی ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کا کہنا ہے کہ بلوچستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر کمیشن بنایا جائے، صوبے میں سی ٹی ڈی اور ڈیتھ سکواڈز کا خاتمہ کیا جائے، ہم تربت سے اسلام آباد جبری گمشدگیوں کیخلاف آواز اٹھانے آئے ہیں اور ہمارا مطالبہ ہے کہ جبری گمشدگیوں اور بلوچوں کے قتل عام کے خلاف سنجیدہ اقدامات کیے جائیں۔ اور وزارت داخلہ پریس کانفرنس کر کے ان جرائم پر معافی مانگے جو بلوچستان کے عوام کے ساتھ روا رکھے گئے ہیں۔ سینیٹر فرحت اللہ بابر نے کہا بلوچوں سے سوتیلی ماں والا سلوک بند ہونا چاہیے، سینیٹر مشتاق احمد کا کہنا ہے کہ لاپتا افراد بازیاب کیے جائیں۔ عقلمندی کا تقاضا ہے کہ بلوچستان کو ناسور نہیں بننے دیا جائے۔ اسی مرحلے پر اس کا موثر علاج کیا جائے۔
نوبل انعام یافتہ ملالہ یوسفزئی کے والد ضیاء الدین کی رائے ہے کہ ’’ بلوچ یکجہتی کمیٹی کی پْر امن تحریک اور لانگ مارچ نے جو کامیابی صرف 30دن میں حاصل کی، ناراض بلوچ عسکریت پسند وہ تشدد سے پچھلے 70سالوں میں بھی حاصل نہ کر سکے۔ ماہ رنگ، سمی دین بلوچ، لطیف بلوچ اور ان کے ساتھیوں نے باغی بلوچ بھائیوں کو پْر امن جدوجہد کا موثر ترین راستہ دکھایا ہے۔ کاش وہ بھی یہی راستہ اپنائیں۔ ریاست کے ساتھ بھی ایک نادر موقع ہے کہ وہ مظاہرین کے مطالبات مان کر پْرامن جدوجہد کی حوصلہ افزائی کرے، نہ کہ گھمنڈ اور ہٹ دھرمی سے مظلوم بلوچوں کو مزید تشدد کی طرف دھکیل دے ‘‘۔ بلوچستان میں حالات کو پرامن دیکھنے والوں کی خواہش ہے کہ حکومت ماہ رنگ اور دیگر خواتین کو اعتماد میں لے کر ان کے ذمہ یہ فرض لگائیں کہ وہ عسکریت پرست تشدد پسند افراد کو قومی دھارے میں شامل کرانے میں حکومت سے تعاون کریں۔ حکومت کو چاہئے کہ ان کے اعتماد کو ذرہ برابر بھی ٹھیس نہ پہنچے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button