CM RizwanColumn

سیاسی شعور کی وفات پر اظہار تعزیت

سی ایم رضوان
حقیقت تو یہ ہے کہ ہمارے یہاں کے تقریباً تمام سیاسی رہنما بے عمل ہیں اور نسبتاً باشعور عوام میں اپنی حقیقی مقبولیت کھو بیٹھے ہیں۔ ملک و قوم کے مثبت کام کی بجائے محض شیخیاں بگھارنا اور مخالف سیاستدانوں پر الزام لگانا اور ان پر تنقید کرنا ہی اپنا سیاسی فریضہ سمجھ بیٹھے ہیں۔ سطحی نوعیت کا یہ سیاسی عمل حقیقی اور مشنری قسم کی سیاسی خدمات سے انحطاط پذیر ہو کر مختلف مراحل سے گزرتا ہوا گزشتہ پچیس برس سے مسلسل جاری ہے جو کہ اب اپنے منطقی انجام کو یوں پہنچ چکا ہے کہ اب ملک میں جمہوری مکالمے، جمہوری عمل اور پروگریسو سیاسی عمل سے انکار کا رویہ عام، مقبول اور مضبوط ہو کر ہماری پچھلی تمام تر سیاسی تاریخ پر تین حروف بھیجتا نظر آ رہا ہے۔ اب اگر آپ کبھی مختلف تعلیمی درجوں میں نمایاں کامیابی حاصل کرنے والے قابل طالب علموں کے اخبارات میں شائع انٹرویو پڑھیں یا کسی ٹی وی چینل پر ان کی گفتگو دیکھیں تو آپ کو بڑی شدت سے یہ احساس ہو گا کہ جب ان نوخیز اہل دانش اور قوم کے نونہالوں سے یہ سوال پوچھا جاتا ہے کہ آپ اپنے وقت کے سیاستدانوں کے بارے میں کیا کہنا چاہیں گے تو ان کا ہمیشہ ایک ہی جواب ہوتا ہے کہ ہمیں اپنے ملک کی مروجہ سیاست سے نفرت ہے۔ البتہ وہ یہ ضرور کہتے ہیں کہ ہم ڈاکٹر، انجینئر یا سول سرونٹ بن کے قوم کی خدمت کریں گے یہ بھی ستم اب زیادہ ہو گیا ہے کہ برین ڈرین تیزی اور کثرت سے جاری گویا ان کے نزدیک سیاست میں حصہ لے کر قوم کی خدمت نہیں کی جا سکتی۔ ستم ظریفی یہ بھی ہے کہ اسی انٹرویو میں اپنی پسندیدہ اور مثالی آئیڈیل شخصیت کا ذکر کرتے ہوئے یہ ہونہار طلبہ قائدِ اعظم محمد علی جناحؒ کا نام لینا نہیں بھولتے۔ اس پر ستم یہ بھی کہ ہماری عام تحریروں میں بھی لفظ سیاست کا مفہوم ہی بدل گیا ہے۔ مثال کے طور پر یورپ اور ترقی یافتہ ممالک میں کسی شخص کو سیاسی کہنا گویا اس کے باشعور اور ذمہ دارانہ سماجی رویے کا اعتراف ہوتا ہے جبکہ ہمیں کسی کو عیار، مکار دھوکے باز اور ضرورت سے زیادہ کائیاں قرار دینا ہو تو ہم سلیس اردو میں کہتے ہیں کہ وہ شخص بڑا سیاسی ہے یا پھر یہ کہہ دیا جاتا ہے کہ بھائی میاں سیاست نہ کرو، کام کی اور ایمانداری کی بات کرو۔ پچھتر سالہ قومی سفر کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ اب افسر شاہی بھی اس نتیجے پر پہنچ گئی ہے کہ ملک میں اگر آئین، اقتدار، زبان اور قومیتوں پر لڑتے جھگڑتے سیاست دانوں نے عوامی تائید کے بغیر ہی حکومت کرنا ہے تو پھر انتظامی مہارت اور تجربے سے بہرہ ور افسر شاہی کیوں نہ خود ہی حکومت کرے۔ ہمارا ایک قومی المیہ یہ بھی ہے کہ قیام پاکستان کے چند سال بعد ہی بیوروکریسی کی انگلی پکڑے فوج اقتدار میں چلی آئی تھی۔ ظاہر ہے کہ تقسیمِ ہند کے بعد بھارت کی نسبت پاکستان تعلیمی، سماجی اور معاشی اعتبار سے خاصا پسماندہ تھا چنانچہ ہمارے یہاں سیاسی روایات بھی کمزور تھیں۔ اس کے برعکس بھارت میں کانگریس عوامی تنظیم اور جدوجہد کے ان گنت مراحل سے گزر کر سیاسی پختگی کی منزل تک پہنچی ہوئی تھی۔ ہماری طرف مسلم لیگ کے اوراق میں عوامی رابطے، تنظیم اور جدوجہد کی تاریخ زیادہ پرانی نہیں تھی۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں آج بھی تحریکِ پاکستان کے گفتنی کارکن تو بے شمار ہیں لیکن چند مستثنیات کے علاوہ تحریکِ آزادی کا حقیقی کارکن نسخے میں ڈالنے کو نہیں ملتا۔ ابتدا میں مسلم لیگ کی تنظیمی کمزوری پر مستزاد تقسیم کی اکھاڑ پچھاڑ بھی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ شروع میں ہی لیاقت علی خان ایسے سٹپٹائے کہ اسمبلی کے فلور اور پھر جلسہ عام میں سہروردی کے خلاف قابلِ اعتراض زبان استعمال کی۔ چھوٹتے ہی ڈاکٹر خان صاحب کی وزارت برطرف کر دی گئی۔ پھر یہ بھی کہ اس نوزائیدہ مملکت کے بنیادی سیاسی عمل کا آغاز ہی غداری کے الزام سے ہوا اور ترقی معکوس کا یہ سفر جمہوریت کی بجائے آمریت پہ منتج ہوا۔ پاکستان کی بانی جماعت عوام کے اعتماد کی بجائے حیلے بہانوں سے حکومت کرنے کا سوچنے لگی اور آمریت ایک دو نہیں تین چار بار ملک کے خزانوں پر قبضے کے نشہ سے یوں سرشار ہوئی کہ اب اگر ان کی اقتدار سے دوری کی بات کی جائے تو تڑپ اٹھتی جیسے جل بن مچھلی۔
ایک عالمگیر اصول کے مطابق ریاست کے سٹرکچر میں آئینی اور جمہوری عمل سے انحراف غداری کے مترادف ہوتا ہے لیکن ہمارے یہاں ایک سیاسی جماعت حاکم ہو تو اس کی مخالف سیاسی جماعت اور کچھ نہ کر سکے تو فوج کو خود ہی دعوت دیتی ہے کہ وہ اقتدارِ اعلیٰ کی زمام اپنے ہاتھوں میں تھام لے اور پھر یہ بھی گارنٹی دے دی جاتی ہے کہ اگر کل کلاں عوام آمریت سے اکتا جائیں تو پھر اگلی جمہوری حکومت کے لئے وہ حاضر ہوں گے۔ پھر یہ بھی ایک سوچ پائی جاتی ہے کہ اگر غیر جمہوری اور غیر سیاسی تدابیر سے مسائل حل ہو سکتے ہیں تو پھر اقتدار دوبارہ سیاستدانوں کے سپرد کیوں کیا جائے۔ لہٰذا غیر عوامی سیاسی یا غیر سیاسی حکمرانوں کا ایک اہم منصبی فریضہ جمہوریت کی مذمت اور سیاستدانوں کی کردار کشی قرار پاتا ہے اور وہ یہ فرض بطریق احسن انجام بھی دیتے ہیں۔ پھر یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ 1958ء کے بعد سے ہر فوجی حکومت کل وقتی بنیادوں پر یہ کام تندہی سے کرتی بھی رہی ہے۔ تب سے لے کر آج تک اقتدار میں آنے والی کوئی بھی سیاسی قیادت اپنی تمام تر کمزوریوں کے باوصف کسی بھی غیر سیاسی قیادت کی بر سرعام مذمت نہیں کر سکی۔ اس بدعملی اور سیاسی فرض نا شناسی کا منطقی اور حتمی نتیجہ یہ نکلا کہ خود سیاستدان حقیقی سیاسی عمل سے اجتناب کرنے لگا۔ چونکہ جمہوری عمل فی الاصل طویل، صبر آزما اور پیچیدہ ہوتا ہے۔ معاشرتی ارتقا میں ہزاروں مشکلات اور کئی رکاوٹیں آتی ہیں۔ پھر یہ بھی جمہوریت کا شہد آمریت جیسی غلاظت کی ایک چھینٹ بھی بطور ملاوٹ قبول نہیں کرتا ساتھ ہی ساتھ سیاسی کار کنوں کو سیاسی پختگی تک پہنچنے کے لئے ایک لمبا سفر اور طویل تجرباتی عمر درکار ہوتی ہے۔ اس لئے نام نہاد سیاسی قائدین بھی شارٹ کٹ لینے کے لئے یہ فیصلہ کر لیتے ہیں کہ چونکہ پاکستان میں جتنی دیر میں حقیقی سیاسی قیادت کی ایک نسل تیار ہونے اتنی دیر لگتی ہے کہ اس عرصہ میں تین یا چار بار اقتدار کے مزے لوٹے جا سکتے ہیں لہٰذا وہ بھی آمریت کے اصولوں پر مبنی سیاسی پوائنٹ سکورنگ کا رستہ اپناتے ہیں اور جمہوری اصولوں کے قتل عام کے چکر میں عوام کے حقوق کا قتل عام بھی اپنا جائز حق تصور کر لیتے ہیں اور نوجوان سیاستدانوں کی تربیت بھی انہی خطوط پر کرتے ہیں سیاست میں رہ کر آمریت کے دلدادہ ہوں جس طرح کہ ایک سابق وزیراعظم نے اپنی کامیابی کی گارنٹی ملنے کے بعد کہہ دیا تھا کہ امپائر کی انگلی اٹھنے والی ہے۔ یوں اصلی سیاسی شعور کا شعور تک سیاستدان طبقے کے لئے شجر ممنوعہ قرار پا جاتا ہے اور اس عدم شعور کا شکار آخر کار عام سیاسی ورکر، عام ووٹر اور عوام الناس ہو جاتے ہیں اور یہ تماشا ہم نے اپنی قوم، ملک اور سیاست کے ساتھ ہوتے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے اسی لئے ہم آج بلا خوف تردید یہ قرار دے رہے ہیں کہ ہماری قوم اور خالصتاً پڑھے لکھے طبقے کا سیاسی شعور کئی دہائیاں گزریں فوت ہو چکا ہے اور ہر جنرل الیکشن پر اس فوتگی کی گویا برسی بڑی دھوم دھام کے ساتھ عوام کی بھرپور تالیوں کی گونج میں قومی جوش و جذبے کے ساتھ منائی جاتی ہے۔
صرف عوام اور ووٹرز نے ہی نہیں ہمارے ملک کے باشعور طبقوں مثلاً صحافیوں، وکلائ، سول افسروں اور پیشہ ورانہ طبقات کی بڑی تعداد نے گویا اس سیاسی بے شعوری سے سمجھوتا کر لیا ہے۔ 1985ء کے غیر جماعتی انتخابات شخصی سیاست کا نقط آغاز تھے۔ پھر ذات پات اور شخصی اثر و نفوذ کی بنیاد پر سیاست کا نقط? اختتام 2002ء کے انتخابات میں سامنے آیا جب کسی سیاسی جماعت نے منشور تک پیش کرنے کی زحمت نہیں کی تھی۔ یہاں تک کہ پورے ملک میں ایک بھی بڑا جلسہ منعقد نہیں ہوا تھا۔ پھر 2018 ء کے انتخابات نے تو ایک ڈکٹیٹر مزاج عوامی وزیراعظم قوم کو تحفے میں ایسا دیا کہ اب خود اسٹیبلشمنٹ کو اس سے دامن بچانا پڑ رہا ہے۔ آئندہ آٹھ فروری کو ہونے والے انتخابات بھی کچھ اسی طرح کے حالات کا شکار ہیں۔ ان حالات میں قوم کو بس اس قدر سیاسی شعور کا مظاہرہ کرنا ہے کہ وہ ان سیاسی قوتوں کے ہاتھ مضبوط کریں جو اپنے عمل سے ماضی قریب میں یہ ثابت کر چکی ہیں کہ سیاست نہیں ریاست بچانا وقت کی ضرورت ہے۔ اس سیاسی قوت پر بھی لاتعداد اعتراضات برحق ہیں لیکن چونکہ سیاسی عمل تو معاشرے کے گلی کوچوں سے جنم لیتا ہے۔ ایسے میں سیاسی جماعتوں کی نا گفتہ بہ حالت کو مزید خراب کرنا تو قومی زخموں پر نمک پاشی کے مترادف ہو گا۔ یاد رہے کہ پاکستان کی موجودہ تمام تر سیاسی قیادت نے فوجی بالادستی میں اپنے شعور کی آنکھ کھولی تھی۔ آج پاکستان میں کوئی سیاسی جماعت یا رہنما ایسا نہیں جس نے کہیں نہ کہیں غیر جمہوری یا غیر آئینی سمجھوتے نہ کیے ہوں۔ ایسے میں صرف اس امر کے ادراک کی ضرورت ہے کہ بیشک غیر جمہوری ہی سہی لیکن ایسی سیاسی طاقت آئندہ پانچ سالوں کے لئے اقتدار میں آنے جو کم از ملکی معیشت اور معاشرت کو تو ڈوبنے سے بچا لے جو کہ اب ڈوب رہے ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button