Ali HassanColumn

انتخابات کو با مقصد ہونا چاہئے

علی حسن
پاکستان میں ایک فرد ایک ووٹ کی بنیاد ہونے والے انتخابات کے عمل کا آغاز ہو گیا ہے۔ کاغذات نامزدگی جاری کئے گئے ہیں، کاغذات جمع ہونے کا شیڈول بھی جاری انتخابات کے شیڈول کے ساتھ جاری ہو چکا ہے۔ بڑے امیدواروں کے بارے میں حلقوں کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ نواز شریف کہاں کہاں سے امیدوار متوقع ہوں گے۔ مریم نواز شریف کس کس حلقے سے انتخابات میں حصہ لیں گی۔ عمران خان کن حلقوں سے امیدوار بن سکتے ہیں۔ اسی طرح دیگر امیدواروں کے بارے میں بھی اطلاعات دی جارہی ہیں۔ آنے والے کل کے بارے تو سوائے قدرت کسی کو بھی علم نہیں ہوتا ہے۔ امیدیں، وسوسے، خدشات، اندیشے اپنی جگہ ہیں۔ پاکستان میں ایک فرد ایک ووٹ کی بنیاد پر پہلے عام انتخابات کا انعقاد دو سری مارشل لاء حکومت نے 1970ء میں منعقد کرائے تھے۔ ان انتخابات کے نتیجے اکثریت حاصل کرنے والی سیاسی جماعت عوامی تحریک کو اقتدار منتقل نہ کرنے کی صورت میں ملک ایک خانہ جنگی اور بڑے قتل عام اور بھارت کی جانب سے تھونپی ہوئی جنگ کے بعد دو لخت ہو گیا تھا۔ حیران کن بات یہ ہے کہ اس وقت سے ہونے والے تمام عام انتخابات کے نتیجے میں قائم ہونے والی حکومتیں اپنی مدت پوری نہیں کر سکی ہیں اور نہ ہی عوام کی فلاح و بہبود کے سلسلے میں کوئی عمل کام کیا جا سکا۔1977ء میں ہونے والے انتخابات کے بعد تو ملک میں اس بنیاد پر ہنگامے پھوٹ پڑے تھے کہ انتخابات میں دھاندلی ہوئی ہے۔ پیپلز پارٹی کی حکومت اور تمام مخالف سیاسی جماعتوں پر مشتمل حزب اختلاف کے درمیان ہونے والے طویل مذاکرات بے نتیجہ ثابت ہوئے تو ملک میں جنرل ضیاء الحق نے جولائی 1977ء میں مارشل لاء نافذ کر کے نوے روز میں انتخابات کرانے کا وعدہ کیا تھا۔ پیپلز پارٹی کی مقبولیت و دیگر وجوہات کی بناء پر جنرل ضیاء الحق کی حکومت کا اقتدار طول پکڑتا رہا جس میں گیارہ سال لگ گئے۔ 1985ء پہلی بار غیر جماعتی انتخابات کی بنیاد د ڈالی گئی تاکہ اس وقت کی مقبول ترین سیاسی جماعت پیپلز پارٹی کو انتخابات سے باہر رکھا جا سکے۔ 1988ء میں ہونے والے ایک فضائی حادثہ میں جنرل ضیاء الحق اپنے آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل اختر عبدالرحمان کے ہمراہ کئی فوجی رفقاء کے ہمراہ حادثہ کا شکار ہو گئے تھے۔ اس حادثہ کے بعد ملک میں عام انتخابات کا انعقاد ہو ا تھا۔ اپنی مقبولیت کے باوجود پیپلز پارٹی کے حکومت اپنی مدت مکمل نہیں کر سکی تھی۔ وہ حکومت دسمبر
1988ء سے اگست 1990 ء تک قائم رہی تھی۔ حکومت کو صدر پاکستان نے اپنے صوابدیدی اختیارات استعمال کرتے ہوئے برخاست کر دیا تھا۔ اس کے بعد ہونے والے کسی بھی انتخاب کے نتیجے میں قائم ہونے والی کوئی حکومت اپنی مدت مکمل نہیں کر سکی۔ حکومتوں کو برخاست کرنے کے لئے ان پر کرپشن کے الزامات بھی عائد کئے گئے جو عجیب اتفاق ہے کبھی ثابت نہیں ہو سکے حالانکہ کرپشن کے الزامات ٹھوس ثبوت نہ ہونے کے باوجود اپنی بنیاد میں وجہ ضرور رکھتے تھے۔
نواز شریف کی1990 ء سے 1993ء کے درمیان پہلی حکومت کے دوران صدر غلام اسحاق خان کے درمیان چپقلش اس حد تک بڑھی تھی کہ اس وقت کے فوج کے سربراہ عبدالوحید کاکڑ نے غلام اسحاق خان اور نواز شریف سے استعفیٰ لے کر دونوں کو رخصت کر دیا تھا۔
فوج کے سربراہ کے اس نتیجہ خیز فیصلے کو کاکڑ فارمولا کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ اس کے بعد انتخابات کے نتیجے میں بے نظیر بھٹو مرحومہ کی پارٹی برسراقتدار آئی جو اپنی مدت مکمل نہیں کر سکی اور 1996ء کے بعد ہونے والے انتخابات میں نواز شریف برسراقتدار آگئے۔ باریوں کا کھیل جاری رہا لیکن 1999ء میں فوج کے سربراہ جنرل پرویز مشرف نے نواز شریف حکومت کو رخصت کر دیا تھا اور نواز نواز شریف نے جلا وطنی اختیار کر لی تھی۔ جنرل پرویز نے عام انتخابات منعقد کئے لیکن چودھری شجاعت کی ماتحتی میں قائم مسلم لیگ قائد اعظم نے اقتدار حاصل کر لیا۔ 2002ء سے 2008 ء تک تبدیلیاں آتی رہیں اور حکومتیں آتی اور جاتی رہیں۔ سابق صدور اپنے آئین اختیارات استعمال کر کے حکومتوں کو رخصت کر دیا کرتے تھے ۔ اب وہ اختیار موجود نہیں ہے کیوں کہ آصف علی زرداری نے اپنے صدارت کے دوران صدر کا یہ صوابدیدی اختیار ہی ختم کر دیا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ اس اختیار کی وجہ سے صدر اور وزیر اعظم کے درمیان کشیدگی پیدا ہو جاتی تھی اور صدر مملکت اپنا اختیار استعمال کر کے حکومت کو ہی برخاست کر دیا کرتے تھے۔
امید یہ ہے کہ 8فروری کے روز ہونے والے عام انتخابات کے نتیجے میں قائم ہونے والی حکومت دیر پا ثابت ہو گی۔ ملک کی ترقی کے سلسلے میں اپنا کردار ادا کرے گی اور عوام کی خوشحالی کے ساتھ ساتھ ملک اور عوام کو درپیش مسائل دیرپا حل تلاش کیا جا سکے گا۔ وسوسے، اندیشے اور خدشات ایک سے زیادہ وجوہات رکھتے ہیں۔ امریکی سرکاری ریڈیو نے یہ خبر دے دی ہے کہ ممکن ہے کہ انتخابات کے انعقاد میں مارچ کے مہینے تک اضافہ بھی ہو سکتا ہے۔8 فروری کو کرائے جانے والی تاریخ پر سپریم کورٹ بھی اپنی مہر لگا چکی ہے۔ شیڈول کے اعلان سے قبل ہی بعض سیاسی جماعتوں کو شکایات ہیں کہ انہیں ہموار میدان نہیں دیا جا رہا ہے۔ اور ان کے مخالفین پر عنایات کی بارش جاری ہے۔ یہ الزامات کے پیش نظر ہی وسوسے، اندیشے اور خدشات جنم لے رہے ہیں۔ عام ووٹر ملے جلے جذبات کا شکار ہے۔ اس کے جذبات مچل رہے ہیں کہ اسے اپنی پسند کی جماعت کا ساتھ دینے نہیں دیا جارہا ہے۔ یہ ہی کشیدگی کا سبب بنے گا۔ ابھی سے بعض شہروں میں ہاتھا پائی کی ابتداء ہو چکی ہے۔ صورتحال نگراں حکومت کے لئے بھی بہتر نہیں ہے۔ کشیدگی کی فضا پورے ملک کے سیاسی ماحول کو پراگندہ کر سکتی ہے۔ دلاسے اور وسوسے ساتھ ساتھ چل رہے ہیں جو بہر حال قومی سیاست کے لئے فائدہ مند ثابت نہیں ہو سکتی ہے۔ ملک کو اندھیرے کی طرف دھکیل نہ دے ۔ نگران حکومت نے غیر جانبدارانہ کردار ادا نہیں کیا تو کشیدگی کوئی بھی رخ اختیار کر سکتی ہے۔ سیاست کرنے والوں نے در گزر، نظر انداز کرنے اور معاملات کو صلاح کن انداز سے نمٹانے کی شعوری کوشش نہ کی تو یہ انتخابات کا انعقاد بھی بے مقصد ہی نہ رہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button