ColumnImtiaz Aasi

سپریم کورٹ اور پیرول پر رہائی

امتیاز عاصی
قیام پاکستان سے اب تک مملکت میں انگریز سرکار کے بنائے ہوئے فوجداری قوانین رائج ہیں۔ بعض قوانین میں کچھ نہ کچھ ترامیم ہوئیں تاہم مجموعی طور پر انگریز دور کے قوانین چل رہے ہیں۔ اسی طرح انگریز سرکار کا بنایا ہوا جیل مینوئل اور پیرول کا قانون بھی نافذ العمل ہے۔ ایک زمانے میں قیدیوں کی پیرول پر رہائی بہت کم ہوتی تھی۔ یہ تو سابق چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کا بھلا ہو جنہوں نے چاروں صوبائی حکومتوں کو قیدیوں کو پیرول قانون پر عمل کرنے کا حکم دیا تھا جس کے بعد پنجاب میں جب تک مسلم لیگ نون کی حکومت رہی سیکڑوں قیدیوں کو پیرول پر رہا کیا گیا۔ پی ٹی آئی کے دور میں تو محکمہ پیرول کی تنظیم نو کے ساتھ نئی نئی اسامیاں تخلیق کی گئیں قیدیوں کو کینیڈا کی طرز پر رہا کرنے کا پروگرام بنایا گیا۔ اس مقصد کے لئے پنجاب انفارمیشن ٹیکنالوجی بورڈ سے سافٹ ویئر بنوا گیا تاکہ پیرول پر رہا ہونے والے قیدیوں کی نقل و حرکت کو مانیٹر کیا جا سکے۔ جب کہ قیدیوں کو پیرول پر رہا ہونے کے بعد کسی خاص جگہ مشقت کی بجائے آزادی سے کہیں بھی ملازمت کرنے کی تجویز تھی لیکن یہ سارا کام دھرا کا دھرا رہ گیا۔ محکمہ پیرول میں ایک کی بجائے دو تین ڈائریکٹر اور ایک ڈائریکٹر جنرل کی پوسٹ رکھی گئی تاکہ پیرول کے محکمہ کو مزید فعال بنایا جائے۔ تعجب ہے پی ٹی آئی کے دور میں یہ سب کچھ ہونے کے باوجود اکا دکا قیدیوں کو پیرول پر رہا کیا گیا۔ جب سے نگران حکومت نے اقتدار سنبھالا ہے قیدیوں کی پیرول پر رہائی کا عمل رک گیا ہے۔ حال ہی میں سیکرٹری داخلہ پنجاب نے دو سو قیدیوں کو پیرول پر رہا کرنے کی منظوری دی جس کے بعد یہ معاملہ کابینہ کی کمیٹی کے سامنے پیش کیا گیا تو کمیٹی نے منظوری دینے سے معذرت کرتے ہوئے کیس وزیراعلیٰ کے پاس بھیج دیا جس پر وزیراعلیٰ پنجاب نے یہ معاملہ نئی حکومت پر چھوڑ دیا۔ سوال ہے قتل کے مقدمات میں عمر قید پانے والے یا سزائے موت سے عمر قید میں آنے والے قیدیوں کو کم از کم بیس برس تک جیلوں میں رہنا پڑ رہا ہے۔ پیرول پر رہائی تو صر ف انہی قیدیوں کو دی جاتی ہے جن کا اندرون جیل کنڈکٹ اچھا ہو اور وہ بالکل رہائی کے قریب ہوتے ہیں۔ چند ماہ پہلے سپریم کورٹ نے چاروں صوبائی حکومتوں کو قیدیوں کی پیرول پر رہائی کو یقینی بنانے کا حکم دیا اس کے باوجود قیدیوں کی رہائی نہ ہونا سوالیہ نشان ہے؟ ہم ملک میں آئین اور قانون کی بات کرتے ہیں قانون پر عمل کی ضرورت ہو تو معاملات کو آئندہ آنے والی حکومت پر چھوڑ دیتے ہیں۔ اس وقت پنجاب میں ترقیاتی کاموں کے علاوہ کون سا کام ایسا ہے جو نگران حکومت نہیں کر رہی ہے۔ اربوں روپے کے فنڈز سے ترقیاتی کام ہو رہے ہیں یہاں تک کہ امارات کی حکومت کے تعاون سے مصنوعی بارش تک ہو چکی ہے۔ صوبے میں اعلی افسران کے تقرر و تبادلوں کے علاوہ بے شمار کام ایسے ہیں جو آنی والی حکومت کو کرنے چاہیے تھے جو نگران حکومت کے دور میں ہورہے ہیں۔ ایک قیدی رہ گئے تھے جن کے معاملے کو نئی حکومت نے دیکھنا ہے۔ تعجب ہے کروڑوں روپے کے بجٹ سے ایک محکمہ میں کام کرنے والے افسران اور دیگر عملے کو بغیر کسی کام کے تنخواہیں دینا کہاں کا قانون ہے؟ بلاشبہ قتل ایک سنگین جرم ہے جس کی سزا موت یا عمر قید ہے۔ اگر کسی قیدی کو اس کی سزا مکمل ہونے سے چند ماہ پہلے رہا کر دیا جائے تو کون سی قیامت آجائے گی۔ پیرول کے قانون کے مطابق جن قیدیوں نے اپنی سزا کا ایک تہائی حصہ پورا کر لیا ہو وہ پیرول پر رہائی کے اہل ہوتے ہیں۔ قیدیوں کو پیرول پررہا نہیں کیا جانا ہے تو پھر اس محکمے کی کیا ضرورت ہے محکمہ کو بھی ختم کیا جانا چاہیے۔ عجیب تماشا ہے پہلے یہی کام سیکرٹری داخلہ کرتا تھا پیرول کمیٹی میں جیل خانہ جات کے افسران، ایڈیشنل سیکرٹری پریزن کے علاوہ قانونی مشیر شرکت کرتے تھے جن قیدیوں کی پیرول پر رہائی کی سفارش کمیٹی کرتی اس کی منظوری سیکرٹری داخلہ پنجاب دیتے تھے جس کے بعد قیدیوں کو اپنے اضلاع سے دوسرے ضلعوں میں مشقت کے لءے بھیجا جاتا تھا۔ یہ تو پی ٹی آئی حکومت کی مہربانی تھی جس نے اس مقصد کے لئے کابینہ کی کمیٹی بنا کر قیدیوں کی رہائی کا سلسلہ روک دیا۔ ہم نگران حکومت کو بھی ذمہ دار قرار نہیں دیتے جب گزشتہ حکومت نے اس معاملے کو سرد خانے میں ڈالنے کے لئے کابینہ کی کمیٹی قائم کردی تو معاملہ خراب ہو گیا۔ نگران حکومت کو چاہیے تھا وہ کابینہ کی کمیٹی کو فوری طور پر ختم کرکے یہ کام پہلے کی طرح سیکرٹری داخلہ کے سپرد کر دیتی لیکن جس میں ملک میں قانون اور آئین کی کوئی حیثیت نہ ہو ایسے ملک میں کسی اچھے کام کی توقع رکھنا محض خام خیالی ہے۔ پنجاب کے نگران وزیراعلیٰ محسن نقوی صوبے میں ترقیاتی کاموں میں گہری دل چسپی رکھتے ہیں۔ ہمیں یقین ہے قیدیوں کی پیرول پر رہائی کا معاملہ وزیراعلیٰ کے علم میں نہیں لائے بغیر التواء میں رکھ دیا گیا ہے۔ یہ بات درست ہے قتل بہت بڑ ا جرم ہے قیدیوں کی سزائے موت کو عمر قید میں بدل دیا گیا ہو اور ان کی رہائی میں صرف چند ماہ باقی ہوں تو انہیں رہا کرنے میں کیا حرج ہے؟ یہ مسلمہ حقیقت ہے مقتول خاندان کے دکھ کا مدوا ممکن نہیں انہیں صبر تو باری تعالیٰ کی ذات دیتی ہے۔ اس کے برعکس قتل جیسا جرم کرنے والے مجرم کے سترہ برس جیل میں رہنے کے بعد اس کے خاندان والوں کا کیا حال ہو گا جسے الفاظ میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔ قتل کرنے والوں میں بہت سے ایسے ہوتے ہیں جو اپنے خاندان کے واحد کفیل ہوتے ہیں ان کے خاندان پر کیا گزرتی ہوتی۔ انگریزوں نے قتل کرنے والوں کو جیلوں میں بی کلاس دینے کا قانون ایسے نہیں بنایا تھا قتل تو بسا اوقات خاندانی رنجش اور اچانک طیش میں آنے کے بعد ہو سکتا ہے۔ انہی وجوہات کی بنا ایسے کیسوں میں دہشت گردی کی دفعات نہیں لگائی جاتیں۔ کسی شخص سے قتل ہونے سے اسے جرائم پیشہ تو نہیں کہا جاسکتا۔ ہمیں امید ہے وزیراعلیٰ پنجاب کابینہ کی کمیٹی کی بجائے پیرول پر رہائی کا اختیار پہلے کی طرح سیکرٹری داخلہ دے کر قیدیوں اور ان کے لواحقین کی دعائیں لیں گے ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button