Column

لاپتہ افراد کے لواحقین پر تشدد افسوسناک

محمد ناصر شریف
ہمارے ملک کا بڑا المیہ یہ ہے کہ جس قوم کے لئے وطن عزیز 14اگست1947ء کو دنیا کے نقشے پر اُبھرا، وہ آج بھی اپنی قوم کو تلاش کر رہا ہے۔ انسانوں میں عدم توازن معاشرتی بگاڑ کا بہت بڑا سبب ہے ،یہ ایک مسلمہ امر ہے کہ معاشرے مل جل کر اجتماعی مفادات کو سامنے رکھ کر چلتے اور قائم رہتے ہیں ۔ وہ معاشرے جہاں کے لوگ صرف اپنے اپنے مفادات کے لیے زندہ ہوں ، وہاں بے حسی ڈیرے جما لیتی ہے اور یہ بات ملک و معاشرے کو تنزلی کی طرف لے جاتی ہے ۔ اسلام آباد میں لاپتہ افراد کے لواحقین ، خواتین اور بچوں پر تشدد افسوسناک اور اسلامی روایات کے بھی خلاف ہے، آئین کے تحت آئین کے دائرے میں احتجاج ہر شہری کا آئینی اور جمہوری حق ہے، بلوچ خواتین نے اپنا آئینی اور جمہوری حق استعمال کیا ہے۔ نہتی خواتین کے ساتھ پولیس اور انتظامیہ کے رویے کو کسی بھی طرح مناسب قرار نہیں دیا جاسکتا۔ بدھ اور جمعرات کی درمیان شب بلوچستان کے علاقہ تربت میں مبینہ مقابلے میں جاں بحق نوجوان کے واقعے کی جوڈیشل انکوائری اور لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے تربت سے شروع ہونے والے لانگ مارچ کے شرکاء نے جی ٹی روڈ اور موٹر وے سے اسلام آباد میں داخل ہونے کی کوشش کی پولیس نے انہیں روکاتو مظاہرین نے چونگی نمبر 26کے قریب پولیس پر پتھراؤ شروع کر دیا، ایوب چوک پر بھی پولیس پر پتھراؤ کیا گیا جس پر پولیس نے جوابی کارروائی کرتے ہوئے لاٹھی چارج کیا اور متعدد مظاہرین کو گرفتار کر لیا، لاٹھی چارج اور پتھراؤ کے نتیجے میں 14مظاہرین اور تین پولیس اہلکار زخمی ہوگئے۔ مظاہرین کو منتشر کرنے کیلئے سخت سردی میں ان پر واٹر کینن سے پانی پھینکا گیا اور آنسو گیس کی شیلنگ بھی کی گئی، سردی میں پانی میں بھیگنے کے بعد خواتین اور بچوں کی حالت بہت خراب ہوئی اور وہ سردی سے کانپتے رہے، پولیس کے مطابق مظاہرین کو احتجاج کیلئے اسلام آباد کے ایف نائن پارک اور ایچ نائن کی پیشکش کی گئی مگر وہ ڈی چوک جانے پر بضد رہے۔ مظاہرین نے رات گئے نیشنل پریس کلب کے سامنے دونوں اطراف سے شاہراہوں کو بند کیا گیا اور مظاہرین ریڈ زون میں میریٹ گیٹ کی طرف بڑھنے لگے جس پر پولیس نے ایکشن لیا، ذرائع کا کہناہے کہ250کے قریب مظاہرین کو گرفتار کیا گیا۔ مظاہرین کے خلاف تھانہ کوہسار اور ترنول میں مقدمات درج کئے گئے۔ بعد ازاں بلوچ یکجہتی مارچ کے شرکا سے حکومتی کمیٹی کے مذاکرات کئے، حکومتی مذاکراتی کمیٹی نے بلوچ یکجہتی کمیٹی سے ملاقات کے دوران ان کی شکایات سنیں اور تحفظات دور کرنے کی یقین دہانی بھی کرائی۔
آئی جی اسلام آباد کا کہنا تھا کہ بلوچ مظاہرین پر تشدد، پولیس کیخلاف طاقت کا استعمال ہوا تو اپنی حفاظت کیلئے یہ سب کرنا پڑا، احتجاج کا یہ کوئی طریقہ نہیں کہ شاہراہیں اور راستے بند کئے جائیں ۔ نگران وفاقی وزراء مرتضیٰ سولنگی، فواد حسن فواد اور جمال شاہ نے جمعرات کو اسلام آباد انتظامیہ کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ آئین کے تحت ہر شہری کو احتجاج کا حق حاصل ہے، سکیورٹی خدشات کی وجہ سے مظاہرین کو ایچ نائن یا ایف نائن پارک میں جگہ دینے کی پیشکش کی، بلوچستان سے آنے والے مظاہرین پرامن تھے، کچھ نقاب پوش مقامی افراد نے صورتحال خراب کرنے کی کوشش کی اور پتھرائو شروع کر دیا، تمام گرفتار خواتین اور جن افراد کی شناخت ہو چکی ، انہیں رہا کر دیا گیا ، جن کی شناخت نہیں ہوئی، وہ تحویل میں ہیں، کمیٹی کے رکن فواد حسن فواد نے کہا کہ گزشتہ 23 دن سے کچھ خواتین و حضرات پریس کلب کے سامنے بیٹھے ہوئے تھے، جو لوگ بلوچستان سے آئے، ان کی طرف سے کوئی شر انگیزی نہیں کی گئی، وہ پرامن تھے لیکن کچھ مقامی نقاب پوش افراد نے صورتحال خراب کرنے کی کوشش کی اور پتھراؤ کیا۔ انہوں نے کہا کہ ایف آئی آر میں جن لوگوں کو نامزد کیا گیا ہے ان کا معاملہ عدالت میں ہے۔لانگ مارچ کے شرکاء پر اسلام آباد پولیس کی جانب سے آنسو گیس کی شیلنگ، تشدد اور گرفتاریوں کے خلاف بلوچ یکجہتی کمیٹی کے زیر اہتمام کوئٹہ میں سریاب روڈ اور بلوچستان اسمبلی کے سامنے احتجاجی دھرنے دیئے گئے اور شٹر ڈائون کیا گیا۔ بلوچ یکجہتی کمیٹی نے پریس ریلیز میں کہا ہے کہ اسلام آباد میں بلوچ مائوں اور بہنوں کے ساتھ جو سلوک روا رکھا گیا وہ بلوچ قوم ہمیشہ یاد رکھے گی۔ اس وقت ڈاکٹر ماہ رنگ، سائرہ، ماہ زیب سمیت درجنوں خواتین و بچے اسلام آباد سے لاپتہ کیے گئے ہیں اور ان کا کسی کو بھی علم نہیں کہ انہیں کہاں رکھا گیا ہے ۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے بلوچ لانگ مارچ کے شرکا کی گرفتاریوں کیخلاف درخواست پر دوران سماعت ریمارکس دئیے کہ یہ پاکستانی شہری ہیں اور احتجاج ان کا حق ہے ، کسی نے کوئی دہشت گردی تو نہیں کی۔ بلوچستان نیشنل پارٹی ( بی این پی) کے سربراہ سردار اختر مینگل نے کہا ہے کہ لاپتا افراد کے اہل خانہ کا لانگ مارچ گزشتہ رات اسلام آباد پہنچا، جہاں بچوں اور خواتین سمیت لانگ مارچ کے شرکا پر تشدد کیا گیا۔ نگران حکومت کا قیام صاف و شفاف انتخابات کا انعقاد ہوتا ہے، تمام حکومتوں کو سمجھانے کی کوشش کی بلوچستان تنازع کا واحد حل سیاسی مذاکرات ہیں۔ اس سے قبل بھی سندھ ہائی کورٹ ہو، اسلام آباد ہائی کورٹ ہو و دیگر عدالتیں لاپتہ افراد کے کیسز کو دنیا میں پاکستان کے نام پر دھبہ ہی قرار دیتی ہیں اور ان کی جانب سے دی گئی باربار ڈائریکشنز کے باوجود لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے کوئی کام نہیں ہوتا، ویسے تو ریاست ہر معاملے میں طاقتور ہوتی ہے لیکن جب معاملہ ہو لاپتہ افراد کا یا عام آدمی کو انصاف فراہم کرنے کا تو ریاست دونوں ہاتھ اٹھا کر کہتی ہے کہ ہم کچھ نہیں کر سکتے۔
پاکستان میں جس صاحب اقتدار و اختیار کا جو بھی دل چاہتا ہے وہ کرتا ہے۔ کئی جے آئی ٹیز کی تحقیقات سامنے آچکی ہیں، سابق افسران نے خود بہت سی روداد سنائی ہیں جس میں انہوں نے وطن عزیز میں چلنے والے مختلف سسٹمز کو بے نقاب کیا ہے لیکن سسٹم اس ملک میں طاقتور ہے اور تمام ادارے ہی کسی نہ کسی طرح اس کے ماتحت کام انجام دے رہیں۔ بلوچستان سمیت حساس محرومی کا شکار صوبوں کے لیے یہی سوالات ابھرتے ہیں کہ ان صوبوں میں غربت اور پسماندگی دور کیوں نہیں ہوتی، غریبوں کے بچوں کو تعلیم کی سہولت کیوں کر میسر نہیں، روزگار اور اعلیٰ تعلیم کے یکساں مواقع کیوں نہیں ملتے، چھوٹے صوبوں میں بڑے صوبے سے تعیناتیاں کیوں کی جاتی ہیں، کوٹہ سسٹم کب تک اس ملک میں میرٹ کا قتل کرتا رہے گا۔ بنیادی ڈھانچہ اور بنیادی ضرورتوں کی فراہمی کیوں نہیں کی جارہی، استحصال اور احساس محرومی کا سلسلہ ختم کیوں نہیں ہوتا؟ معدنیات کے بے بہا ذخائر عوام کی تقدیر بدلنے کا سبب کیوں نہیں بنتے، ملک میں استحصال ، احساس محرومی اور ناانصافی کا دور کب ختم ہوگا، نظر انداز کئے جانے کے زخم ہرے کیوں رہتے ہیں؟ اور ترقی و خوشحالی کی دوڑ میں یہ بلوچستان سب سے پیچھے کیوں رہ جاتا ہے؟ ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button