Ali HassanColumn

کراچی میں آگ کا ایک اور واقعہ

علی حسن
کراچی میں 15روز کے دوران آگ لگنے کا دوسرا واقعہ، عائشہ منزل کے قریب عرشی شاپنگ سینٹر میں خوفناک آتشزدگی کے نتیجے میں4افراد جاں بحق اور 2جھلس کر شدید زخمی ہو گئے، ایک کی حالت تشویشناک بتائی جاتی ہے، وزیراعلی سندھ مقبول باقر نے واقعہ کی فوری تحقیقات کا حکم دے کر کمشنر کراچی کی سربراہی میں 3رکنی کمیٹی قائم کردی جبکہ گورنر سندھ نے کمشنر کراچی سے رپورٹ طلب کرلی ہے۔ تفصیلات کے مطابق شاپنگ سینٹر کے گرائونڈ فلور پر دکانوں میں لگنے والی آگ رہائشی فلیٹوں تک پہنچ گئی، آگ فوم کے گدوں کی دکان میں لگی جس نے دیگر دکانوں کو بھی لپیٹ میں لے لیا جبکہ شعلے عمارت کی بالائی رہائشی منزلوں تک پہنچ گئے تھے ۔ آگ لگنے سے بھگدڑ مچ گئی تھی ۔ لوگ جانیں بچانے کیلئے دیوانہ وار عمارت سے نکلنے کی کوشش کر رہے تھے ۔ ایک عینی شاہد دکاندار کا کہنا تھا ایک دکان میں گیس سلنڈر لیک ہوا ، جس سے آگ لگ گئی اور سلنڈر دھماکے سے پھٹ گیا اور آگ پھیلتی ہوئی فرنیچر کی اور فوم کے گدوں تک پہنچ کر مزید بھڑک اٹھی۔ متاثرہ عمارت میں 250سے زائد دکانیں اور تقریباً 450رہائشی فلیٹ ہیں۔ محکمہ سندھ بلڈنگ کنٹرول کے ترجمان کے مطابق آگ پر مکمل قابو پانے کے بعد ایس بی سی اے کی ٹیکنیکل ٹیم عمارت کا جائزہ لے گی، مکمل جانچ پڑتال کے بعد ہی بتایا جاسکے گا کہ عمارت قابل استعمال ہے یا نہیں۔ کراچی کے اخبارات نے آگ لگنے کے واقعات پر سنجیدگی سے کوئی کام نہیں کیا بلکہ اداروں میں بھی کسی کو بھی ذمہ داری نہیں ٹھہرایا گیا۔ البتہ ایک اخبار نے لکھا کہ یہ بھی ضروری ہوگا کہ مالکان کو انتباہ کرتے ہوئے از خود موقع فراہم کرنے کے بعد شہر میں واقع تمام عمارتوں کی جانچ پڑتال کی جائے، بصورت دیگر قانونی کارروائی عمل میں لاتے ہوئے اصلاح احوال کو یقینی بنایا جائے۔ عمارت میں کاروبار کرنے والے لوگ اور رہائش رکھنے والے لوگ دیکھتے دیکھتے قلاش ہو گئے ہیں۔ لوگوں کا تمام اثاثہ دیکھتے دیکھتے راکھ کے ڈھیر میں تبدیل ہو گیا۔ ایک رات قبل اپنے مکان میں رہنے والے دوسری رات سڑک پر تھے۔ کہیں بھی حکومت یا کوئی ادارہ ان کی مدد کرتا ہوا نظر نہیں آیا۔ ہمارے ہاں سرے سے ایسا کوئی ادارہ، محکمہ یا لوگ نہیں ہیں جو دکھ بھری اس گھڑی میں متاثرین کو مدد کر سکیں۔ احساس کیا جائے تو یہ بہت ہی سخت گھڑی محسوس ہوتی ہے۔
بدھ 29نومبر کو اسی اخبار میں تماش گاہ کے عنوان سے کالم ’’ لاقانونیت کے شاخسانے‘‘ شائع ہوا تھا۔ کالم میں تحریر کیا گیا تھا کہ کراچی کے علاقے راشد منہاس روڈ پر جمعہ کے روز شاپنگ مال میں آگ لگنے سے گیارہ افراد ہلاک ہو گئے۔ آگ کے معاملے پر کراچی میٹروپولیٹن کارپوریشن کے محکمہ فائر بریگیڈ نے اپنی رپورٹ جاری کی ہے۔ وہ رپورٹ کیا ہے بس افسوس کرنے کا مقام ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 6منزلہ شاپنگ سینٹر میں ہنگامی صورت حال میں باہر جانے کا کوئی راستہ نہیں تھا۔ حفاظتی اقدامات موجود نہیں تھے۔ حادثے کی صورت میں بیک اپ پر بجلی کا نظام بھی موجود نہیں تھا۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ایمرجنسی میں بچائو کے راستوں کی نشاندہی کیلئے روشنی کا انتظام نہیں تھا۔ آگ لگنے کے حادثے میں عمارت میں موجود 11افراد لقمہ اجل بنے۔ یہ 11افراد آگ لگنے کی وجہ سے نہیں بلکہ دم گھٹنے سے جاں بحق ہوئے۔ شاپنگ مال میں 210دکانیں تھیں جس میں بیشتر کو بچایا گیا تھا، 45دفاتر کے ملازمین مال میں آگ کی وجہ سے پھنسے جنہیں ریسکیو کیا گیا، شاپنگ پلازے میں ہوا کی آمد و رفت کا نظام نہ ہونے کی وجہ سے دھواں بھر ہوا تھا۔
ایک اور رپورٹ میں ڈائریکٹر ریسکیو 1122سندھ ڈاکٹر عابد کا کہنا ہے کہ ایک سروے کے مطابق 90فیصد عمارتوں میں فائر فائٹنگ کا نظام سرے سے ہی موجود نہیں۔ انہوں نے کہا ہے کہ شاپنگ مال میں آگ لگنے کے معاملے کی ایف آئی آر ہو چکی اور تحقیقات بھی ہوں گی۔ آگ لگنے کے واقعات میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے، بلڈنگ کنٹرول کے معاملے پر ابھی تک عمل درآمد نہیں ہوا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ شاپنگ مال میں فائر فائٹنگ کا نظام ہمیں نظر نہیں آیا، ریسکیو ٹیموں کو آگ بجھانے کے لیے شاپنگ مال کی عمارت میں داخل ہونے میں بھی دشواری پیش آ رہی تھی۔ عمارتوں میں فائر فائٹنگ کا نظام ہونا کافی نہیں، عمارت میں موجود لوگوں کی ٹریننگ بھی ہونی چاہیے، فائر ڈرلز ہونا بھی بہت ضروری ہے۔
کراچی یا پاکستان کے کسی بھی شہر میں آگ لگنے کا یہ پہلا واقعہ نہیں ہے بلکہ سیکڑوں واقعات ہو چکے ہیں اس کے باوجود ذمہ دار حکام بوجوہ حفاظتی اقدامات نہیں کرتے ہیں۔ حکام توجہ نہیں دیتے۔ آگ لگنے کے واقعات اس لحاظ سے سنگین ہوتے ہیں کہ لوگوں کی جان چلی جاتی ہے لوگوں کے اثاثہ پل میں راکھ میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔ واقعہ رونما ہونے کے بعد تحقیقات اور تفتیش کے نام پر رپورٹوں کی تیاریوں کا ایک لمبا سلسلہ شروع کر دیا جاتا ہے ۔ سوال یہ ہے کہ کیوں نہیں تعمیر کے وقت ہی احتیاطی اور حفاظتی اقدامات کئے جا سکتے ہیں۔ تعمیر کی اجازت دینے والے محکمہ کا معاملہ تو یہ ہے کہ پیسے دے کر کوئی بھی فرد کچھ ہی کرا سکتا ہے۔ آگ کے شکار راشد منہاس جیسی مصروف ترین سڑک پر واقع شاپنگ پلازہ میں سانس لینے کا کوئی ذریعہ نہیں تھا۔ پوری عمارت اس بری طرح چاروں طرف سے پیک تھی کہ بھاگنے کا راستہ تھا نہ ہی جان بچانے کا راستہ تھا۔ نقشہ منظور کرتے وقت اس طرف توجہ کیوں نہیں دی جاتی ہے۔ یہ بتانا ضروری نہیں کہ عمارت تعمیر کرنے والا بلڈر یا ٹھیکیدار تعمیرات کے دوران دئے گئے قانونی تقاضوں کو ذمہ دار افسران کی ملی بھگت سے اس لئے پورا نہیں کرتے ہیں کہ کہیں وہ سمجھتے ہیں کہ ان کا پیسہ خرچ ہو جائے گا ، ان کی زمین ان کے خیال میں بلا وجہ ’’ ضائع ‘‘ ہو جائے گی۔ اپنے معمولی فائدے کے لئے وہ لوگوں کی جانوں سے کھیل جاتے ہیں۔ مشکل یہ ہے کہ غیر قانونی کام کرنے والے لوگوں کی بڑی تعداد ذہن بنا کر رکھتی ہے کہ اس ملک میں ہونا تو کچھ بھی نہیں ہے کیوں قانون ، قانونی تقاضوں، پابندیوں پر عمل کیا جائے۔ ہوتا بھی کچھ ایسا ہی ہے کہ کچھ بھی ہوجائے ، غیر قانونی معاملات کے مرتکب افراد کے خلاف کوئی بھی کارروائی نہیں کوتی ہے۔ وزراء ایسے واقعات کو اپنی ذمہ داری تصور نہیں کرتے ہیں۔ بات یہ ہے کہ ہمارے ملک میں وفاقی اور صوبائی حکومتیں کس معاملہ کو اپنی ذمہ داری سمجھتے ہیں یا تصور کرتے ہیں۔ جہاں جہاں پیسہ نظر آتا ہے سب جھپٹ پڑتے ہیں۔ حکومتوں نے عوام سے تعلق رکھنے والے تمام معاملات کو مذاق بنا رکھا ہے۔ صوبہ سندھ کے نگراں وزیر اعلیٰ جسٹس ریٹائرڈ مقبول باقر جن جن اضلاع کا جہاں جہاں دورہ کرتے ہیں سوائے برہمی کا اظہار کرنے، تنبیہ کرنے اور تحقیقات کرنے کا حکم دینے کے علاوہ کچھ اور نہیں کر پاتے۔ ان کے احکامات کو سرکاری افسران یہ سوچ کر سنجیدگی سے نہیں لیتے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ نگران وزیر اعظم ہوں، وزیر اعلیٰ ہوں یا وزراء ان سب لوگوں کو مہینوں کے اندر اندر چلا ہی جانا ہے۔ دیکھا گیا ہے بعض وزراء تو معاملات میں قطعی دلچسپی نہیں ہیں۔ یہ سارے معاملات بہت زیادہ دلچسپی کا تقاضہ کرتے ہیں۔ ہر دم نگرانی کا تقاضہ کرتے ہیں۔ لیکن منتخب حکمران اور سرکاری افسران اپنی ذمہ داری ہی نہیں سمجھتے ہیں۔ اسی وجہ سے پورے ملک کا انتظامی نظام بیٹھ گیا ہے۔ اسے بحال کرنے میں بھی وقت لگے گا۔ یہاں کسی کے پاس وقت ہی نہیں ہے۔
اس تماش گاہ میں مجموعی طور پر اعلیٰ حکام اور افسران کا شہری سہولتوں کے حوالے سے رویہ تشویش ناک ہے۔ افسران کو لاپرواہی، سست روی، نظر انداز کر دینے کی ایسی وبا لگی ہے کہ ملک بھر میں صورت حال گھمبیر ہو گئی ہے۔ جو صورت حال بن گئی ہے وہ ہمیں تباہی کے اس کنارے لے جا رہی ہے جہاں سوائے گرنے کے کچھ اور نہیں ہوگا۔ واقعات رونام ہو جاتے ہیں، عام لوگ متاثر ہو جاتے ہیں اور بس انہیں تسلی دینے کے دو لفظ بھی کوئی ادا نہیں کرتا ہے۔ کراچی یا کسی اور شہر میں لگنے والی آگ کے واقعات کے بعد حکومتوں کو تفصیل کے ساتھ باریک بینی سے خامیوں کو جائزہ لینا چاہئے ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button