ColumnHabib Ullah Qamar

بابری مسجد کی شہادت اور انتہا پسندوں کی نئی سازشیں

حبیب اللہ قمر
بابری مسجد کی شہادت کو اکتیس برس گزر گئے۔ ہر سال چھ دسمبر کو جب اس کا یوم شہادت آتا ہے تو دنیابھر میں مسلمانوں کے زخم ایک بار پھر تازہ ہو جاتے ہیں۔ چھ دسمبر 1992ء کو تاریخی مسجد شہید کرنا کوئی اتفاقیہ حادثہ نہیں بلکہ ہندو انتہاپسندوں کی ایک منظم اور سوچی سمجھی سازش کا نتیجہ تھا۔ بابری مسجد کی تحقیقات کرنے والے جسٹس من موہن سنگھ لبراہن کیشن کی رپورٹ میں واضح طور پر لکھا گیا ہے کہ مسجد شہید کرنے کی سازش کرنے والے انتہاپسندوں کو اس وقت کی کانگریس حکومت اور وزیر اعظم نرسمہا را کا مکمل تعاون حاصل تھا۔ اسی طرح ہندو ستانی ایجنسیوں اور فوج کے افسر بھی باقاعدہ طور پر اس سانحہ میں ملوث تھے کیونکہ آر ایس ایس، بجرنگ دل، شیو سینا اور دیگر ہندو انتہا پسند تنظیموں کے جو دہشت گرد بابری مسجد شہید کرنے میں پیش پیش رہے، انہیں فوج کے اعلیٰ افسروں کی جانب سے تربیت دی گئی اور توڑ پھوڑ کرنے والے دستہ کا نام ’’ لکشمن سینا‘‘ رکھا گیا تھا۔ اسی طرح یہ بات بھی آن ریکارڈ ہے کہ دہشت گردوں کو تربیت دینے والے فوجی افسران نے پلان بی بھی ترتیب دے رکھا تھا جس کے مطابق یہ امر طے تھا کہ اگر توڑ پھوڑ کرنے والا دستہ کسی وجہ سے ناکام ہو تا ہے تو مسجد کو ڈائنا میٹ سے اڑا دیا جائے گا۔ یہ باتیں صرف جسٹس من موہن لبراہن کمیشن کی رپورٹ میں ہی نہیں لکھی گئیں بلکہ بابری مسجد کی شہادت میں پیش پیش ہندو انتہا پسند تنظیموں کے مرکزی لیڈر مختلف مواقع پر دئیے گئے انٹرویوز کے دوران بھی اپنے ان جرائم کا فخریہ انداز میں اقرار کرتے رہے ہیں۔ بابری مسجد کی شہادت میں لال کرشن ایڈوانی، مرلی منوہر جوشی اور اٹل بہاری واجپائی سمیت 86انتہا پسند وں کو ملوث قرار دیا گیا۔ چونکہ اس منصوبہ کی تکمیل کیلئے مرکزی و صوبائی حکومت متحد تھیں اس لئے پولیس نے موقع پر موجود ہونے کے باوجود انتہاپسندوں کا ہاتھ روکنے کی سرے سے کوئی کوشش نہیں کی اور عملی طور پر ان کا ساتھ دیتی رہی۔ کلیان سنگھ جو اترپردیش میں اس وقت وزیر اعلیٰ تھے کہتے ہیں کہ میں نے خود ریاستی پولیس کو حکم دیا تھا کہ وہ بابری مسجد شہید کرنے کیلئے جمع ہونے والے انتہاپسندوں پر گولی نہ چلائیں اس لئے وہ خود کو بھی بابری مسجد کی شہادت کا ذمہ دار سمجھتے ہیں۔
بابری مسجد کی شہادت میں ہندو انتہا پسند تنظیم بی جے پی اور آر ایس ایس کا کردار سب سے نمایاں رہا ہے اس لئے پچھلی دو دہائیوں سے بی جے پی رام مندر کی تعمیر کے مسئلہ پرخوب سیاست کر رہی ہے۔ ہندوئوں کے جذبات کو یہ کہہ کر بھڑکایا جاتا رہا ہے کہ کانگریس حکومت نے اپنے دور اقتدار میں رام مندر کی تعمیر کا وعدہ پورا نہیں کیا تاہم ان کی حکومت اس کام کو ضرور پایہ تکمیل تک پہنچائے گی۔ گزشتہ انتخابات کے دوران امیت شاہ جیسے لیڈروں کی طرف سے واضح طور پر اس عزم کا اظہار کیا جاتا رہا کہ بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر ہندوئوں کی بڑی آرزو ہے اور یہ ہر حال میں تعمیر کیا جائے گا۔ ہندو انتہا پسند تنظیم بی جے پی نے انتخابات سے قبل اپنے جس منشور کا اعلان کیا اس کا ایک نعرہ ’’ ایک بھارت، عظیم بھارت‘‘ تھا اور اس منشور میں بھی بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر کا اعلان بھی شامل تھا، یہی وجہ ہے کہ بی جے پی حکومت کی جانب سے سرکاری سطح پر رام مندر کی تعمیر کا عمل مکمل کرنے کے لیے پوری قوت صرف کی گئی۔ تاریخی بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر کو ہندوستانی سپریم کورٹ کے متنازعہ فیصلے کا تسلسل قرار دیا گیا ہے۔ مودی سرکار نے اپنے دور حکومت میں بھارتی سپریم کورٹ پر مسلسل دبائو برقرار رکھا کہ وہ بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر کا فیصلہ دے جس پر ہندوستانی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس رنجن گوگوئی کی سربراہی میں قائم بینچ نے ہندو انتہاپسندوں کو خوش کرنے کیلئے فیصلہ سنایا اور ایک نئے فساد کی بنیاد رکھ دی۔ اگرچہ عدالت کے روبرو بابری مسجد کی تعمیر سے متعلق سبھی تاریخی حقائق رکھے گئے اور ہندو انتہا پسندوں کے پاس وہاں رام مندر کی تعمیر کا کوئی جواز نہیں تھا تاہم اس کے باوجود جس طرح بھارتی عدلیہ نے افضل گورو، اجمل قصاب اور مقبول بٹ جیسے شہداء کو بلاوجہ پھانسی کی سزائیں سنائیں اور یہ کہا گیا کہ اگرچہ ثبوت تو نہیں ہیں لیکن انہوں نے ہندوستانی معاشرے کے اجتماعی ضمیر کو مطمئن کرنے کیلئے یہ فیصلے کئے ہیں بالکل اسی طرح بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر کا متنازعہ فیصلہ سنایا گیا جو کہ اصل حقائق کے بالکل برعکس اور کسی طور درست نہیں تھا۔ اب ہندوستانی سپریم کورٹ کے اسی فیصلہ کو بنیاد بناتے ہوئے بی جے پی ، آر ایس ایس، بجرنگ دل اور وشوا ہندو پریشد جیسی انتہا پسند تنظیموں کے اہلکار دندناتے پھر رہے ہیں اور مسلمانوں کی میراث تاریخی بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر کا سلسلہ جاری ہے۔
ہندو انتہاپسندوں کی جانب سے کچھ عرصہ قبل یہ شوشہ بھی چھوڑا گیا ہے کہ رام مندر کی تعمیر شروع کرتے وقت کھدائی کے دوران یہاں پہلے سے قائم مندر کی باقیات ملی ہیں جس سے پتہ چلتا ہے کہ اس مقام پر پہلے بھی مندر ہی تھا۔ بھارتی حکومت اور میڈیا کی طرف سے انتہاپسندوں کے اس جھوٹے دعوے کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا تاکہ دنیا کو دھوکہ دیا جاسکے کہ ہندوستانی سپریم کورٹ کا فیصلہ درست تھا اور یہ کہ مبینہ طور پر تاریخی بابری مسجد رام مند رکی جگہ پر ہی تعمیر کی جارہی ہے۔ بی جے پی سرکار کی جانب سے ہندوستانی سپریم کورٹ کے فیصلہ کے بعد رام مندر کی تعمیر میں سخت بدعنوانی کے معاملات سامنے آئے ہیں اور اسے اب تک کا سب سے بڑا مذہبی گھپلا قرار دیا جارہا ہے۔ ہندوستانی صحافیوں کا کہنا ہے کہ رام مندر کی تعمیر شروع سے ہی ہندو انتہا پسند لیڈروں کے لیے دولت جمع کرنے کا ذریعہ رہا ہے۔ سابق وی پی سنگھ حکومت میں محکمہ انکم ٹیکس نے ہندو انتہا پسند وشوا ہندو پریشد کو ایک نوٹس جاری کیا تھا کہ اس نی یورپ اور امریکہ میں ہندوستانیوں سے خلاف ضابطہ بہت بڑے پیمانے پر دولت جمع کی ہے لیکن وی ایچ پی نے اس نوٹس کا جواب دینے کی بجائے محکمہ انکم ٹیکس کے متعلقہ افسر کو ہی عہدے سے فارغ کروا دیا۔ ایودھیا میں جوں متنازعہ مندر کی تعمیر بڑھ رہی ہے ہندو انتہا پسند مسلمانوں کا جینا دوبھر کر رہے ہیں اور دوسری مساجد کو بھی شہید کرنے کی دھمکیاں دی جارہی ہیں۔
بی جے پی کی جانب سے ماضی میں مسلمانوں کو اس فارمولا پر راضی کرنے کی کوشش کی گئی کہ آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ سپریم کورٹ میں دائر مقدمہ واپس لے اور ہندوئوں کو اسی جگہ رام مندر کی تعمیر کرنے کی اجازت دے جہاں پہلے بابری مسجد تھی۔ اس کے بدلے میں وہ مسجد کی تعمیر کیلئے مندر کی جگہ سے دور ایودھیا میں ہی نہ صرف زمین دیں گے بلکہ اس مقصد کی خاطر وہ اپنے سروں پر اینٹیں اٹھانے کو بھی تیا رہیں۔ مسلمانوں کی نمائندہ تنظیموں نے ہر بار ان کے مطالبات کو ٹھکرایا، یوں جب مودی حکومت کو ناکامی ہوئی تو ہندوستانی عدلیہ کو استعمال کرتے ہوئے اپنی مرضی کے مطابق فیصلہ کروا لیا گیا۔ بابری مسجد کی شہادت کو اکتیس برس گزر چکے لیکن جسٹس لبراہن کمیشن کی رپورٹ پر عمل نہیں کیا گیا۔ سی بی آئی نے اپنی تحقیقات میں جان بوجھ کر ایسی کمزوریاں پیدا کر دی تھیں کہ جن سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بابری مسجد کی شہادت کے ذمہ دار انتہا پسند عناصر قانون کی گرفت سے بچ نکلے ۔ ایک طرف صورتحال یہ ہے کہ یعقوب میمن جیسے مسلمانوں پر بم دھماکوں میں ملوث ہونے کا الزام لگا کر تحقیقات مکمل کئے بغیر پھانسی کے پھندے پر لٹکا دیا جاتا ہے تو دوسری جانب ہزاروں مسلمانوں کے قاتل اور بابری مسجد شہید کرنے والوں کو تمام تر ثبوت ہونے کے باوجود بری کر دیا جاتا ہے لیکن کوئی انہیں پوچھنے والا نہیں ہے ۔ چھ دسمبر 1992ء بابری مسجد کی شہادت کا سانحہ دنیا کی سب سے بڑی نام نہاد جمہوریت کے ماتھے پر بدنما داغ ہے۔ بابری مسجد کی شہادت محض ایک قطعہ زمین کا مسئلہ نہیں بلکہ اس سے مسلمانوں کا مذہبی تشخص اور بنیادی حقوق وابستہ ہیں۔ مودی سرکار کو واضح طور پر بتانا ہوگا کہ وہ جس طرح کی مذموم حرکتیں جاری رکھے ہوئے ہیں انہی سے بھارتی معاشرے میں اشتعال پھیلتا ہے اور پھر ظلم میں پسے پرامن لوگ اپنی مساجد و مدارس اور عزتوں و حقوق کے تحفظ کیلئے ہتھیار اٹھانے پر مجبور ہوتے ہیں۔ مسجدیں اللہ کا گھر ہیں اور مسجد کی جگہ کچھ اور تعمیر نہیں ہو سکتا۔ بی جے پی حکومت بابری مسجد کی جگہ رام مندر تعمیر کے بعد بنارس کی گیان واپی اور متھرا کی شاہی مسجد سمیت دوسری تاریخی مساجد کے خلاف بھی اسی طرح سازشیں کر رہی ہے۔ بھارت سمیت دنیا بھر کے مسلمانوں کو اس حوالے سے اپنی آنکھیں کھلی رکھنا ہوں گی۔ بھارت میں تاریخی مساجد کے تحفظ کے لیے ہندو انتہا پسند بی جے پی حکومت کے ظالمانہ فیصلوں اور ریاستی دہشت گردی کے آگے بند باندھنا بہت ضروری ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button